قیصرو کسریٰ قسط(60)

219

عاصم نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’مجھے کسی مہم میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تمہارے تعاون کی ضرورت نہیں۔ ایران اور روم کی جنگ اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ مصر میں اسکندریہ کے سوا تمہاری فوجیں کسی اور مقام پر معمولی مزاحمت بھی نہیں کرسکیں گی۔ میں صرف تمہاری جان بچانا چاہتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ تم ایران کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہو بلکہ صرف اس لیے کہ تم میرے ایک محسن کے داماد ہو اور مجھے اپنے دوست کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا پسند نہیں۔ تمہیں مجھ سے صرف یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ تمہاری کسی حرکت سے مجھے اپنے ساتھیوں کے سامنے نادم نہیں ہونا پڑے گا۔ اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ تم سب کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر مصر کی حدود سے نکل سکتے ہو، تو میں اسی وقت تمہارے لیے گھوڑے مہیا کرسکتا ہوں۔ مجھے اس بات کی پروا نہ ہوگی کہ بعد میں میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ تمہارے لیے سمندر تک پہنچنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔ مصر میں اسکندریہ تمہارا آخری حصار ہے لیکن ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ رومیوں نے یہ شہر بھی خالی کرنا شروع کردیا ہے۔ ان حالات میں تمہیں جوش کی بجائے صبر اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
کلاڈیوس اب جواب دینے کی بجائے کبھی فرمس اور کبھی انطونیہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
فرمس نے کہا۔ ’’کلاڈیوس! خدا نے ہماری اعانت کے لیے ایک فرشتہ بھیجا ہے ہمیں یہ ثابت نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ناشکر گزار ہیں۔‘‘
کلاڈیوس نے عاصم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ ان کی عزت بچانے کا وعدہ کرتے ہیں تو مجھے آپ کی غلامی منظور ہے‘‘۔
عاصم نے کلاڈیوس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم مجھے اپنا دوست پائو گے۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ میں موجودہ حالت میں تمہاری جان بچانے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں سوچ سکتا۔ میں اس بات کی کوشش کرچکا ہوں کہ تمہارے گلے میں آہنی طوق نہ ڈالا جائے لیکن سپہ سالار نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی۔ تاہم میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جو بوجھ تم اپنی گردن پر محسوس کرو گے وہ مجھے اپنے دل پر محسوس ہوگا۔ تمہارے اطمینان کے لیے میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ فرمس کی بیٹی میری بہن ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’ایک غلام کو اپنے طوق کا بوجھ اٹھانے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اور انطونیہ کی عزت بچانے کے لیے تو میں پہاڑ اُٹھانے سے بھی دریغ نہیں کروں گا‘‘۔
عاصم کو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس خوش وضع نوجوان کو ایک مدت سے جانتا ہے۔ اس نے کہا۔ ’’اب تمہارے مستقبل کے متعلق سوچنا میرا کام ہے۔ تم اطمینان سے کھانا کھائو میں ذرا اپنے ساتھیوں کو دیکھ آئوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’نہیں! ہمارے میزبان کو ہمارے ساتھ کھانا چاہیے‘‘
عاصم رُک گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ چاروں دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔
