خاتون کربلازینب بنت علی؄

448

10 محرم الحرام 61 ہجری:
اسلامی تاریخ کا کربناک دن… میدانِ کربلا اسلامی تاریخ کا چوراہا قرار پایا۔ حضرت زینبؓ کی آنکھوں کے سامنے ان کے خون کے رشتوں کے خون بہتے رہے۔ گردنیں تلواروں کے نیچے آتی رہیں۔ کن کن آستینوں کے خنجر بے نقاب ہوئے۔ سیدہ زینبؓ نے جس صبر کا مظاہرہ کیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جو کچھ ہو رہا تھا نگاہوں کے سامنے تھا۔ جو کچھ ہونے جا رہا تھا اس کا نقشہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہ تھا۔ شہادت سے قبل کی رات جب امام حسینؓ کی زبان پر چند درد ناک اشعار جاری ہوگئے تو حضرت زینبؓ فرط غم سے گویا ہوئیں کہ ’’اے کاش آج کا دن دیکھنے کے لیے میں زندہ نہ ہوتی۔ میرے ناناؐ، ماںؓ باپؓ بھائی حسنؓ داغ مفارقت دے گئے۔ اے بھائی اللہ کے بعد ہمارا سہارا آپ ہی ہیں آپ کے بنا ہم کیسے زندہ رہیں گے۔‘‘ جواب ملا ’’زینبؓ صبر کرو۔‘‘
بھائی کی آخری وصیت:
حضرت زینبؓ اس خواہش کا بےتابانہ اظہار کررہی ہیں کہ بہن کی زندگی بھی بھائی کی مل جائے۔ بھائی کے بجائے تلوار کی زد میں بہن کی گردن آجائے۔ کیسے درد ناک ہوں گے وہ مناظر کیسی قیامت خیز گھڑیاں جب زینبؓ کے آنسوئوں کے سامنے جنت کے سردار سیدنا امام حسینؓ اپنے آنسو نہ روک سکے اور فرمایا ’’اے بہن صبر کرو۔خدا کی ذات کے سوا ساری کائنات کے لیے فنا ہے ہمارے لیے ہمارے ناناؐ کی ذات اقدس نمونہ ہے۔ تم ان ہی کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا۔ میری بہن۔ تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر میں راہ حق میں کام آجائوں تو میرے ماتم میں گریبان نہ پھاڑنا چہرہ کونوچنا نہ بین کرنا‘‘۔
10 محرم الحرام کو جب چار سو ان کے پیاروں کے لاشے بکھرے پڑے تھے انہوں نے بھائی کی اس وصیت کی لاج رکھی اور عزم و حوصلہ کا پیکر بن گئیں۔
پیکرِ شجاعت:
حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبر کو شہید ہوتے دیکھا تو ’’یا ابن اخاہ‘‘ کہتی ہوئی بے تابا نہ خیمہ سے نکلیں اور بھتیجے کے لاشے سے چمٹ گئیں۔ خاندان کے سپوت ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرتے چلے گئے۔ سیدہ زینبؓ نے اپنے کم عمر فرزندوں عدنؓ اور محمدؓ کو میدانِ جنگ میں بھیجنے کی اجازت چاہی۔ حضرت امام حسینؓ کس دل سے اجازت دیتے سیدہ کے بے حد اصرار پر خاموش ہو گئے۔ سیدہ کے دونوں لال میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے تلواروں اور نیزوں کی زد میں آکر جام شہادت نوش کر گئے۔ سیدنا حسینؓ تنہا رہ گئے۔ زین العابدین علی بن حسین شدید علیل تھے میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ تھے۔ سیدنا امام نے ان کو حضرت زینب کے سپرد کیا اور خود تلوار اٹھا کر دشمنوں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا۔ شمشیر حسینی کی چمک کے سامنے کوئی ٹھہر نا پاتا۔ تلواروں، خنجروں، نیزوں کی برسات تھی ایک نیزہ سیدنا کے گلوئے مبارک میں پیوست ہو گیا۔ حضرت زینب قریب ہی ایک ٹیلہ پر چڑھیں اور شامی فوج کے کمانڈر کو للکار کر کہا ’’اے عمر بن سعد! کیا قیامت ہے کہ ابو عبداللہ قتل کیے جا رہے ہیں اور تم تماشائی ہو۔
