پی ایچ ڈی کے مقالات میں سرقہ ایک سماجی المیہ

780

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال

(دوسرا حصہ)
ڈاکٹر معین الدین عقیل سے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا اس دورران میں نے پوچھا کہ اگر جامعات میں تحقیق کی صورت حال یہ ہو تو جامعاتی تحقیق کے مقابلے میں ذاتی اور انفرادی سطح پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے؟ تو ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ہاں بلکہ عالمی سطح پر بھی تحقیق کی سرگرمیاں زیادہ تر جامعات یا اس نوعیت کے اداروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ماضی میں بھی ہمارے وہ اکابر جن کا نام اور کام تحقیق دنیا میں مثالی اور قابل رشک رہا ہے ان میںممتاز اور معروف محققین زیادہ تر وہ تھے جو جامعات یا تحقیقی اداروں سے منسلک تھے، جیسے مولوی محمد شفیع، محمود شیرانی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹر وحید قریشی۔ ان کا دائرہ تحقیقات زیادہ تر ادبیات سے متعلق تھا۔ تاریخ و سیاسی موضوعات پر بے حد عمدہ تحقیقی مطالعات میں مثلا ً ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، عزیز احمد، کے۔کے۔ عزیز کے نام اور کارنامے بے مثال ہیں یا اب پروفیسر احمد سعید، نعیم قریشی، ظفر اسحٰق انصاری، محمد اکرام چغتائی، سفیر اختر اور اقبال مجددی لائق تحسین کام کرتے رہے ہیں اور تاحال اپنے مطالعات و تحقیقات میںسرگرم و مستعد ہیں۔یہ ایسے محققین اور مصنفین ہیں جن کی ہمسری میںیا جن کے قریب بھی آج کے کسی جامعاتی محقق کا نام شاذ ہی لیا جا سکے۔ یہاں یہ اشارہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ ہمارے ایسے محققین میں ایسے محقق بھی شامل ہیں جنھیں کسی جامعہ میں ہونا چاہیے تھا لیکن جامعات میں جو انتہائی افسوس ناک باہمی چپقلش اور سیاست کی فضا ہے اس کی وجہ سے ایسے لائق و فائق محققین جامعات سے منسلک نہ ہو سکے، جیسے محمد اکرام چغتائی، پروفیسر احمد سعید، محمد اقبال مجددی اور ابرار عبدالسلام وغیرہ ہیں، جو جامعات میں آنے نہ دیے گئے کہ اگر وہ آئیں گے تو ان کے آنے سے وہاں پہلے سے موجود اساتذہ کے قد چھوٹے ہوجائیں گے۔ چناں چہ ایسے لائق محققین کے مقابلے میں نااہل اور کم حیثیت افراد جامعات میں لے لیے جاتے ہیں اور لائق محققین کو جان بوجھ کر دور رکھا جاتا ہے۔ اس صورت ِ حال سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری جامعات میںتحقیقات و مطالعات کے زمرے میںوہاں موجود ارباب ِاختیار کی ترجیحات کیا رہی ہیں یا کیا رہتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اکثر سننے وپڑھنے میںآتا ہے کہ فلاں یونیورسٹی کے اساتذہ کے پی ایچ ڈی کے مقالات میں سرقے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سماجی المیے کی کیا وجہ ہے اور اس کا کس طرح سد باب کیا جاسکتا ہے؟ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا ’’اس المیے کی بنیادی وجہ نااہلی ہے کہ جو اس حرکت کے ذمے دار ہوتے یا جن سے یہ حرکت سرزد ہوتی ہے وہ تحقیق کا حقیقی ذوق و شوق نہیں رکھتے اور ان میں لکھنے کی صلاحیت اور تحقیق کی اہلیت نہیں ہوتی لیکن انھیں اپنی شہرت و خود نمائی اور جامعات میں اپنے عہدے اور منصب سے متعلق تحقیق سے حاصل ہونے والے فوائد ضرور مطلوب ہوتے ہیں۔ یعنی اگر وہ جامعہ میں استاد ہیں تو انھیں ترقی اور مناصب و عہدے عزیز ہوتے ہیں اس لیے تحقیق کی عائد شرط کو پورا کرنے کے لیے وہ سرقے اور چوری سے بھی باز نہیں آتے۔ بس انھیں کسی طرح اپنے نام سے مقالہ چاہیے وہ کسی سند کے لیے ہو یا ترقی کے لیے، لکھنا اور چھپوانا ضرور ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خود کوئی استاد تحقیق سے دل چسپی یا اس کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن اس سے متعلق فوائد حاصل کرنے کے لیے کسی اور شخص سے مقالہ لکھوا لیتا ہے جو معاوضہ لے کر لکھ دیتا ہے۔ اس معاوضے پر لکھنے والے کو معیار اور اس کے لوازم سے خاص غرض نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ سرقے سے بھی کام لینے میں تردد نہیں کرتا۔ یہ تو بعد میں سرقے کا الزام خود مقالہ نگاروں کو چونکا دیتا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنے قیام کے بعد جامعات میں تحقیقی سرگرمیوں میں بلاشبہ خاصا اضافہ کیا ہے اور جامعاتی تحقیقات کے معیار کو بہتر بنانے اور ترقی و فروغ کے لیے خاصے مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ اساتذہ کی ترقی و تقرر کے لیے اور جامعات کے درجات کی بلندی کے لیے تحقیق کی رفتار اور تحقیقی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے تحقیقی منصوبوں کی تکمیل اور تحقیقی مقالات کی تعداد اور معیار کے لیے کچھ شرائط طے کی گئیں کہ ایک استاد کے تقرر کے لیے تعلیمی لیاقت میں اس کا ہمیشہ اچھے درجے میں کامیاب ہونا، اس کی اگلے درجے میں ترقی کے لیے اس کے عہدے کی مناسبت سے ایک خاص تعداد میں تحقیقی مقالات کا کسی مسلمہ معیار کے ملکی یا بیرون ملک کے تحقیقی مجلے میں شائع کروانا، جسے ایچ ای سی نے منظور کیا ہو یا عالمی سطح پر وہ مسلمہ معیار کا مجلہ قرار دیا جاتا ہو۔ یہ شرائط ایسی ہیں کہ صرف اہل اور لائق و محنتی اور ذوق و شوق کے حامل افراد ہی انھیں پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن ہماری جامعات میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ دیانت داری سے افراد کی اہلیت کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ان شرائط کی تکمیل یا پاسداری کو پیش نظر رکھا جاتا ہو۔ ہماری جامعات کے اکثر اساتذہ اور ان شرائط کے نافذ ہونے سے پہلے کے دور کے اساتذہ میں سے اکثر ایسی مطلوبہ اہلیتوں سے بے نیاز ہوتے تھے اور سفارش اور زور و اثر کے ذریعے جامعات میں تعینات ہوتے اور ترقی پاتے رہے ہیں۔ اب جب ایسی شرائط کو پورا کرنا لازم قراد دیا گیا تو جو افراد کم اہلیت رکھتے تھے یا یکسر نااہل تھے وہ ناروا اور نامناسب تدابیر اختیار کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے لگے۔ اساتذہ کی انجمنیں، جو بالعوم ایسے افراد اپنے تحفظ اور مفادات کے لیے تشکیل دیتے ہیں، فعال ہونے لگیں اور انتظامیہ پر اثر انداز ہو کر مقررہ شرائط پر عمل پیرا ہوئے بغیر اپنے رکن اساتذہ اور حلقے کے اساتذہ کو مطلوبہ فوائد پہنچانے لگیں۔ اس ضمن میں سرسری اور سطحی مضامین، جو عام اخبارات اور رسائل میں اساتذہ چھپواتے تھے کہ ان میں اس سے زیادہ کی اہلیت نہ ہوتی تھی، ’’تحقیقی مقالات‘‘ باور کرا کے اپنے مفادات کی مد میں پیش کرنے لگے اور انتظامیہ خود اپنی نااہلی یا اساتذہ انجمن کے دبائو پر انھیں قبول کرنے پر اور اساتذہ کے مفاد میں شمار کرنے لگی۔ پھر مقالات کی مطلوبہ تعداد کو ظاہر کرنے میں غلط بیانیاں بھی عام ہوئیں۔ ہر عہدے کے لیے سابقہ عہدے میں رہ کر مطلوبہ مقالات کی تعداد کا پورا کرنا ضروری تھا لیکن ایک شخص اپنے سارے پچھلے کاموں کی تعداد کو محض سابقہ عہدے کی تعداد کے طور پر پیش کرکے فائدے حاصل کرتا رہا۔ یعنی غلط بیانی یا جھوٹ سے کام لے کر ترقیاں حاصل کی جانے لگیں۔ پھر چونکہ اہلیت کا فقدان عام ہے اس لیے خود کوئی جستجو اور محنت کرکے مقالہ نہ لکھ سکے تو کسی اور کی محنت پر ہاتھ صاف کر لیا اور پورا پورا مقالہ یا اس کے اجزا استعمال کر کے جیسے تیسے مقالہ لکھ ڈالا یا ایسی بھی روایات ہیں کہ کسی پیشہ ور مصنف سے مقالہ لکھوا لیا اور اسے اپنی کاوش کے طور پر پیش کر کے فائدہ حاصل کرلیا۔ یہ کام ایک مختصر مقالے کے لیے بھی انجام دیے جاتے ہیں جو کسی مجلے میں شائع کروایا جاتا ہے یا پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات کے لیے بھی ایسا کیا جاتا ہے کہ یا تو خود کچھ نہ لکھ سکیں تو دوسروں کے مقالے سے یا مقالات سے جو ملتے جلتے موضوع پر یا عین اسی موضوع پر پہلے سے کسی نے لکھا اور پیش کیا ہو اور وہ کتب خانوں میں موجود ہو، یہ سمجھ کر کہ کون دیکھے گا‘ بلا تکلف و حیا کسی اور کی محنت پر ہاتھ صاف کرنا یا سرقہ اور چوری ایک عرصے سے ہمارے ہاں جامعات میں عام ہوگیا ہے۔ میں نے کہا ’’اس کا مطلب ہے ایچ ای سی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل اس پر کہتے ہیں کہ ’’ایچ ای سی نے جہاں مقالات کے معیار کی بہتری کے لیے مناسب اصول طے کیے وہیں اس کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ ایک تنقیح یا احتساب کی روایت قائم کرتی اور مقالات کو اپنے طور پر بھی جانچنے کا اہتمام کرتی کہ جو مقالات سند کے لیے پیش کیے جارہے ہیں یا ترقی و تقرر کے لیے ملحوظ رکھے جا رہے ہیں آیا وہ واقعتا ً معیاری ہیں؟ چناں چہ ایچ ای سی کو ضروری نگرانی کا فریضہ انجام دے کر ایسی کوششوں کی تنقیح کرنی چاہیے تھی جو اس نے کبھی نہ کی۔ بعض اوقات اعلانات تو کیے گئے لیکن ان پر کبھی دیانت داری سے عمل نہ ہوا۔ یہ تک پوری دیانت داری سے نہیں دیکھا جاتا کہ پی ایچ ڈی کے سندی مقالات کو جو بیرون ِ ملک کے کم از کم دو ماہرین کے پاس بھیجے جانے ضروری ہیں، آیا وہ بھیجے جاتے ہیں؟ جو آرأ ماہرین نے بھیجی ہیںکیا واقعی وہ مثبت ہیں؟ ان میں کوئی رد و بدل تو نہیں ہوا؟ کیا وہ واقعی اصلی بھی ہیں؟ اور جن ماہرین کے پاس مقالات بھیجے گئے ہیں کہیں وہ سابق میں پاکستانی شہری اور اسی یونیورسٹی سے منسلک تو نہیں تھے، جو ظاہر ہے کہ یا تو ایک نرم گوشہ اپنی یونیورسٹی کے امیدواروں سے رکھ سکتے ہیں یا زیر اثر بھی آسکتے ہیں اور رائے جانب دارانہ دے سکتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب میں جامعہ کراچی کی’’مجلس ِ اعلیٰ تعلیم و تحقیق‘‘ سے بطور رکن منسلک تھا تو دیکھتا تھا کہ کس طرح ممتحن کی جعلی رپورٹیں پیش کر کے اسناد کا دیا جانا منظور ہوتا تھا۔ ایک ڈی لٹ کی ڈگری تک اس طرح دی گئی تھی! اس طرح حاصل سرقہ شدہ مقالات بھی ’’مجلس اعلیٰ تعلیم و تحقیق‘‘ کی بے نیازی، سربراہ ِ مجلس کی بد دیانتی اور سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے کامیابی کے مراحل طے کرلیتے ہیں۔ جب ان کے سرقہ ہونے کا انکشاف ہوتا ہے تو اکثر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر کوئی اقدام ہوتا بھی ہے تو ناقص نظام کی وجہ سے معاملہ اتنا طول پکڑتا ہے کہ رفت گزشت ہو جاتا ہے، جو مزید افراد کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔ سرقہ جن افراد پر ثابت بھی ہوچکا لیکن ان کی ذات پر کوئی آنچ تک نہ آئی وہ مختلف غلط ذرائع اختیار کرکے اور ترقی پاتے رہے اور صد شعبہ، ڈین اور وائس چانسلر تک بن گئے۔
پوچھا کیا سدباب ممکن ہے؟ جواب میں آپ نے فرمایا ’’اس کا سد باب اس طور پر ممکن ہے کہ سرقہ کرنے والوں کو بلا کسی لحاظ و مروت سزا ضرور ملنی چاہیے جو کم از کم ان فوائد سے اس کی محرومی ہو جو اس نے حاصل کر لیے ہیں، یہاں تک کہ اس پر جاری ہونے والی سند بھی منسوخ کر دی جائے اور ملازمت سے بھی فارغ کر دیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں ساری برائیاں اس لیے ہیں اور بڑھ رہی ہیں کہ ہمارے ہاں مجرم سزا سے بچے رہتے ہیں اور یوں جرم کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ ہے ہیں۔ میں نے ایچ ای سی کے قیام کے پس منظر میں پوچھا کہ اس کے قائم ہونے کے بعد یہ تو ہوا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ’’پرنٹ‘‘ کیے جانے کا رجحان عام ہوا ہے لیکن دوسری جانب پندرہ سال میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کوئی بڑا قابل ذکر تحقیقی کام ڈھونڈنے سے نہیں ملتا؟ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے اس ضمن فرمایا، عالمی سطح پر میرے دائرہ دل چسپی میں ان برسوں میں متعدد بڑے مطالعات اور زندہ رہنے والے تحقیقی کام سامنے آئے ہیں بلکہ ہر سال ہی یہی صورت رہتی ہے۔ دو چار پُرکشش کام ضرور سامنے آجاتے ہیں۔ انگریزی میں ایسا زیادہ ہے یہاں تک کہ بھارت سے جو انگریزی کتابیں میرے موضوعات ِ دل چسپی پر چھپتی اور مطالعے میں آتی ہیں ان پر خوشی ہوتی ہے۔ باہر کی دنیا میں تو عمدہ تحقیقی مطالعات اور تحقیقات کا ایک تسلسل ہے جو ٹوٹتا نہیں ہے، جاری ہے۔ ہاں پندرہ سال میں ہماری جامعات میں ایسا کوئی مثالی تحقیقی کام شاید نہیں ہوا جس کی بازگشت علمی دنیا میں کہیں باہر سنی گئی ہو یا باہر سے ہو کر یہاں پہنچی ہو۔ باہر کی علمی دنیا میں جو سالانہ فہارس و کتابیات مرتب و شائع ہوتی ہیں اور اب تو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہوجاتی ہیں، ان میں ہمارے ہاں ہونے والے تحقیقی مقالات کا اندراج مجھے تو کبھی نظر نہیں آیا جب کہ تیس ،پینتیس سال پہلے ایسا نہ تھا، پی ایچ ڈی کی سطح کے ہمارے نمائندہ غیرمطبوعہ مقالات بھی کتابیات وغیرہ میں شامل نظر آتے تھے۔
(جاری ہے)

حصہ