کلاڈیوس اسکندریہ کے گورنر کا بھتیجا اور رومی سینٹ کے ایک بااثر رکن کا بیٹا تھا۔ جن ایام میں ایرانی لشکر شام کے شمالی علاقوں کو تاخت و تاراج کررہا تھا وہ روم کی فوج کے ایک سالار کی حیثیت سے حمص میں متین تھا۔ حمص کی لڑائی میں زخمی ہونے کے بعد اس نے اپنے چند شکست خوردہ سپاہیوں کے ساتھ قیساریہ کا رخ کیا لیکن راستے میں اس کی صحت بگڑ گئی اور قیساریہ کے حاکم نے اسے لڑائی میں حصہ لینے کے ناقابل سمجھتے ہوئے کسی زیادہ محفوظ مقام پر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ چند دن بعد اسکندریہ سے دو جہاز رسد کا سامان لے کر قیساریہ پہنچے اور کلاڈیوس کے ساتھیوں نے اسے سخت بخار کی حالت میں ایک جہاز پر سوار کرادیا۔ جہاز کا کپتان کلاڈیوس کو جانتا تھا اور اس نے سفر کے دوران میں اس کی تیمارداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ راستے کی بندرگاہوں سے کئی اور لوگ جو مختلف شہروں سے جان بچا کر بھاگے تھے۔ ان جہازوں پر سوار ہوتے گئے۔ چناں چہ جب یہ جہاز غزہ پہنچے تو ان پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
غزہ میں پناہ گزینوں کا ہجوم راستے کی دوسری بندرگاہوں سے کہیں زیادہ تھا اور ان مین زیادہ تعداد ان رومی عورتوں اور بچوں کی تھی جو شام اور فلسطین کے مخدوش حالات کے پیش نظر اسکندریہ یا قبرص پہنچنے کے لیے بے قرار تھے۔
غزہ کے حاکم نے تمام جہاز روک لیے اور حکم دیا کہ وہ لوگ جو خشکی کے راستے سفر کرسکتے ہیں، رومی عورتوں اور بچوں کے لیے جگہ خالی کردیں۔
کلاڈیوس کا بخار اُتر چکا تھا لیکن ابھی اس میں خشکی کے راستے سفر کرنے کی سکت نہ تھی۔ تاہم جب دوسرے آدمی جہاز سے اُترنے لگے تو اس نے ان کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ جہاز کے کپتان نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے جواب دیا۔ ’’عورتوں اور بچوں کا مسئلہ مجھ سے زیادہ اہم ہے اگر میں خشکی کے راستے سفر نہ کرسکا تو یہاں ٹھہر کر کسی اور جہاز کا انتظار کروں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میں دوچار دن آرام کرنے کے بعد جنگ میں شریک ہونے کے قابل ہوجائوں گا‘‘۔
جہاز کے کپتان نے کہا۔ ’’اگر آپ مُصر ہیں تو میں بندرگاہ کے ناظم سے کہوں گا کہ وہ آپ کو شہرکے حاکم کے پاس پہنچادے۔ مجھے یقین ہے کہ غزہ کا حاکم آپ کو ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کی کوشش کرے گا‘‘۔
بندرگاہ کا ناظم ایک سائبان کے نیچے بیٹھا مسافروں کی جانچ پڑتال کررہا تھا۔ وہ باری باری پیش ہونے والے مسافروں سے چند سوال کرتا اور اس کے بعد جن خوش قسمت عورتوں، بچوں یا بوڑھوں کو جہاز پر سوار ہونے کی اجازت مل جاتی وہ دوسرے امیدواروں سے الگ ہو کر ایک طرف بیٹھ جاتے۔ بعض مسافر انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کررہے تھے۔ کبھی کبھی وہ سائبان میں گھس جاتے اور ناظم کی میز کے گرد اتنی بھیڑ ہوجاتی کہ سپاہی انہیں دھکے دے کر پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوجاتے۔ کلاڈیوس جس کے سر پر ابھی تک پٹی بندھی تھی۔ جہاز سے اُتر کر کپتان سے باتیں کرتا ہوا سائبان کے اندر داخل ہوا تو بندرگاہ کا ناظم اسے دیکھتے ہی کرسی سے اُٹھا اور اس سے بغلگیر ہو کر چلّایا۔ ’’کلاڈیوس! تم یہاں کب آئے؟ خدا کی قسم میں آج بھی تمہارے متعلق ہی سوچ رہا تھا‘‘۔
جہاز کے کپتان نے کہا۔ ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں میں آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ یہ زخمی ہیں اور انہیں کسی اچھے تیماردار کی ضرورت ہے‘‘۔
ناظم نے جواب دیا۔ ’’مجھ سے بہتر کلاڈیوس کا تیمار دار اور کون ہوسکتا ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میرا زخم قریباً مندمل ہوچکا ہے اور بخار بھی اُتر گیا ہے۔ مجھے تازہ دم ہونے کے لیے صرف دو تین دن آرام کی ضرورت ہے‘‘۔
