احساس

184

’’رمیز رمیز…‘‘وہ پوری قوت سے آوازیں دے رہی تھی، گھر کی چوکھٹ ٹوٹی پڑی تھی، مکین پانی میں ڈوبی ہر ہر چیز کی طرح بکھرے پڑے تھے، اکبری سہمی دیوار و در کی پناہیں ڈھونڈ رہی تھی، بارش کیا ہوئی،چند منٹ میں قدرت کا یہ عطیہ گٹر ابلتی سڑکوں سے ہوتا ہوا گھروں کی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا، وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اچانک یہ سب کیسے ہوگیا؟ پھر رمیز کا سوچ سوچ کر اوسان خطا ہو رہے تھے، وہ کتنی دیر سے غائب تھا، کمسن چار سال کا بچہ ہی تو تھا، برے برے اندیشے اس کے دماغ کی نسوں پر اثر انداز ہورہے تھے، کہیں وہ پانی کے اندر تو نہیں ڈوب گیا، اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا، تب ہی شمس کی آواز کہیں دور سے اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اس کی جان میں جان آئی، شمس الجھے بالوں گیلے بدن کے ساتھ دروازے تک بہ مشکل آئے تھے، اس کو دیکھ کر بولے ’’اسما! رمیز ساتھ والی خالہ کے گھر خیریت سے ہے، انہوں نے پانی گھروں میں آتے دیکھا تو اس کو اپنے گھر ہی روک لیا تھا۔‘‘
اس نے ٹھنڈی سانس لی،شکر سے آسمان کی طرف نگاہ جمائی۔
اکثر رمیز خالہ کے گھر ان کے پوتے کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا تھا، ان کی آپس میں خوب دوستی تھی، اصغری کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسما نے اپنے پہلو میں تھام لیا، بس پھر کیا تھا، وہ روتے روتے کہنے لگی، ’’امی! میری الماری کے سارے کپڑے خراب ہوگئے اور جو گڑیا مجھے بابا نے لاکر دی تھی، وہ بھی خراب ہوگئی۔‘‘ وہ روئے جارہی تھی،جانے کتنے خواب اس کی آنکھوں کے دریچے تک پہنچے ہوئے تھے، کاغذ کی کشتی، خوب صورت آبشار سا بہتا اپنے گھر کا آنگن اور اس کا مٹی کا گھروندہ جو اس کے تخیل کا اصل مینار تھا، مگر یہ سب اس بہتے شہر میں… اس نے سب خواب سمجھوتے کے صندوق میں بند کرکے رکھ دیے تھے۔
ماں کا دل تھا، سو بھر آیا، خود کو مگر سنبھالنا وقت کا تقاضا تھا، وہ سمجھ سکتی تھی، ایک لڑکپن کے دور کی چہکتی چڑیا کے شکوے، اس کو سمجھانے لگی ’’میری بچی! بابا اور گڑیا لادیں گے۔‘‘
ادھر شمس الحسن جگہ جگہ انتظامیہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک کے چور ہوچکے تھے، کہیں کسی عہدے داروں اور رکھوالوں متوالوں کا نام و نشان نہ تھا، وہ لوگ کہیں نظر نہ آرہے تھے جو کچھ دن قبل ہی ووٹ کے لیے یہ یقین دلاکر گئے تھے کہ وہی اس شہر کی سڑکوں کی مرمت سے لے کر بارش کے پانی کے نکاسی سسٹم کو بہتر کریں گے۔ مگر آج ان کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
اس شہر کی ہر گلی فوتگی کا منظر پیش کر رہی تھی۔
دو دن گزرے، اسما‘ خالہ سے پڑوس میں ملنے گئی، بچے تخت پر بیٹھے زبر اور زیر کی مشق نورانی قاعدہ لیے کررہے تھے، اس کو آتا دیکھ کر خالہ ہولے سے مسکرائیں اور بولیں ’’آئو اسما! بیٹھو میں تمہیں یاد ہی کررہی تھی۔‘‘
اسما ان کی میزبانی کے جواب میں تشکر کے لہجے میں بولی ’’خالہ! آپ کی محبت ہے کہ آپ یاد رکھتی ہیں۔‘‘
’’میری بہن اتنی اداس کیوں لگتی ہو۔‘‘
خالہ نے اس کے ماتھے کی سلوٹیں پڑھ لی تھیں، پوچھ کر تبصرہ کرنا چاہتی تھیں۔
وہ بولی ’’خالہ! ہمارے گھروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، امیر لوگ اپنے گھروں میں مزے سے ہیں، حکمران طبقہ بھی ان برساتی نالوں کے لیے کچھ نہیں کرتا، سب دَم سادھے بیٹھے، قوم کی قسمت کب بدلے گی؟‘‘ وہ ایک ہی سانس میں کہتی گئی۔
خالہ نے رسان سے جواب دیا ’’اسما! قوم اپنی قسمت خود بدل سکتی ہے، اپنے ووٹ سے، دیانت دار لوگوں کو جب لانے نہیں دیا جاتا تو قوم پر ظالم حکمران ان کی سزا بن جاتے ہیں، اب دیکھو ذرا یہ الخدمت فاؤنڈیشن بغیر کسی حکومتی اداروں کی سر پرستی کے انسانیت کی ہر مشکل میں کھڑی ہے، اگر یہ آکر ہمارے ابلتے گٹر نہ دیکھتے تو ابھی ہم کس حالت میں ہوتے، میں نے تو پچھلی دفعہ بھی تمہارے شوہر کو بہت سمجھایا تھا مگر اس نے ایک نہ سنی، تم تو میرے گھر ہر دفعہ کلاس میں قرآن سنتی ہو نا، ووٹ ایک امانت ہے اس کو وہاں دو جو اس کی ذمہ داری اچھی طرح نبھائے۔‘‘ خالہ اس کے پاس سرکاتے ہوئے مسکراکر بولیں۔
صفیہ نے ان کو بہت مطمئن دیکھا تھا ہمیشہ سے۔ پھر ان کی وجہ سے محلے کی رونق درس و تدریس کا سلسلہ بھی تھا، بچوں کو اپنے گھر بلا کر صحابہؓ کے قصے سناتی تھیں، پھر رمیز کو طوفانی بارش میں اپنے گھر روک لینے پر وہ ویسے ہی ان کے احسان مند تھی۔
شام تک شمس پہنچے تو وہ بھی خالہ کے بیٹے کی رفاقت میں اپنے ووٹ کو دیانت دار لوگوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے کیوں کہ اب وہ اکبری اصغری کو بارشوں میں سوگ مناتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے بلکہ ان چڑیوں کو چہچہاتے ہوئے بارش میں کاغذکی کشتی بناتا دیکھنا چاہتے تھے۔

حصہ