سیدنا امام حسین خون کی الٹیاں کرتے ہوئے جسم کی قید سے آزاد ہوگئے۔ ان کے ناناؐ ان کے منتظر تھے۔ جنت ان کے لیے سجائی جا چکی تھی۔ شہدائے کربلا کو بے دردی سے قتل کرکے ان کے مقدس جسموں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا گیا۔ ایک بد نصیب نے چاہا کہ زین العابدین کو بھی نیزے کی نوک پر لے لے مگر حضرت زینب ڈھال بن گئیں۔ اور فرمایا۔ ’’خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں اس بیمار کو کوئی قتل نہیں کرسکتا۔‘‘
نوحہ زندگی کا:
یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ واقعہ کربلا جو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے اس میں شہدائے کربلا کے کردار محض رنج و غم کے پیرائے میں بیان کرکے، ان کی مظلومیت کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی ’’شجاعت‘‘ کی داستان اس آہ و بکا میں کہیں پسِ پردہ چلی جاتی ہے۔ بالخصوص حضرت زینب بنتِ علی کے صرف نوحے بیان کیے جاتے ہیں جب کہ انہوں نے اس اہم اور تاریخی موقع پر جس عظیم الشان استقامت اور دلیری کا مظاہرہ کیا اگر اس کو درست پیرائے میں بیان کیا جائے تو اکیسویں صدی کی عورت کے لیے اس میں پیغامِ حیات ہے کہ مسلمان خواتین نے ہر دور میں اپنے کردار کو پہچانا ہے، ہر وہ قربانی دی ہے جس کا تقاضہ فطرت ایک مرد سے کرتی ہے۔ قرونِ اولیٰ کی یہ عظیم خواتین چاہے حضرت خدیجہؓ ہوں یا شہزادی فاطمہ الزہرہؓ، علم کا چراغ سیدہ عائشہؓ ہوں یا میدان جنگ میں زخم پہ زخم سہنے والی حضرت ام عمارہؓ۔ دیگر امیات المومنین و صحابیات رسولؐ کی جو مختصر روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی ان کے غیر معمولی اور انتہائی حساس کردار کی گوا ہ ہیں اہم ترین بات یہ کہ ایک مسلمان عورت مغربی عورت کی طرح مرد بن کر سماج میں کردار اور نہیں کرتی بلکہ اپنے خانگی تقاضوں اور عفت کی چادر میں رہ کر وہ بڑے بڑے کام کرتی ہے کہ اس کی مثال دنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔
یہاں سیدہ زینب بنتِ علیؓ کے کردار کو دیکھیں کہ عورت ذات ہو جسمانی حوالوں سے کمزور ہے اور جذباتی اور نفسیاتی حوالے سے بھی مرد کی طرح قومی نہیں ہے۔ تاریخ کے اس درد ناک سانحے کے موقع پر جب کہ بھائی، بھتیجے، بیٹے سب شہید ہو چکے ہیں، ان کے لاشے بھی شقی القلب لوگوں نے پامال کیے، ان کے سر نیزوں پر اچھالے۔ یہ سب دیکھ کر کوئی بھی عورت اپناذہنی توازن کھو بیٹھتی مگر وہ اپنے او سان بحال رکھتی ہیں نہ صرف امام زین العابدین کے آغے دیوار بن کر ان کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ گاہے گاہے دشمنوں کو بھی لکارتی اور ان کی غیرت کو بیدار کرتی ہیں، ان کو شرمندہ کرتی ہیں کہ اہل بیت رسولؐ کے ساتھ جو کچھ وہ کر چکے کم از کم اس پر شرمندہ ہی ہو جائیں۔
شہدائے اہل بیت کی ترجمان : کربلا کی شہزادی سیدہ زینب کے درج ذیل الفاظ پڑھیں جن سے عرش کانپ گیا ہو گا جب حضرت زینبؓ نے شہدائے کربلا کے لاشے دو روز بعد بھی بے گور و کفن میدان میں پڑے دیکھے تو اپنے جذبات کو یوں کربناک لفظوں کی لڑی میں پرویا۔
ترجمہ: اے محمد مصطفیٰ ؐ! آئیے دیکھیے آپ کے حسینؓ کا خون آغوش لاشہ چٹیل میدان میں پڑا ہے۔
اس کا جسم پارہ پارہ کر دیا گیا ہے۔
آپؐ کے گھرانے کی لڑکیاں رسیوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔
آپؐ کی ذریت قتل کرکے گرم ریت پر بچھا دی گئی ہے۔
