سوشل میڈیا کا تصور آزادی

344

لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے علامہ اقبال سے پہلے استعماریت کو سب سے پہلے پوری قوت سے اپنی شاعری سے رد کیا تھا۔ اس حد تک کہ انہوں نے کہاکہ ’’بے شک نئی روشنی سے بہتر ہے آدمی کے لیے کرسچن ہوجانا۔‘‘ مطلب اُنہوں نے صاف کہا کہ ’’کافر‘‘ ہوجانا میرے لیے پھر بھی بہتر آپشن ہے کہ اس بہانے سہی میرے اندر قدرے مذہبیت تو بچی رہے گی، جو کہ اس ’’نئی روشنی‘‘ مطلب استعماری لبرل اقدار سے توبہتر ہی ہے۔ ایک قطع میں ناقابل تردید حقیقت یوں دہراتے ہیں کہ:
اکبرؔ رہتا ہے اس اندیشے میں غرق
کہ کافر اور نیٹیو میں ہے بس یہی فرق
کافر کا علاج تو ہوتا ہے ایمان سے
نیٹویت تو لپٹ گئی اپنی جان سے
یہ ’’نیٹیو‘‘مکمل اصطلاح ہے اس کے معنی ہیں کہ وہ شخص جس کے تہذیبی اہداف بالجبر تبدیل کر دیے گئے ہوں، یا جسے مغربی استعمار مقامی کہے وہ نیٹیو native ہوگا۔
یہ قطع برصغیر آج بیسویں صدی میںحقیقت بن کر تباہی پھیلا رہا ہے، کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت نے اسے صرف شعر ہی سمجھا، کاش یہ گوگل کی بارش پیش گوئی جیسا کچھ ہوتا کہ لوگ کم از کم بارش سے بچنے کی کچھ تیاری کرلیتے۔ بھارت کے مشہور نوجوان فلم اسٹار رنویر سنگھ نے گزشتہ دنوں ایک میگزین کے لیے برہنہ حالت میں بھرپور تصویرکشی کروائی اور اُس کو فخریہ انداز سے سوشل میڈیا پر جاری بھی کردیا۔ اس پر اداکار کوکسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ مگر بھارت میں ایسی تصویر کشی پر شدید رد عمل ہے،کئی ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہیں۔ لوگ بے حیائی کے عنوان پربہت چیخ رہے ہیں۔ انسٹاگرام پر رنویر نے اپنی تصاویر کے ساتھ لکھا ’’میرے لیے کپڑے اتارنا بہت آسان تھا، اپنی کچھ پرفارمنس میں نیم برہنہ بھی نظر آیا ہوں۔ کپڑے اتارنے کے بعد آپ میری روح تک دیکھ سکتے ہو۔ میں ہزاروں لوگوں کے سامنے برہنہ ہو سکتا ہوں، مجھے کسی کی پروا نہیں۔‘‘
بی بی سی کو یوں لکھنا پڑا کہ ’’رنویر سنگھ کی برہنہ تصویر سے لوگ ’’پریشان‘‘ کیوں؟ رنویر سنگھ کو معلوم تھا کہ ایک ہزار لوگوں کے سامنے برہنہ ہو نا اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، مگر اس سے یہ ایک ہزار لوگ خود ہی پریشان ہوجائیں گے۔‘‘
بھارت میں اخلاقی الجھن اور برہنگی پر نئی بحث چھڑ گئی۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کوئی ڈیڑھ ارب کی آبادی کا ملک بننے جا رہا ہے، جہاں روایتی معاشرت آج بھی موجود ہے، جس میں برہنگی، فحاشی، عریانیت کی گنجائش موجود نہیں۔ اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بھارتی خواتین کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اس کے حق میں دلیل یہ ہے کہ انسانی جسم خالق کائنات کی سب سے خوب صورت تخلیق ہے اس کی نمائش میں مسئلہ کیا ہے؟ رنویر سنگھ فلموں سے قبل اشتہارات کا ماضی رکھتے ہیں، اشتہار ویسے خود ایک ایسا خطرناک، بدترین ابلاغی میڈیم ہے جو اخلاقیات سے عاری ہے، جس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ صرف بیچنا ہے۔فلموں میں ’’صرف بیچنے‘‘ کا پہلو غالب نہیں ہوتا‘ صرف پروڈیوسر‘ یعنی پیسا لگانے والے کے مقاصد پیچھے ہوتے ہیں۔ یہ صرف یہاں نہیں ہو رہا، امریکا میں ایک مشہور اسپا (حمام )کی خبر سامنے آئی کہ وہاںایک 52 سالہ شخص اپنے آپ کو عورتوںکے حصہ میں جا کر برہنہ کرلیتا ہے۔ اس پر ایسا شدید احتجاج ہو تا ہے کہ اس کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ وہ شخص مرد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر قرار دے دیتا ہے، پھر اظہار آزادی اور حقوق کے دائرے میں دل چسپ بات یہ رونما ہوتی ہے کہ خواتین اُس کو بے حیائی پر سزا دلانا چاہتی ہیں تو دوسری جانب وہاں کے ٹرانس جینڈر اُس کے حق میں کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ’’ہماری کمیونٹی پر ظلم ہو رہا ہے۔‘‘
بات یہاں ختم نہیں ہوئی اسی ہفتے دو پاکستانی اداکاروں نے بھی ایک تصویر کشی کرائی ، فلم یا ڈرامے کے لیے نہیں بلکہ کسی خاص اشتہار ی مہم کے لیے۔ اس میں بے شرمی ، بے حیائی کا پہلو اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ شراب نوشی کی پروموشن کی گئی ’’ایک ٹکٹ میں دو زہر‘‘ مطلب کس عمل کو معاشرے میں نارملائز کر رہے ہیں؟آپ کے بغیر بولے عام آدمی کیا اثر لے گا۔ ایک پاکستانی گلوکار و اداکار محسن عباس نے مزید آگے بڑھتے ہوئے ایک گانا بنا دیا ، کہنے کو تو وہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے، خود کو اس روپ میں لاکر‘ مگر اپنی لا علمی پر یہ زہر معاشرے میں گھولتے چلے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے جس میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ اب یہاں ٹرانس جینڈر اور ایل جی بی ٹی پر معاملہ تو بہت آگے کا ہے۔ یہی نہیں عالمی شہرت یافتہ ناول نگار افغانی خالد حسینی نے اپنے‘ بیٹے جو کہ بیٹی ہو گیا‘ وہ اپنے بیٹے کے بیٹی بن جانے کے بارے میں پوسٹ ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’سخت وقت گزرا جب میرے بیٹے حارث نے لڑکی بننے کے عمل سے اپنے آپ کو گزارا۔ میں اپنے بیٹے کی بہادری، سچائی اور حقیقت پسندی سے متاثر ہوا ہوں۔ خدا اس پر رحمتیںرکھے۔‘‘ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اس کی پوری پوسٹ لکھ پاتا۔ ایکسپریس ٹریبیون نے اس پر پوری اسٹوری شائع کی ہے۔یقین مانیں کہ اس معاملے کو زبردستی شیطانی تعلیمات کے تناظر میں ایسا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے دین میں اس پر پوری رہنمائی موجود ہے۔
سچ بتائیں کہ اس پورے میڈیائی منظر نامے میں کبھی ہم نے دیکھا ہے کہ ہالی ووڈ اپنی عمومی فلموں میں پاکستان کا کلچر دکھاتا ہو؟ ہالی ووڈ تو دور کی بات جرمنی، فرانس، یورپ، برطانیہ اور چین بھی اپنی کسی فلم یا ڈرامے میں اپنی تہذیب و کلچر کے سوا کسی اور کا کلچر نہیں دکھاتا، مگر ہمارے یہاں تو چونکہ ’’نیٹویت‘‘جان سے لپٹنے کی کیفیت ہے ناں۔ اسی طرح پاکستانی اداکار احد رضا میر کا نیٹ فلکس کی ایک سیریز میں فحش مناظر پر ایک اور ایشو سوشل میڈیا پر زیر بحث رہا۔ جیسے ہی اقدار پر ضرب پڑتی نظر آئی آپ دیکھیں کہ لوگو ںنے سوشل میڈیا پر رد عمل بھی دیا اس لیے کہ لوگوں میں ابھی حیا باقی ہے کیوں کہ وہ انجیکٹ ہے بائی ڈیفالٹ ہے اس لیے وقت تو لگے گا۔
