جو قابض تھے وہی مالک ہوئے

284

”یہ موسم یہ مست نظارے، پیار کرو تو ان سے کرو“۔۔۔۔ ”آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے“۔۔۔۔۔۔ یا پھر ”موسم ہے عاشقانہ“ جیسے گانوں کے بول بتا رہے ہیں کہ انسانی زندگی سے موسموں کا تعلق کس قدر گہرا ہے۔ گرمی ہو یا سردی… خزاں ہو یا بہار… ہر موسم کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے۔ ایک طرف خدا نے اگر ان نعمتوں کی صورت ہماری زندگیوں میں رنگ بکھیرے، تو دوسری جانب ہم نے بھی کئی خود ساختہ موسم بنا لیے، مثلاً جلسے جلوسوں کا موسم، مذہبی اور قومی تہواروں پر جھنڈے لگانے کا موسم، سیاسی قلابازیوں کا موسم، دھرنوں کا موسم، اور تو اور شادی بیاہ کی تقریبات کو بھی موسم سے منسوب کرڈالا۔ یہاں سیاسی قلابازیوں اور دھرنوں کے موسم کا ذکر کرنے سے بہتر ہے کہ صرف شادی بیاہ کے موسم تک ہی محدود رہا جائے۔ تو جناب! اس بات سے ہر خاص و عام بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شادیوں کے لیے چھوٹی عید یعنی عیدالفطر سے محرم تک کا وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ مخصوص کیے گئے ان مہینوں کے سوا اس تقریبِ سعید کا ہونا روایت سے ہٹ کر تصور کیا جاتا ہے، اور اس قسم کے بنائے جانے والے قوانین یا پھر روایات کا ٹوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اِس سال میں نے کورنگی کراسنگ پر اس روایت کو نہ صرف ٹوٹتے، بلکہ جڑ سے اکھڑتے ہوئے دیکھا، یعنی معاشرے میں قائم اس خودساختہ فرسودہ روایت کو کراچی انتظامیہ کی بھاری مشینوں نے زمیں بوس کرکے رکھ دیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اُس وقت ہوا جب موسمِ شادی اپنے عروج پر تھا۔ انتظامیہ نے روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف سرکاری زمینوں پر قائم درجنوں غیر قانونی شادی ہال مسمار کیے بلکہ کمرشل ایریا میں تعمیر نہ ہونے والے یعنی رہائشی علاقوں میں قائم درجنوں شادی ہالوں کو بھی ٹھکانے لگا دیا، جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی تقریبات منسوخ کرنی پڑیں۔ اسلام میں تقریبِ نکاح کے لیے وقت کی قید نہیں، اور نہ ہی مخصوص کیے جانے والے اوقات کی کوئی ممانعت… یہاں تو میرا ذاتی اختلاف بس یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو اگر وقت کی قید میں جکڑ دیا جائے تو مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے جب لوگوں کی اکثریت ایک ہی وقت میں شادیوں کی تقریبات کرے گی تو ضروری استعمال کی اشیاء سے لے کر تواضع تک پر آنے والے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوگا، جس کا اثر براہِ راست معاشرے کے اُن غریبوں پر پڑے گا جو اپنی جوان بچیوں کو دو کپڑوں میں رخصت کرنے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ وہ سچ ہے جس سے شاید ہی کوئی ذی شعور اختلاف کرے۔
خیر بات ہورہی تھی گرائے جانے والے شادی ہالوں کی… پہلے پہل تو میں بھی یہی سمجھتا رہا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے مشن امپوسیبل طرز پر کیا گیا اپریشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے عین مطابق ہے، لیکن جلد ہی میرے سامنے کچھ ایسے حقائق آنے لگے جنہوں نے انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیے جانے والے اس اپریشن کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کہتے ہیں ”قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا“… یہی کچھ کورنگی کراسنگ سمیت کراچی بھر میں قائم شادی ہالوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں دیکھنے اور سننے کو ملا۔ میرا مطلب ہے کہ بظاہر ان غیر قانونی شادی ہالوں کو (اگر وہ غیر قانونی تھے) گرا تو دیا گیا لیکن قابضین کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی کی گئی اور نہ ہی قبضہ کی گئی جگہوں کو خالی کروانے کے لیے کوئی ایسا اقدام کیا گیا جس کی بدولت یہ سرکاری پلاٹ عوام کے لیے مختص کیے جاتے۔ یہ ”سہولت“ صرف شادی ہالوں تک نہ رہی بلکہ برساتی نالوں سے مسمار کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات پھر سے قابضین کے کنٹرول میں دے دی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے جب جب حکمرانوں کے اہداف میں بدنیتی شامل ہوئی، اسی قسم کے نتائج برآمد ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ غیر قانونی تعمیرات گرائی گئیں، قبضہ گروپ کی جانب سے وہاں دیواروں کی جگہ شامیانے اور قناتیں لگاکر دوبارہ کام شروع کردیا گیا۔ جہاں پروگرام نہ ہوسکے اُن جگہوں کو ڈیکوریشن کا سامان ڈال کر اپنے قبضے میں رکھا گیا۔ اتنا زیادہ شور شرابہ اور نتیجتہ صفر۔ جو مالک تھے وہی مالک رہے، صرف سامنے کی دیوار گرا کر.. جس کی تعمیر فقط ایک پروگرام کی آمدن کے عوض کی جاسکتی ہے.. نام نہاد آپریشن کی کامیابی کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ قابضین کو کاروبار کرنے کا پورا موقع فراہم کردیا گیا۔ آپ شہر کے کسی بھی علاقے میں جاکر مشاہدہ کرلیں یہی صورتِ حال دکھائی دے گی۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسمار کیے جانے والے شادی ہالوں سمیت تمام ہی غیر قانونی تعمیرات کا ملبہ موقع سے اٹھاکر ان سرکاری زمیںوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی، یا پھر ان جگہوں کو فوری طور پر پارک یا کسی بھی فلاحی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا جاتا۔ بجائے اس عمل کے، اربوں روپے کی سرکاری زمینوں کو پھر سے قبضہ گروپ کے حوالے کردیا گیا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی میں برسوں سے قبضہ مافیا سرگرم ہے، یا یوں کہیے کہ یہاں سرکاری زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں۔ کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی چائنا کٹنگ کی صورت ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا طاقت ور رہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں جو کچھ بھی اس شہر کے ساتھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ 1985-86ء میں بنائے جانے والے قوانین کے تحت متعدد کچی آبادیاں بسائی جاتی رہیں بلکہ سرکاری زمینیں ہتھیانے کا یہ سلسلہ گوٹھ آباد اسکیم کے نام سے اب تک جاری و ساری ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی علاقوں سے واقف ہوں جہاں تعمیر کیے جانے والے بڑے منصوبے ناجائز طور پر آباد کی جانے والی بستیوں کی نذر ہوگئے۔ اسلام آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایوب پارک بھی ایسے ہی منصوبوں میں سے ایک ہے جسے پارک کے لیے مختص 85 ایکڑ اراضی پر محیط پلاٹ پر قبضہ ہوجانے یا کروائے جانے کے بعد کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ اس کے علاؤہ بھی درجنوں تعمیراتی منصوبے حکومت کی بدنیتی اور نااہلی کی وجہ سے کراچی سے باہر منتقل کردیے گئے۔
سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا کوئی آسان کام نہیں، بڑی سے بڑی فن کاری کے باوجود اگر حکمرانوں کا تعاون نہ ہو تو کوئی بھی شخص ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرسکتا۔ ناجائز تجاوزات ہوں یا غیر قانونی تعمیرات… فٹ پاتھ پر ہوتے کاروبار ہوں یا بغیر اجازت نامے کے بلند عمارتوں کی تعمیر… حکومتی چھتری کے بغیر ممکن نہیں۔ جسے انتظامیہ کا تعاون اور حکمرانوں کی آشیرباد مل جائے تو وہ شخص ایک ایسا چلتا پرزہ بن جاتا ہے جو اپنے سامنے آنے والی ہر سرکاری چیز پر قبضہ کرنے اور اس کو فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ان راشی افسران اور قبضہ مافیا کے گٹھ جوڑ نے پورے صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی میں جو تباہی مچائی اس کا اندازہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے ان انکشافات سے کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کی وفاقی کالونیوں کے مکانات اور فلیٹس پر سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے سیاسی گروپ قابض ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کہا کہ فلیٹوں اور مکانوں میں ریٹائرڈ افسران و ملازمین بھی تاحال رہائش پذیر ہیں جبکہ کئی سرکاری ملازمین نے اپنے نام الاٹ کردہ کوارٹر تھرڈ پارٹی کو فروخت کردیے ہیں۔ واضح رہے کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے چھے ماہ بعد سرکاری رہائش گاہ لازمی طور پر خالی کرنا ہوتی ہے.. لیکن کیا کیا جائے کہ گزشتہ تیس برسوں سے کراچی کی سیاست نے یا ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرزِ سیاست نے لوگوں کو حقوق کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا وہ درس دیا جس نے ہمارے معاشرے میں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو دادا گیری کی جانب دھکیل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سرکاری املاک سرکار کے بجائے قبضہ گروپوں کی ملکیت ہیں۔
ماضی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا اُس کے ازالے کے لیے عوام کو حکمرانوں کی جانب دیکھنے کے بجائے ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کراچی کے عوام کی بلاتفریق خدمت کی۔ عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف متحد ہوکر اپنے اصل حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی تبھی اس شہر میں لاقانونیت اور لینڈ مافیا سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو غلامی کے سواہ کچھ نہیں دے سکیں گے۔

حصہ