اس پر خاک اڑرہی ہے
اے میرے نانا! یہ آپؐ کی اولاد ہے جسے ہنکایا جا رہا ہے۔
ذرا حسینؓ کو دیکھیے اس کا سر کاٹ لیا گیا ہے۔
اس کا عمامہ اور چادر چھین لی گئی ہے‘‘۔
زینب کبریٰ کا یہ درد بھرا نوحہ سن کر کون سا دل ہو گا جو پارہ پارہ نہ ہو گیا ہو۔ ایسے مواقع پر اہل کوفہ بڑی تعداد میں ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر انہوں نے قرط جذبات سے فرمایا۔ ’’لوگو! اپنی نظریں نیچے رکھو۔ یہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لٹی ہوئی اولاد ہے۔‘‘ اس غم والم کی کیفیت میںبھی وہ لوگوں کے جذبہ حیا کو بیدار کر رہی ہیں۔
قرۃ عین المر تضیٰ :
جن ہاتھوں نے سیدہ زینبؓ کو جھولا جھلایا تھا وہ تاریخ میں ’’باب العلم‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ درس علم و حکمت چھن چھن کر سیدہ کی رگوں میں اتر گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کی پیشانی پر تحریر تھا کہ وہ کس کی اولاد ہیں۔ تاریخ ایسا عظیم الشان کوئی دوسرا حوالہ ڈھونڈنے سے عاجز ہے۔ اس وقت اہل کوفہ جمع ہیں۔ نہ معلوم ضمیر کا بوجھ انہیں سیدہ کے در تک لے آیا یا ان کے ساتھ ہمدردی۔ اہل کوفہ کو جو اپنے اطراف جمع دیکھا تو انہوں نے ایک عبرت انگیز خطاب کیا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ نسوانی لہجہ میں شاید خود حیدر کرار گویا ہیں۔ آپ فرماتی ہیں۔
ترجمہ: اے کوفیو! اے مکارو! اے عہد شکنو! اپنی زبان سے پھر جانے والو!
خدا کرے تمہاری آنکھیں ہمیشہ روتی رہیں۔
تمہاری مثال ان عورتوں جیسی ہے جو خود ہی سوت کاتتی ہیں
اور پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں۔
تم نے خود ہی میرے بھائی سے رشتہ بیعت جوڑا اور خود ہی توڑ ڈالا۔
تمہارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے۔
تمہاری فطرت میں جھوٹ اور دغا ہے۔
خو شامد، شیخی خوری اور عہد شکنی تمہارے ضمیر میں ہے
تم نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ بہت برا ہے
تم نے خیر البشرؐ کے فرزند کو جو جنت کے سردار ہیں قتل کیا۔
قہر تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
آہ! اے کوفہ والو، تم نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے
جو منہ بگاڑنے والا اور مصیبت میں مبتلا کر دینے والا ہے۔
یاد رکھو تمہارا رب نا فرمانوں کی تاک میں ہے۔
اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘
ان کے خطبات سن کر اکثر کوفیوں کی روتے روتے گھگی بندھ جاتی تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر حذلم بن کثیر جس کی وجہ شہرت فصاحت و بلاغت تھی، بے ساختہ کہہ اٹھا۔
’’واللہ اے علیؓ کی بیٹی، تمہارے بوڑھے سب بوڑھوں سے، تمہارے جوان سب جوانوں سے، تمہاری عورتیں سب عورتوں سے، تمہاری نسل سب نسلوں سے بہتر ہے جو حق بات کہنے میں کسی سے نہیں ڈرتی۔‘‘
تاریخ کی درد ناک تقریر:
ابن زیاد نے شہدا کے سروں ور اسیران اہل بیت کو فوج کے پہرے میں یزید کی پاس دمشق روانہ کردیا۔ تھکا دینے والے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے اہل بیت دمشق پہنچے تو انہیں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ جب امام حسینؓ کا سر اقدس سیدہ زینبؓ نے یزید کے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو اہل دربار کو مخاطب کرکے ایک درد ناک تقریر کی۔