خوب جان لیں مسلم معاشرے میں آپ اگر لادین ہونے یا شر ک کرنے کی دعوت کھلے عام دیں گے تو وہ بالکل نہیں آئیں گے اور شدید رد عمل دیں گے۔ مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کفر صرف یہی نہیں کہ آپ کسی مندر میں جا کر کسی بُت کے سامنے ہاتھ باندھ لیں۔ بے حیائی ، فحاشی و عریانی پھیلا کر اس میں ملوث ہونا ہی کفر میں لانے کا آسان طریقہ ہے۔ قرآن مجید یہی بتاتا ہے کہ یہ شیطان کا سب سے مؤثر و اوّلین ہتھیار ہے۔ یہ اسلام کے مزاج کے عین متضاد ہے، اسلام کا مزاج حیا ، شرم، پاک بازی، نفاست، صفائی پر مبنی ہے اور یہ سب اس کی مکمل ضد ہیں۔ ایسا ہے کہ آپ دودھ کے بھرے جگ میں ایک قطرہ ہی غلاظت کا ڈال دیں تو وہ سب بے کار ہو جاتا ہے اور دودھ بھی فوراً پھٹ جاتا ہے۔ ایمان وحیا ساتھ ہیں، یعنی ایمان ختم کرنا ہوتو اس کو بے حیا کر دیں یا کسی میں بے حیائی ہو تو اس میں لازمی ہے کہ اُس کے پا س ایمان نہیں ہوگا۔
مجھے حیرت یوں بھی ہوئی کہ چند روز قبل بھارت میں نوپور شرما کے بیان پر میں نے پاکستانی شوبز انڈسٹری کے افراد کو بھی احتجاج کرتے دیکھا تھا، تھوڑی خوشی ہوئی تھی۔ مگر میں نے سوچا جس رسولؐ سے محبت کا اظہار آپ کچھ دن پہلے کر رہے تھے۔ اگر آج آپ کا یہ فوٹو شوٹ آپ کے رسولؐ آپ کو کرتا دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں گے۔ کیا یہ کسی نے سوچا؟ تصویر کے اپنے خاص اثرات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے دین میں تصویر کشی کی شدید حرمت ہے۔ ٹی وی اسکرین کے ذریعے جو لبرل معاشرت منتقل کی گئی، آج موبائل اسکرین نے اس کو مزید کئی گنا طاقتور بنا دیا ہوتا ہے۔ مغرب سے مرعوبیت اور لبرل معاشرت ٹھونسنے کے لیے جو کام جاری ہے وہ اتنی گہرائی میں ہے کہ اگر اس پر با ر بار بات نہ کی جائے تو یہ سب عمومیت و مقبولیت پا جائے گا۔ ایک مرعوب زدہ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مغرب آج ترقی کے معاملے میں کہاں پہنچ گیاہے ؟ ہم ابھی تک کپڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
خوب جان لیں حیا کا مطلب صرف پورے کپڑے پہننا نہیں ہے بلکہ چیزوں کو چھپانا ہے، اسلامی معاشروں میں چیزوں کو ظاہر نہ کرنا ایک بڑی قدر ہے، یہی تصورِ حیا ہے جو بلند ترین اسلامی اخلاقی قدر ہے۔ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ پوری اسلامی فقہ میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کنواری عورت سے نکاح کے بارے میں پوچھا جائے اور وہ خاموش رہے تو اس کا مطلب فقہا نے قبول قرار دیا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ زبردستی اس سے کہلوایا جائے گا۔ شریعت میں اُس شخص کے بارے میں جو بازاروں میں چل پھر کر کھاتا ہو اس کی گواہی غیر معتبر قرار دی گئی ہے۔ شرعِ اسلامی میں قضا نماز بھی اعلانیہ پڑھنے کا حکم نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اچھا عمل نہیں ہے۔ غیبت اسلام میں ایک بدترین عمل ہے، عیب چھپانے کے لیے تا آنکہ وہ برائی یا عیب دوسروں کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ حیا کا تصور یہ ہے کہ ایک برائی بہت پھیلی ہوئی ہے اور سب چھپ کر کرتے ہیں تو دین یہ بھی نہیں کہتا کہ آپ بھی چھپ کر اُس کو کرلو اور نہ یہ کہتا ہے کہ آپ اس کی تشہیر کرو، ماسوائے کسی کی اصلاح کی خاطر متعلقہ کو بتایا جائے۔ اسلا م میں حیا کا تصور اتنا ہے کہ مرد بھی مرد کے سامنے ستر کھول کر آزادانہ نہیں گھوم سکتا۔ اسلام میں حیا کا تصور جنس کی بنیاد پر نہیں البتہ احکامات میں فرق ضرور ہے کیوں کہ حیا اسلام معاشرے کی سب سے بڑی قدر ہے۔