جہاز کے کپتان نے کہا۔ ’’یہ میرے اصرار کے باوجود جہاز سے اُتر پڑے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ ابھی چند دن اور یہ گھوڑے پر سواری کے قابل نہیں ہوں گے‘‘۔
ناظم نے کلاڈیوس سے پوچھا۔ ’’آپ قیساریہ سے آئے ہیں؟‘‘
’’ہاں! میں حمص میں زخمی ہونے کے بعد وہاں پہنچ گیا تھا اور اب سوچ رہا ہوں کہ اگر میری حالت ذرا بہتر ہوجائے تو میں اسکندریہ کا رُخ کرنے کی بجائے دمشق پہنچ جائوں‘‘۔
ناظم نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’آپ کو شاید معلوم نہیں کہ دمشق کا محاصرہ ہوچکا ہے اور اب ہمارا کوئی سپاہی شہر کے اندر داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔
یہ خبر کلاڈیوس کے لیے غیر متوقع نہ تھی تاہم اسکا اثر اتنا شدید تھا کہ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔
ناظم کے اشارے سے سپاہیوں نے دوکرسیاں لاکر وہاں رکھ دیں اور وہ بیٹھ گئے۔
ناظم نے کہا۔ ’’آپ بہت دبلے ہوگئے ہیں اور شاید اس وقت بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ موجودہ حالات میں آپ کا اسکندریہ پہنچنا بہتر ہوگا۔ ممکن ہے کہ کچھ عرصہ تک اسکندریہ ہمارا آخری حصار بن جائے۔ غزہ اب ان گنت پناہ گزینوں کی درمیانی منزل بن چکا ہے اور ہمارے لیے ان لوگوں کو یہاں سے نکالنا اشد ضروری ہے ورنہ فوج کے حصے کی تمام غذائی رسد یہ کھا جائیں گے۔ ہر روز پناہ گزینوں کے نئے قافلے یہاں پہنچ رہے ہیں اگر اسکندریہ کا بحری بیڑا فوراً حرکت میں آجائے تو ہماری مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ وہاں پہنچ کر اپنے چچا کو اس طرف متوجہ کرسکیں گے۔ ہم نے قبرص کے امیر البحر سے بھی اعانت کی درخواست کی ہے لیکن موجودہ حالات میں ان کے نزدیک شاید پناہ گزینوں کا مسئلہ زیادہ اہم نہ ہو‘‘۔
سائبان کے گرد جمع ہونے والے لوگ پھر ایک بار بے چینی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ سپاہی انہیں ڈرا دھمکا کر دور رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ اچانک ایک خوبصورت لڑکی اپنا راستہ روکنے والے سپاہی سے کترا کر سائبان کے اندر داخل ہوئی اور اس نے سراپا التجا بن کر ناظم سے کہا۔ ’’جناب! خدا کے لیے میری والدہ پر رحم کیجیے وہ بیمار ہیں۔ ہم کئی دن سے یہاں پڑے ہیں اگر وہ یہاں پہنچ کر بیمار نہ ہوجاتیں تو ہم کبھی کے بابلیون یا اسکندریہ پہنچ گئے ہوتے‘‘۔
ناظم نے تلملا کر کہا۔ ’’یہ لڑکی پاگل ہے۔ میں اس سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے رومیوں کے سوا کسی کو جہاز پر جگہ دینے کی اجازت نہیں‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’کیا آپ کے نزدیک رومیوں کے سوا کسی کی جان اور آبرو کی قیمت نہیں؟‘‘
ناظم نے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اسے لے جائو میں اس سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اور اب اگر یہ مجھے پریشان کرنے کی کوشش کرے تو اسے دھکے دے کر بندرگاہ کے احاطے سے باہر نکال دو‘‘۔
ایک سپاہی آگے بڑھا لیکن کلاڈیوس نے اُٹھ کر اسے روکتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھہرو!‘‘ پھر وہ ناظم کی طرف متوجہ ہوا… ’’شاید تم یہ نہیں جانتے کہ ایرانی ایسی لڑکیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں‘‘۔
ناظم نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں اور یقین کیجیے کہ مجھے اس کے ساتھ ہمدردی ہے۔ یہ چوتھی بار سپاہیوں کا حلقہ توڑ کر مجھ سے تکرار کرچکی ہے لیکن میں غزہ کے حاکم کی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ رومیوں کے سوا کسی کو سرکاری جہازوں پر سوار ہونے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’دیکھیے! مجھے جہاز پر سفر کرنے کا حق ہے اور میں اس مصیبت زدہ لڑکی کے لیے اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ جہاز کا کپتان میری جگہ دو عورتیں سوار کرنے پر اعتراض نہیں کرے گا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام رومی عورتیں اور بچے جو یہاں موجود ہیں دو جہازوں پر سوار نہیں ہوسکیں گے انہیں غزہ سے نکالنے کے لیے کئی جہازوں کی ضرورت ہے اور میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے چچا کو ضرور جہاز بھیجنے پر مجبور کرسکوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا یہ وعدہ غزہ کے حاکم کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوگا‘‘۔