ترجمہ: ’’اے یزید! گردش افلاک اور ہجوم آفات نے مجھے تجھ سے مخاطب ہونے پر مجبور کردیا۔ یاد رکھ اللہ رب العزت ہمیں زیادہ عرصے تک اس حال میں نہ رکھے گا۔
وہ ہمارے مقاصد کو ضائع نہ کرے گا۔
تو نے ہمیں نہیں اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔
آہ! تیرے آدمیوں نے دوش رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار، اس کے بھائیوں، فرزندوں اور ساتھیوں کو نہایت بے دردی سے ذبح کیا ہے۔ انہوں نے پردہ نشیان اہل بیت کی بے حرمتی کی۔ اے کاش تو اس وقت شہیدان کربلا کو دیکھ سکتا تو اپنی ساری دولت و حشمت کے بدلے ان کے پہلو میں کھڑا ہونا پسند کرتا۔ ہم عنقریب اپنے ناناؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان مصائب کو بیان کریں گے جو تیرے بے درد ہاتھوں سے ہمیں پہنچے ہیں اور یہ اس جگہ ہوگا جہاں اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی جمع ہوں گے۔ ان کے چہروں کا خون اور جسموں کی خاک صاف کی جائے گی۔ وہاں ظالموں سے بدلہ لیا جائے گا۔ حسینؓ اور ان کے ساتھی مرے نہیں ہیں اپنے خالق کے پاس زندہ ہیں اور وہی ان کے لئے کافی ہے۔ وہ عادل حقیقی نبیؐ کے اہل بیت اور ساتھیوں کو قتل کرنے والوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ وہی ہماری امیدگاہ ہے اور اسی سے ہم فریاد کرتے ہیں‘‘۔
سیدہ زینبؓ جنہوں نے رنج و الم کی انتہا دیکھی ہے لیکن ان کا لفظ لفظ ایمان و یقین سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے قریبی عزیزوں اور روئے زمین کی عظیم ترین ہستیوں کو انہوں نے بے دردی سے قتل ہوتے نیز ان کے لاشے تک پامال ہوتے دیکھے ہیں لیکن ان کے خطبات ان کے یقین کا سرمایہ ہیں۔ وہ امت کو بتارہی ہیں کہ دنیا کی زندگی محض امتحان گاہ ہے اور سیدہؓ کا خاندان اس امتحان میں پورا اتر چکا ہے۔ وہ اپنے نانا کے دین اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کے سامنے سرخرو ہیں کہ گردنیں تو کٹادیں مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ اگر اللہ کی زمین فتنہ و فساد کی زد میں ہو، ریاستی ادارے کو بے توقیر کیا جارہاہو تو اجتماعیت کی خاطر بری سے بڑی قربانی پیش کرکے اپنے ایمان کی گواہی پیش کرنا چاہئے۔ ایمان کو بچانے کے لئے جان کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ وہ سر جس میں لاالٰہ کا سودہ سمایا ہوا ہو باطل کے سامنے کٹ تو سکتا ہے جھک نہیں سکتا، بک نہیں سکتا۔
حضرت زینبؓ کی رگوں میں بھی وہی پاکیزہ لہو تھا۔ ان کی ترتیب بھی اسی عظیم الشان گہوارے سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے پورے شعور کے ساتھ اس راستے کا انتخاب کیا جس کو جنت کے شہزادے سیدنا امام حسینؓ نے چنا تھا۔ پورے قافلے کے لٹ جانے کے باوجود نہ وہ خوف زدہ ہوئیں،نہ دھمکیاں ان کو مرعوب کرسکیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں حق کی گونج بن کر زندہ رہیں، وہ امت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اہل بیت کی ان عظیم الشان قربانیوں سے امت کو نئی زندگی ملی اوروہ نقوش پا ملے جن پر چل کر ہی انسانیت فلاح یاب ہوسکتی ہے۔
سفر مدینہ منورہ:
