آزادی اور ہم

296

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تعلیمی ادارے کھل چکے تھے۔ راحیلہ شہر کے ایک نامور اسکول کے اسٹاف روم میں بیٹھی تھی، جہاں اس کی حال ہی میں تعیناتی ہوئی تھی۔ اسکول میں آ ج اس کا پہلا دن تھا۔ یکے بعد دیگرے پرانی ٹیچرز بھی آتی جارہی تھیں اور ایک دوسرے سے مل کر خوشی کا اظہار کر رہی تھیں۔
’’ماہا ! یار مسڈ یو سو مچ ،تھوڑی موٹی ہو گئی ہو۔‘‘ شانے پر رکھے بال ایک طرف ڈالتے ردا نے ماہا کو گلے لگایا۔
’’آئی مسڈ یو ٹو ردا‘ کیسی گزریں ویکشنز۔‘‘
’’سو بورنگ یار!‘‘ جواب آیا۔
’’اوہ نیو اپوائنٹمنٹ؟‘‘ ماہا نے راحیلہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا
’’جی میں نے آج ہی جوائن کیا ہے۔‘‘ راحیلہ نے سر سے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
’‘نائس میٹنگ یو۔‘‘ ردا نے بھی آ گے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔
راحیلہ خاموشی سے بیٹھی باقی آنے والی ٹیچرز کا جائزہ لینے لگی۔
’’مس راحیلہ! آپ کو میڈیم بلا رہی ہیں۔‘‘ آیا نے اطلاع دی تو وہ آفس کی جانب بڑھ گئی۔
’’السلام علیکم میڈم!‘‘ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کرسی کی طرف اشارہ کرنے پر راحیلہ نے بیٹھتے ہوئے ان کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام… آ ج سے آپ نے جوائن کر لیا ہے، اوکے گڈ۔ جلد ہی آپ کی کلاسز کا ٹائم ٹیبل دے دیا جائے گا۔ اب چوں کہ اگست اسٹارٹ ہو گیا ہے تو آزادی کے حوالے سے اسکول میں پری پریشن اسٹارٹ کریں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اسکول میںاس سلسلے میں بہت بڑا فنکشن رکھا جاتا ہے۔ پیرینٹس بھی انوائٹڈ ہوتے ہیں۔ آ پ نے انٹرویو میں مینشن کیا تھا کہ آ پ لکھتی ہیں، تو ہم چاہیں گے کہ آپ کی اس قابلیت سے ہم مستفید ہو سکیں۔ کوئی بھی تحریر جو کہ ہم ڈرامے یا ٹیبلو کے طور پر پیش کر سکیں، آپ لکھیں اور بتائیں۔ ٹھیک ہے۔ او کے تھینک یو۔‘‘
’’جی ضرور، انشاء اللہ۔‘‘ راحیلہ نے پُر اعتماد لہجے میں کہا اور مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
…٭…
’’کوئی ایسی تحریر ہونی چاہیے، جس سے ہماری نئی نسل کو کچھ تو اندازہ ہو کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔‘‘ راحیلہ نے سوچا۔
’’آج کل کے بچوں کی ذہن سازی اور اپنے آپ کو بھی تو منوانے کا بہترین موقع ملا ہے تو محنت تو کرنی پڑے گی۔‘‘ وہ سوچتے ہوئے مسکرائی اور کاغذ قلم سنبھال لیا۔ دو، تین دن کی محنت کے بعد وہ آخر ایسی تحریر لکھنے میں کامیاب ہو گئی، جس سے وہ کافی مطمئن تھی۔
…٭…
یوم آزادی کے فنکشن کو فائنل کرنے کے لیے میڈم نے تمام ٹیچرز کو اپنے آفس میں بلایا ہوا تھا اور ان کی کاوشوں کے بارے میں دریافت کر رہی تھیں۔
’’جی مس ردا! آ پ کا کیا آئیڈیا ہے؟‘‘
’’میڈم آج کل یہ سونگ بہت اِن ہے ، میں نے سوچا کہ اس پر ٹیبلو رکھیں گے۔ گرلز گرین اسکرٹ اور وائٹ بلاؤز اور بوائز وائٹ شرٹ اور گرین شورٹس میں ڈریس اَپ ہوں گے۔ ہاتھوں میں ایک بچے کے گرین بیلون ہوگا اور ایک بچی کے پاس وائٹ بیلون ہو گا۔‘‘ مس ردا نے تفصیلات بتائیں۔
’’ویری نائس۔ ٹھیک ہے، سب بہت انجوائے کریں گے۔ آپ تیاری شروع کروائیں۔‘‘
’’اور مس ماہا، آپ بتائیں؟‘‘
’’میڈم چوں کہ ہمارے اسکول کی جمناسٹک بہترین ہے، تو ان کی یہ مہارت اس موقع کی مناسبت سے بہت گریس فل لگے گی۔ گرین اینڈ وائٹ جمپنگ سوٹ میں جمناسٹک کرتے ہوئے بچے باری باری آئیں گے اور مختلف پوز کر کے ’’PAKISTAN‘‘ لکھیں گے۔‘‘
’’ہوں… اس پر تو کافی داد ملنی چاہیے اسکول کو۔‘‘ میڈم نے ماہا کی حوصلہ افزائی کی تو اس کی گردن کچھ اور بھی اکڑ گئی۔
’‘اور مس راحیلہ آپ کیا آئیڈیا لے کر آئی ہیں؟‘‘