ناظم نے کہا۔ ’’اگر آپ ہماری اتنی مدد کرسکتے ہیں تو پھر میں ضرور سمجھتا ہوں کہ آپ بھی یہاں ٹھہرنے کی بجائے ان کے ساتھ ہی روانہ ہوجائیں‘‘۔
کلاڈیوس نے لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’تمہاری ماں کہاں ہے؟‘‘
’’وہ باہر بخار کی حالت میں لیٹی ہوئی ہے‘‘۔
ناظم نے کہا۔ ’’جائو اُسے لے آئو‘‘
یہ بڑی بڑی سیاہ اور چمکدار آنکھوں، لمبی گردن اور تیکھے نقوش والی لڑکی فرمس کی بیٹی انطونیہ تھی اور ایک ساعت بعد کلاڈیوس اس کے ساتھ جہاز میں سفر کررہا تھا۔ انطونیہ اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’ہم تین ہفتوں سے غزہ میں دھکے کھا رہے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ہمارے گھوڑے فوجی ضرورت کے لیے ضبط کرلیے گئے تھے۔ پچھلے ہفتے ہمارا نوکر ایک اونٹ خرید لایا اور ہم نے خشکی کے راستے ایک قافلے کے ساتھ چلنے کا ارادہ کیا لیکن میری والدہ اچانک بیمار ہوگئیں۔ آج ہم چاروں طرف سے مایوس ہوچکے تھے کہ قدرت نے آپ کو بھیج دیا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے نوکر کو جہاز میں جگہ نہ مل سکی لیکن آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ خشکی کے راستے کسی قافلے کے ساتھ نہ جاسکا تو میں واپسی پر اسے غزہ میں تلاش کرکے آپ کے پاس پہنچادوں گا‘‘۔
(جاری ہے)
انطونیہ نے پوچھا۔ ’’آپ واپس آئیں گے؟‘‘
’’ہاں! میں نے بندرگاہ کے ناظم سے وعدہ کیا ہے کہ پناہ گزینوں کو نکالنے کے لیے اسکندریہ سے مزید جہاز لانے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’آپ بہت رحمدل ہیں‘‘۔ لڑکی نے احساس مندانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
انطونیہ کی ماں نے جو ان کے قریب لیٹی ہوئی تھی پانی مانگا اور کلاڈیوس بھاگ کر لکڑی کا ایک کٹورا بھر لایا۔
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ اس نے پانی پلانے کے بعد پوچھا۔
انطونیہ کی ماں نے جواب دیا۔ ’’میں ٹھیک ہوں بیٹا! خدا تمہارا بھلا کرے‘‘۔
چند دن سفر کے دوران میں کلاڈیوس اور انطونیہ ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے اور ایک دن جب ان کا جہاز اسکندریہ کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہورہا تھا۔ وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ کاش! یہ سفر اتنی جلدی ختم نہ ہو۔ انطونیہ کی ماں کے لیے پالکی کا انتظام کرنے کے بعد کلاڈیوس ان کے ساتھ چل دیا۔ تھوری دیر بعد یہ لوگ انطونیہ کے ماموں بطلیموس کے مکان میں داخل ہوئے۔ بطلیموس اسکندریہ کا ایک خوشحال تاجر تھا اس نے کلاڈیوس کو کھانے کے لیے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے جواب دیا۔ ’’میں کسی تاخیر کے بغیر اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ اگر موقع ملا تو پھر کسی وقت حاضر ہوجائوں گا‘‘۔
بطلیموس نے کہا۔ ’’تو پھر آپ شام کا کھانا میرے ساتھ ضرور کھائیں؟‘‘
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’اگر میں یہاں ٹھہر سکا تو ضرور آئوں گا لیکن ممکن ہے کہ چچا جان غزہ سے پناہ گزینوں کو نکالنے کی مہم مجھے سونپ دیں اور میں آج ہی یہاں سے روانہ ہوجائوں۔‘‘
انطونیہ نے بطلیموس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ماموں جان! مجھے یقین ہے کہ غزہ سے دوبارہ واپس آنے تک یہ ہمارے گھر کا راستہ بھول چکے ہوں گے‘‘۔