شیر خدا کی بیٹی کی گرج چار سو سنی اور محسوس کی جارہی تھی۔ یزید خوف زدہ تھا کہ خاندان رسالت کی حمایت میں لوگ اس کے خلاف نہ سربکف ہوجائیں چنانچہ اس نے حضرت نعمان بن بشیر کی حفاظت میں اس قافلہ کو مدینہ منورہ روانہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ سیدہ زینبؓ کے یہ تاریخی الفاظ روایات میں محفوظ ہیں کہ جب قافلہ چلنے لگا تو انہوں نے فرمایا:
’’محملوں پر سیاہ چادریں ڈال دو تاکہ دیکھنے والو کو پتا چل جائے کہ یہ سیدہ النساؓ کی دل فگار اولاد کا قافلہ ہے‘‘۔
جس روز یہ قافلہ مدینہ منورہ میں پہنچا اس روز مدینہ کی ہر گلی سوگوار تھی، ہزاروں لوگ آنسوئوں کے نذرانے لئے سیدہ زینبؓ کے استقبال کو موجود تھے۔ ان مصیبت زدہ مسافروں کی پیشانیوں پر ایک تاریخ درج تھی۔ وہ سراپا الم تھے،سیدہ نے بے تابانہ روضہ رسولؐ پر حاضری دی۔ ناناؐ کے روضہ کی چوکھٹ پر سر رکھا تو دل کے بوجھ نے آنسوئوں کی شکل اختیار کرلی۔ ایک نواسی محترم نانا جانؐ کو رستوں کی نہیں منزلوں کی کہانی سنارہی تھی۔ جنہیں منزلوں کا یقین تھا منزلوں نے خود بڑھ کر راستوں کو سمیٹ دیا تھا اور ان کے قدم چوم لئے تھے۔ سیدہ نے اس وقت صبر کیا تھا جب پتھروں کے کلیجے پانی ہوچکے تھے۔ آپ غم سے نڈھال اہل مدینہ منورہ کو بار بار صبر کی تلقین کرتیں اور آخرت کے گھر کی یاد دلاتیں۔
سفر آخرت:
کربلا کی شہزادی سیدہ زینب بنت علی کے سفر آخرت سے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ مدینہ منورہ میں انتقال ہوا جبکہ ایک روایت مصر اور ایک دمشق میں ان کے انتقال سے متعلق ہے۔ مختلف روایات سے ثابت ہے کہ وہ جب تک زندہ رہیں واقعہ کربلا کے مصائب اور درس نصیحت کو نہایت فصاحت و بلاغت سے بیان کرتی تھیں۔ وہ مرجع خلائق رہیں، لوگ دور دور سے ان کے پاس آتے۔ عامل مدینہ نے اس کی خبر یزید کو دی تو اس نے حکم دیا کہ زینب کو کسی دوسرے شہر میں بھیج دو۔ روایات میں ہے کہ بہی خواہوں کے بے حد اصرار پر وہ مصر تشریف لے گئی تھیں۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمران وقت ایک تنہا عورت سے کیا خوف محسوس کرتا ہے کہ اس کو ملک بدری پر مجبور کرتا ہے۔ ایمان کی طاقت صنف قوی یا صنف نازک نہیں دیکھتی۔ جہاں ایمان ہوتا ہے لازمی اظہار ہوتا ہے۔ سیدہ زینبؓ کا جس درجہ کا ایمان تھا وہ حکمران وقت کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی تھا۔ وہ حق کی للکار تھیں، صبر و عزیمت کا پہاڑ تھیں، شہدا کے قافلے کی علامت تھیں۔
اسی ایمان کی ایک چنگاری آج چودہ سو برس بعد ڈاکٹر عافیہ کے خاکستر میں ہے تو وقت کی سپرپاور اس ایک عورت سے خوف زدہ ہوکر اس کو کبھی 86 برس کی سزا سناتی ہے تو کبھی جیل خانے کی سختیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ بھی اسی حسینی قافلے کی للکار ہیں اور وقت کی پیشانی پر رقم ہے کہ اسلام کی تاریخ عزیمتوں سے عبارت ہے۔ یہاں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔ امت کی سارے مرد بھی رہتی دنیا تک حضرت حاجرہؓ کے نقوش پاپر دوڑتے رہیں گے اور طبقہ نسواں کے جذبہ ایمانی کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ امت کی ان عظیم خواتین کو رہتی دنیا تک کی مسلمان عورتوں کا سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔

حصہ