گروہ بندی نے اردو کی ترویج و اشاعت کو متاثر کیا ہے‘ طارق جمیل

180

مسلمانِ عالم کو گروہ بندی نے بہت نقصان پہنچایا جب تک ہم بحیثیت ایک قوم متحد رہے ہماری عزت و شہرت میں اضافہ ہوتا رہا اور جب ہم رنگ و نسل‘ علاقائیت اور لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم ہوئے تو ہمارا شیرازہ بکھر گیا‘ آج کے دور میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے اس سے ہم سب واقف ہیں اسی طرح جب ہم نے اردو زبان و ادب کے نام پر اپنے اپنے گروہ بنا لیے تو اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کمزور پڑ گئی اس وقت کراچی میں مختلف استاد شعرا نے اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں جہاں انجمن ستائش کی بنیاد پر کام جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف سماجی رہنما اور علم دوست شخصیت طارق جمیل نے اپنی قیام گاہ پر منعقدہ مشاعرے کے خطبۂ استقبالیہ میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے نام پر کئی سیاسی جماعتیں اپنی سیاست چمکا رہی ہیں لیکن کراچی کا بہت برا حال ہے اور کراچی کے شعرا کے مسائل بھی الجھے ہوئے ہیں اس طرف بھی حکومتی توجہ درکار ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود بھی اردو سرکاری زبان نہیں بن پا رہی‘ آپ کب تک اس زبان کو نظر انداز کریں گے حالانکہ اردو اب دنیا کی چوتھی یا پانچویں بڑی زبان ہے‘ اس کا اپنا رسم الخط ہے‘ اپنی گرامر ہے اور یہ تمام زبانوں کے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فراست رضوی نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے‘ ہم اس بات سے انکار نیں کرسکتے کہ شعرائے کرام بھی اس معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں اگر آپ منفی جذبات یا سفلی جذبات پر مشتمل اشعار کہتے ہیں تو اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے لیکن ہر شاعر پر یہ فرض عائد ہے کہ وہ معاشرے کی فلاح و بہبود سے جڑا رہے اس کے اشعار سے ہم معاشرے میں امن و سکون آئے‘ ہم اسی طریقۂ کار کے حامی ہیں۔ فیاض علی فیاض نے کہاکہ آیئے ہم عہد کریں کہ ہم ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے بجائے محبتیں تقسیم کریں گے۔ حیدرآباد کے معروف صحافی و نقاد فیاض الحسن نے اس محفل میں کہا کہ دبستان کراچی مضبوط شاعری کا حوالہ ہے۔ علاقائی زبان کی ترقی میں اردو کی ترقی مضمر ہے اردو پاکستان میں رابطے کی زبان ہے اس کا سوفٹ ویئر موجود ہے لہٰذا ہم رومن انگریزی میں اردو نہ لکھیں اگر ہم رومن انگریزی میں اردو لکھیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اردو کے دشمن ہیں‘ ہماری شناخت اردو ہے‘ ہم اس زبان کی حفاظت کریں‘ ٹی وی اینکرز بھی اردو کے تلفظ کا خیال رکھیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ اس سیشن کے بعد شعری نشست ترتیب دی گئی جس میں کوئی بھی صدرِ مشاعرہ نہیں تھا۔ طارق جمیل نے مشاعرہ پڑھوایا جس میں فراست رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ شائق شہاب‘ افتخار ایڈووکیٹ‘ تنویر سخن اور یاسر سعید صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