’’میڈم میں نے ایک ڈراما تحریر کیا ہے، جس میں اپنی تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے 1947 کے واقعات کو بچے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے احساسات اور جذبات ناظرین تک پہنچائیں گے۔ اس کے ذریعے ہم بچوں کو بتائیں گے کہ یہ ملک کتنی تگ و دو اور قربانیوں کے بعد ہمارے آبا و اجداد نے ہمارے لیے حاصل کیا اور آزادی کی قدر کیسے کی جائے۔‘‘ راحیلہ نے پرجوش طریقے سے بتایا۔
’’ہمم ، مس راحیلہ اس کو تھوڑا آسان اور دل چسپ بنائیں۔‘‘
’‘کوئی ہسٹری کی کلاس لگے گی۔‘‘ ماہا نے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔
’’اور مس اروبہ آپ کے سونگ کا کیا ہوا؟‘‘ میڈم اگلی ٹیچر کی طرف متوجہ ہوچکی تھیں۔
راحیلہ سوچ رہی تھی کہ یومِ آزادی کیا صرف ہلا گلا کرنے، ناچ گانوں سے خوش ہونے کے لیے ہی منائی جاتی رہے گی؟
’’او کے تھینک یو ٹیچرز آپ لوگ جلد ہی تیاری مکمل کریں۔ مس راحیلہ آپ اس پر تھوڑی محنت کر کے اس کو دل چسپ بنائیں۔ اگر گنجائش ہوئی تو اس ڈرامے کو بھی ایڈجسٹ کر لیں گے۔‘‘ سرسری طور پر کہتے ہوئے میڈم اٹھ کھڑی ہوئیں۔
…٭…
راحیلہ گھر لوٹی تو کچھ دل برداشتہ تھی۔ اتنی محنت اور لگن سے لکھی گئی کہانی کی یہ پزیرائی…’’یہ قوم درست نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس نے کتابیں میز پر پٹختے ہوئے سوچا۔
’’میڈم نے بالکل انکار تو نہیں کیا۔ ابھی موقع تو ہے میرے پاس۔ ہمت ہارنے سے تو مسائل حل نہیں ہوتے۔‘‘ اس نے خود کو سمجھایا۔ صبح وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اسکول پہنچی۔ سب ٹیچرز اپنے اپنے آئٹمز کے لیے بچوں کو تیاری کروا رہی تھیں۔ راحیلہ نے بہت محنت سے ڈرامے کے لیے بچوں کو چنا اور بڑی محبت اور لگن سے ان کو تیاری کروانی شروع کی۔ بچوں کو توجہ دی جائے تو وہ بہت جلد اپنی صلاحیتوں کا بہترین انداز سے اظہار کرتے ہیں۔ تین، چار دن کی پریکٹس میں ہی راحیلہ اپنے اور بچوں کی کارکردگی سے مطمئن تھی۔
…٭…
14 اگست کو پورا ہال نہایت خوب صورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔ دل کش اسٹیج پر سبز اور سفید رنگ نمایاں تھے۔ تقریب میں بچوں کے گھروں میں موجود بزرگوں کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر تعلیم مہمان خصوصی تھے، کچھ ٹی وی چینل اور اخبار کے رپورٹرز بھی موجود تھے۔ پروگرام شروع ہوا۔
بچوں کی کارکردگی پر ناظرین خوب داد دے رہے تھے، خاص طور پر بزرگ حضرات کی تو بچوں میں جان تھی۔ رپورٹر تمام تاثرات قلمبند کر رہے تھے۔
ٹیبلو والا آ ئٹم شروع ہوا تو کسی بزرگ کو بچوں کے لباس پر اعتراض ہوا۔
’’قومی تہوار پر قومی لباس کیوں نہیں۔‘‘
کئی اور سرگوشیاں بھی حمایت میں سنائی دیں، رپورٹر کا قلم رواں تھا۔
دوسرے آئٹم پر مغربی ڈانس پر چہ مگوئیاں سنائی دینے لگیں۔ ناظرین کے تاثرات کیمرے کی آنکھ بھی دکھا رہی تھی اور قلم بھی رواں تھا۔
میڈم گڑبڑا گئیں، انھوں نے اسٹیج کے پیچھے جا کے کچھ ہدایات دیں۔ ڈانس شو مختصر کر کے، راحیلہ کی ٹیم کو اسٹیج پر بھیج دیا گیا۔
چہ مگوئیاں کرنے والے اب خاموشی اور توجہ سے ڈراما دیکھنے میں محو تھے۔ پاکستان کی کہانی، لاکھوں لوگوں کی قربانی، معصوم بچوں کی زبانی بیان کی جا رہی تھی۔ کیمرے نے ایک بزرگ خاتون کو فوکس کیا، جن کی آنکھیں نم تھی۔ ڈراما ختم ہوا۔ پورے ہال میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایک بچے کے غالباً دادا آ گے آئے اور ہاتھ اوپر اٹھا کر تالیاں بجائیں۔ پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ مہمان خصوصی نے آگے بڑھ کر بہترین کردار ادا کرنے پربچوں کو داد دی۔
راحیلہ پُر نم آنکھوں، پُرعزم چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ لیے کونے پر کھڑی اپنی کامیابی پر نازاں تھی۔ میڈم کنکھیوں سے راحیلہ کو دیکھ رہی تھیں جس نے ان کے نامور اسکول کی شہرت قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حصہ