مگر آج جدیدیت نجی چیزوں کی ظاہر داری کا نام بن چکا ہے، ہر چیز کو ظاہر کرنا پبلک ایشو بنانا ، ہر نجی چیز عوام میں لائی جائے صرف لائیک پانے کی خاطر۔ استعماریت نے آزادی کی ایسی شکل کو حیا کی قدر کے مقابلے پر پیش کیا اور آج آزادی کا جو تصور انسانی ذہن میں راسخ کیا گیا وہ تازہ فوٹو شوٹ ہی نہیں، بدترین فحاشی اور بے حیائی کی صورت ہمارے درمیان ہے۔ انیسویں صدی میں مولوی ممتاز جیسوں نے تہذیِب نسواں کے نام پر یہی کام کیا۔ مرد و عورت کی فضیلت کے معاملے کو اسلامی تصور سے کاٹ کر خالص مغربی بنیادوں پر شروع کیا۔ یوں اسلامی تاریخ کو زبردستی ری ڈیفائن کیا اور جدیدیت کو اسلامی تاریخ میں زبردستی شامل کیا۔ آزادی کی یہ تعریف بھی راسخ کرا دی گئی کہ freedom of expressionکے ذیل میں اپنے جسم کی بھی جیسے چاہوں نمائش بھی کر سکوں۔کتنا میں اپنے آپ کو ظاہر کر سکوں۔یہ ٹک ٹاک جیسی تمام سوشل میڈیا ایپلی کیشن اس کی زندہ مثال ہیں۔
اسلام آباد سے ہمارے سینئر صحافی دوست احسان کوہاٹی مستقل اس بات پر متوجہ کر رہے ہیں۔ ایک باریش میاں بیوی کی ایک دوسرے کو شربت پلاتے ہوئے تصویر شیئر کی اور لکھا کہ ’’جوڑی سلامت رہے لیکن یہ سب ہم سب کو دکھانا کیوں ضروری ہے؟ آپ دونوں اک دوجے کے لیے بنے ہو یہ لمحات بڑے خاص ہوتے ہیں‘ انہیں لائیکس کے چکر اور شہرت کی چاٹ میں یوں عام نہ کیا جائے۔‘‘ ایک اور پوسٹ میں متوجہ کیا کہ ’’ایک بات سمجھنا چاہتا ہوں‘ آپ اگر اپنی بیگم سے محبت کرتے ہیں اگرچہ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے تو کیا اور کیوں یہ ضروری ہے کہ اس کی خبر بتوسط سوشل میڈیا دنیا کو ہو‘ کوئی ٹک ٹاک بنائی جائے‘ کوئی وڈیو انسٹا پر ڈالی جائے، بالفظ دیگر ان لمحات کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر کیوں ریلیز کی جائے، پلیز اس منطق کو سمجھنا چاہتا ہوں۔‘‘
سوشل میڈیا پر اس ہفتے سیاسی طور پر معاملہ بلا شبہ گرم رہا۔ پنجاب کے سیاسی منظر نامے سے لوگ 17سے 26 جولائی تک مستقل جڑے رہے۔ پاک فوج کے بعد اب عدلیہ کو بھی سوشل میڈیا پر بری طرح نشانہ بنایا گیا جو بہرحال تنقید کی نئی مثالیں قائم کرے گا۔ پنجاب کی حکومت جس طرح تحریک انصاف کے ہاتھ گئی اس پر سب نے دل کھول کر تبصرے کیے اور تبرے بھیجے۔ ملک بھر میں برسات سے ہونے والی تباہیاں بھی عروج پر رہیں۔ کراچی اپنے تباہ حال شہری ڈھانچے کی وجہ سے خاصا زیر بحث رہا۔ اس وجہ سے بھی کہ بلدیاتی انتخابات کا شور تھا۔ برسات کی تباہ کاری نے سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کے حق میں رائے عامہ بھر پور انداز سے ہموار کی او ر عوام میں یہ لہر سرایت ہوتی محسوس کی گئی کہ لوگ مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمن کی معروف سوشل میڈیا وی لاگرز کے ساتھ انٹرویوز کی دھوم رہی، جن میں انہوں نے کراچی کے شہری مسائل کا مقدمہ بڑے مدلل انداز سے پیش کیا۔ اس معاملے پر دیگر تمام جماعتیں ہر لحاظ سے پیچھے رہیں۔

حصہ