’’نہیں! انطونیہ‘‘ بطلیموس نے جواب دیا۔ ’’یہ ہمیں شکریہ کا موقعہ دینے میں سنجل سے کام نہیں لیں گے‘‘۔
انطونیہ، جو اپنی ماں کے بستر کے قریب بیٹھی بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہی تھی، اُٹھ کر باہر نکل گئی۔ کلاڈیوس نے اُٹھ کر مصافحے کے لیے بطلیموس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اس نے کہا۔ ’’نہیں، جناب! میں دروازے تک آپ کے ساتھ چلوں گا‘‘۔
’’نہیں، نہیں، تکلف کی ضرورت نہیں آپ مریضہ کے پاس تشریف رکھیے!‘‘ کلاڈیوس نے یہ کہہ کر بطلیموس سے مصافحہ کیا اور اسے کچھ اور کہنے کا موقع دیے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
انطونیہ صحن میں کھڑی تھی۔ کلاڈیوس اس کے قریب پہنچ کر رُکا اور ایک ثانیہ توقف کے بعد بولا۔
’’انطونیہ! میں اس گھر کا راستہ نہیں بھولوں گا‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’میں مرتے دم تک آپ کا انتظار کروں گی‘‘۔ اور اس کے ساتھ اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
’’خدا حافظ! انطونیہ‘‘۔ کلاڈیوس یہ کہہ کر آگے بڑھا، رکا اور ایک ثانیہ مڑ کر دیکھنے کے بعد لمبے لمبے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
گھر کی عورتیں چند قدم دور کھڑیں انطونیہ کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کی نگاہوں میں ان گنت سوالات تھے لیکن انطونیہ ان کی طرف توجہ دینے کے بجائے کمرے میں چلی گئی۔
بطلیموس جو مریضہ سے باتیں کررہا تھا۔ قدرے توقف کے بعد انطونیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’بیٹی! میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں لیکن تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ رومی ہے اور اسکندریہ کے حاکم کا بھتیجا ہے۔ ‘‘انطونیہ کوئی جواب دینے کی بجائے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
O
ان واقعات کے چند ہفتے بعد فرمس، بابلیون سے ہوتا ہوا اسکندریہ پہنچا تو اس کی بیوی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہی تھی۔ نیک دل شوہر کی نگاہوں کے سامنے آٹھ پہر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اس نے اپنا سفرحیات ختم کردیا۔ چند دن بعد، فرمس نے اپنی بیٹی کے ساتھ بابلیون جانے کا ارادہ کیا لیکن بطلیموس کے اصرار پر وہ ایک ہفتہ اور اس کے ہاں ٹھہرنے پر رضا مند ہوگیا۔ اس عرصہ میں اسکندریہ کے کئی جہاز غزہ سے پناہ گزینوں کو لے کر واپس آچکے تھے لیکن انطونیہ کو کلاڈیوس کے متعلق کوئی اطلاع نہ ملی۔ ماں کی موت کے صدمے کے باعث وہ زندگی کی بیشتر دلچسپیوں سے کنارہ کش ہوچکی تھی لیکن کلاڈیوس کو بھول جانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ اسے بطلیموس کے یہ الفاظ بار بار یاد آتے تھے کہ کلاڈیوس ایک رومی ہے اور اسکندریہ کے حاکم کا بھتیجا ہے۔ تاہم انتہائی مایوسی کی حالت میں بھی وہ اس خود فریبی میں مبتلا رہنا چاہتی تھی کہ کلاڈیوس کسی دن اس کی تلاش میں آئے گا۔
کوئی دروازے پر دستک دیتا تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔ کوئی غزہ سے آنے والے زخمیوں اور پناہ گزینوں کا ذکر چھیڑتا تو وہ اس کے منہ سے کلاڈیوس کا ذکر سننے کے لیے بیتاب ہوجاتی۔ اسکندریہ چھوڑنے سے ایک دن قبل وہ بطلیموس کی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ اپنی ماں کی قبر دیکھ کر واپس آرہی تھی۔ ایک کشادہ بازار سے گلی میں داخل ہوتے وقت اسے بطلیموس کا حبشی غلام دکھائی دیا جو چلنے کی بجائے بھاگ رہا تھا۔
بطلیموس کی بیوی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم کہاں جارہے ہو۔ اور اتنے بدحواس کیوں ہو؟‘‘
غلام نے جواب دیا۔ ’’جناب! میں آقا کو دکان سے بلانے جارہا ہوں، ایک رومی ان سے ملنا چاہتا ہے‘‘۔
