ادھوری خواہش

146

ساری رات کروٹیں بدلتے گزر گئی تھی۔مگر مجال ہے جو ایک لمحہ کے لیے اُسے نیند آئی ہو۔ تبھی فجر کے وقت بالآخر وہ اٹھ بیٹھی۔ پورے جسم میں جیسے ٹیسیں سی اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ ہمت مجتمع کرتے نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نماز کے بعد وہ سیدھی باورچی خانے میں چلی آئی تھی۔ رَت جگے کے باعث آنکھیں ابھی تک متورم تھی۔ اس کی دونوں نندیں اور آبائی گاؤں سے آئے مہمانوں نے بھی کل شام ہی واپسی کی راہ لی تھی۔ تبھی اسے اس وقت شدت سے تنہائی کا احساس ہو رہا تھا۔ اپنے لیے چائے تیار بنا کر وہ صحن میں بچھے تخت پہ آبیٹھی۔ اس کی ساس کے انتقال کو یہ چوتھا روز تھا۔ وہ دونوں اس وقت یہیں بیٹھ کر چائے پینے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر لیا کرتی تھیں۔ پھر تو جیسے اس کا سارا دن ملازمت اور گھر کے کاموں کی نذر ہو جایا کرتا تھا۔ مگر اب وہ یہاں موجود نہیں تھیں تو مانو جیسے سب کے موجودگی کے باوجود بھی اُسے تنہائی کا احساس ہمہ وقت ڈسنے کو تھا۔ وہ سست قدموں سے آمنہ بی کے کمرے میں چلی آئی تھی بے شکن بستر اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھی دوائیوں کی شیشی پہ نظر ڈالی۔ اس کا دل ڈوب سا گیا۔ اُس کا تعلق اپنی ساس سے روایتی ساس بہو والا تعلق تو نہیں وہ تو ہمیشہ اس کی ڈھال بنی رہی تھیں۔ یہاں تک کہ عمیر کے اس کی جاب کے دو ٹوک اعتراض پہ بھی وہی تو تھیں جن کی بدولت وہ اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گھر سے باہر قدم نکال پائی تھی۔ اور اسی طرح ہر موقع پر وہ اس کی ڈھال بنی رہی تھیں۔ پر وہ کیا کر پائی تھی ان کے کے لیے صرف اتنا ہی نہ کہ انکی ہر بات ماتھے پہ کوئی شکن سجائے بغیر سن لیا کرتی تھی۔ پر اس کا کیا وہ جو ادھورا خواب اپنے ساتھ لیے منوں مٹی تلے جا سوئی تھیں۔ ہاں یہ کوئی اتنا مشکل کام تو نہیں تھا جو زرمینہ کے لیے ممکن نہ تھا صرف ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت ہی تو کرنا چاہتی تھیں۔ مگر افسوس زرمینہ نے کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔ ہر سال سالانہ چھٹیوں میں خود ناردرن ایریاز جانے سے قبل وہ انھیں اپنی نند کیا یہاں بھجوا دیا کرتی تھی بھلا اسے یہ کب خیال آیا تھا کہ کسی سال وہ ان کی خواہش کا احترام کر لیتی آہ… اور جب وہ نہیں تھیں تو کس قدر تکلیف دے رہا تھا یہ احساس کے وہ ان کی ایک خواہش بھی پوری نہیں کر پائی تھی۔ وہ تو گھر کا گھنا سایہ تھیں اور جب وہ نہیں رہی تھیں تو وہ خود سے نگاہیں بھی نہیں ملا پا رہی تھی۔

حصہ