انطونیہ نے بے چین ہو کر پوچھا۔ ’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’میں اسے اندر بٹھا آیا ہوں‘‘۔ غلام نے جواب دیا۔
’’ابا جان گھر پر ہیں؟‘‘
’’نہیں وہ ابھی باہر نکلے تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بھی دکان پر ہوں گے‘‘۔
غلام یہ کہہ کر بھاگ گیا۔ اور بطلیموس کی بیوی نے کہا۔ ’’بیٹی مبارک ہو۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گا۔ اب چلو!‘‘
انطونیہ ان کے ساتھ چل پڑی۔ مہمانوں کا کمرہ ڈیوڑھی سے ملا ہوا تھا لیکن انطونیہ کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ تذبذب کی حالت میں دوسری عورتوں کی طرف دیکھنے لگی۔ بطلیموس کی بیوی نے اپنی بیٹیوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہاں سے کھسک گئیں۔ پھر وہ انطونیہ کی طرف متوجہ ہوئی ’’بیٹی! تم ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہو، جائو!‘‘
انطونیہ چہرے پر شرم و حیا کی سرخیاں لیے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئی لیکن وہاں کلاڈیوس کی بجائے ایک اجنبی بیٹھا ہوا تھا وہ ان گنت نغمے جو انطونیہ کے دماغ میں گونج رہے تھے اچانک خاموش ہوگئے۔
’’آپ غزہ سے آئے ہیں؟ اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’جی ہاں!‘‘ رومی نے اُٹھ کر جواب دیا۔
’’آپ کو کلاڈیوس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’وہ یہاں نہیں آئیں گے؟‘‘
’’وہ ضرور آئیں گے لیکن ابھی نہیں۔ ان دنوں غزہ میں جمع ہونے والے پناہ گزینوں اور زخمیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور جب تک انہیں وہاں سے نکال نہیں لیا جاتا کلاڈیوس واپس نہیں آسکے گا۔ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آپ انطونیہ ہیں۔ کلاڈیوس نے مجھے آپ کے لیے ایک ضروری پیغام دیا ہے وہ کہتے تھے کہیں آپ یہ سمجھ نہ لیں کہ میں آپ کے گھر کا راستہ بھول چکا ہوں۔ وہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ آپ کی والدہ کی صحت کیسی ہے؟‘‘
انطونیہ نے پرامید ہو کر پوچھا۔ ’’آپ واپس غزہ جائیں گے‘‘۔
’’جی ہاں! میں آج ہی کسی جہاز پر روانہ ہوجائوں گا‘‘۔
آپ کلاڈیوس کے پاس میری طرف سے یہ پیغام لے جائیں کہ میری والدہ وفات پاچکی ہیں‘ میرے والد یہاں پہنچ گئے ہیں اور میں ان کے ساتھ بابلیون جارہی ہوں‘‘۔
رومی نے پوچھا۔ ’’کیا میں انہیں یہ پیغام بھی دے سکتا ہوں کہ آپ اُن سے خفا نہیں ہیں؟‘‘
’’کس بات پر‘‘
’’ان کا خیال تھا کہ شاید آپ ان کی معذرت قبول نہ کریں‘‘۔
’’آپ انہیں یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ میں ان سے خفا نہیں ہوں‘‘۔ انطونیہ یہ کہہ کر مسکرائی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
رومی نے کہا۔ ’’میں بطلیموس کی وساطت سے آپ کو اُن کا پیغام پہنچانا چاہتا تھا۔ آپ کا نوکر انہیں بلانے گیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اب میں اپنا فرض پورا کرچکا ہوں۔ اس لیے مجھے اجازت دیجیے۔ یہاں مجھے بہت کام ہیں‘‘۔
انطونیہ نے پوچھا۔ ’’آپ کھانا نہیں کھائیں گے؟‘‘
’’نہیں! میں کھانا کھا چکا ہوں۔ اب مجھے اجازت دیجیے‘‘۔ رومی یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا‘‘۔
O
چند دن بعد فرمس اپنی بیٹی کے ساتھ بابلیون پہنچ گیا۔ کئی سال ایک منفعت بخش کاروبار سے اُس نے جو سرمایہ جمع کیا تھا وہ عمر بھر کی ضرورت کے لیے کافی تھا۔ لیکن وہ بیکار بیٹھنے کا عادی نہ تھا۔
اس نے دریائے نیل کے کنارے ایک سرائے خرید لی اور اپنا پرانا دھندا شروع کردیا۔
فلسطین کی طرح مصر میں بھی یہ عام تاثر پایا جاتا تھا کہ اگر ایرانی لشکر نے یروشلم کا رُخ کیا تو اسے عبرتناک تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یروشلم میں شکست کھانے کے بعد اُن لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے جو آخری وقت قدرت کے کسی معجزے کا انتظار کررہے تھے۔ اس کے بعد جب غزہ میں بھی رومیوں کی سطوت کے پرچم سرنگوں ہوگئے تو شام اور فلسطین کی طرح وادیٔ نیل کے شہروں اور بستیوں میں بھی موت کے بھیانک سائے دکھائی دینے لگے۔
بابلیون پہنچنے کے بعد کلاڈیوس کے متعلق انوطنیہ کو آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ وہ غزہ سے اچانک یروشلم کے محاذ پر چلا گیا ہے۔ اس کے بعد کئی ماہ تک اسے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟‘‘
ایک اتوار کی صبح وہ اپنے باپ کے ساتھ گرجے جانے کی تیاری کررہی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی اور چند ثانیے بعد نوکر بھاگتا ہوا اندر آیا اس نے فرمس کو اطلاع دی کہ ایک رومی افسر آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا نام کلاڈیوس بتاتا ہے۔ ایک ثانیہ کے لیے کائنات کی تمام مسرتیں سمٹ کر انطونیہ کے چہرے پر آگئیں۔ فرمس تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا باہر نکلا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کلاڈیوس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے واپس آیا اور یہ تینوں ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ انطونیہ تصور میں پہروں اس سے گلے اور شکوے کیا کرتی تھی لیکن اب اس کی زبان گنگ ہوچکی تھی اور اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے ماضی اور حال کے درمیان سارے خلاء پُر ہوچکے تھے۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ کو میرے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ہم مدت سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔
انطونیہ کے اصرار پر میں چار مرتبہ اپنا نوکر اسکندریہ بھیج چکا ہوں لیکن وہاں بھی آپ کے متعلق کسی کو معلوم نہ تھا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’مجھے غزہ سے کمک کے ساتھ یروشلم کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن شہر سے چند کوس دور دشمن کی ایک فوج نے گھیرے میں لے لیا اور ہم شدید نقصان اٹھانے کے بعد ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ میں ان چند خوش قسم لوگوں میں سے تھا جنہیں دشمن نے غلامی کے قابل سمجھ کر قتل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چند ماہ اردن کے ایک قلعے میں قید رہنے کے بعد میں جنگی قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی طرف روانہ ہوا۔ میں دشمن کی غلامی سے بچنے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔ چند رومی اور شامی نوجوان میرے ساتھ مل گئے۔ کئی ہفتے سفر کرنے کے بعد ہمیں ایک رات شدید آندھی کے باعث فرار ہونے کا موقعہ مل گیا۔ میرے ساتھ بائیس آدمی تھے۔ لیکن چار، رات کی تاریکی میں، ہم سے بچھڑ گئے۔ صبح کے وقت ہمارے سامنے ایک لق ودق صحرا تھا۔ آندھی سے اُڑتی ہوئی ریت میں ہمارے پائوں کے نشان مٹتے جارہے تھے اور ہمیں یہ اطمینان تھا کہ اگر دشمن سواروں نے ہمارا پیچھا کیا تو بھی ان کے لیے ہمارا کھوج لگانا آسان نہیں ہوگا۔ دوپہر تک ہمارے تین ساتھی مارے پیاس کے دم توڑ چکے تھے اور باقی جان کنی کے عالم میں تھے اور ہماری یہ حالت تھی کہ اگر دشمن کے سوار آجاتے تو ہم پانی کا ایک گھونٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کو ان کے حوالے کردیتے۔ تیسرے پہر ہم ایک بلند ٹیلے کے سائے میں لیٹے تھے۔ آندھی تھم چکی تھی لیکن ہمیں اپنی موت سے زیادہ کسی بات کا یقین نہ تھا۔ ایک شامی نوجوان جسے ہم اپنا رہنما تسلیم کرچکے تھے۔ آہستہ آہستہ ٹیلے پر چڑھنے لگا اور میں بھی گرتا سنبھلتا اس کے پیچھے ہولیا۔ ٹیلے کے دوسری طرف تنگ وادی میں خانہ بدوش عربوں کا ایک قافلہ دکھائی دیا۔
صفحہ367تک

حصہ