مہنگائی،رزق اور کفایت شعاری

392

انعم(اپنی کزن نائمہ سے): ’’چھوڑو یار! تمہیں تو صرف بچوں اور گھروں کی فکر ہے‘ گھومو‘ پھرو عیش کرو۔ تم نے اپنی فکر تو چھوڑ ہی دی ہے۔ اچھا پہنا کرو‘ اچھا اوڑھا کرو… مجھے دیکھو۔‘‘
نائمہ (تحمل سے): ’’میری دوست اللہ کا شکر ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں‘ چاہے دال سبزی ہی سہی‘ بہت سے لوگ تو اس سے بھی محروم ہیں۔ رہا پہننے اوڑھنے کا تو الحمدللہ اس مہنگائی میں بھی مناسب لباس ہے‘ رہنے کو میرے اللہ نے اپنا ذاتی ٹھکانا دیا ہے‘ بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
انعم: ’’اوہو… تم شاید ناراض ہو گئی‘ میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی ویسے اس مہنگائی نے تو مار ڈالا ہے‘ اشعر کی تنخواہ تو ماشا اللہ اچھی ہے لیکن اکثر اوور ٹائم بھی کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اب تو روز ہی سمجھو رات کو دیر سے تھکا ہارا واپس آتا ہے (شکایتی انداز) ہمیں تو وقت ہی نہیں دیتا ہے۔ ویسے میں تو سب کو کہتی ہوں کہ نائمہ کی ہمت اور حوصلہ ہے کہ سہیل بھائی کی ’’مناسب تنخواہ‘‘ میں تم (نائمہ) گزارا کر رہی ہو۔‘‘
…٭…
یہ حقیقت تھی کہ نائمہ بڑی کفایت شعاری سے گھر ‘گرہستی کو سنبھالے ہوئے تھی گرچہ انعم کی طرح اس کا تعلق بھی خوش حال گھرانے سے تھا‘ سہیل بھی پڑھا لکھا‘ تعلیم یافتہ بندہ تھا‘ مناسب روزگار تھا لیکن اس مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے وہ نہایت کفایت شعاری سے کام لے رہی تھی۔
پانچوں بچے ماشاء اللہ ذہین تھے‘ بچوںکے سارے کلاس فیلوز ٹیوشن لے رہے تھے لیکن نائمہ پانچوں بچوں کو گھر پر ہی پڑھاتی۔ وہ خود بھی پڑھی لکھی تھی۔ شادی کے بعد شروع کا ایک آدھ سال وہ اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ ادا کر چکی تھی لہٰذا اسے اپنے بچوں کو گھر پر پڑھانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی بلکہ صبح کے وقت وہ پڑوس میں رہنے والے چند بچوںکو بھی ٹیوشن دے رہی تھی۔ (جودوپہر کی شفٹ میں اسکول جاتے تھے)
بے جا خرچ کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا لہٰذا اس نے مثبت طریقے سے بچوں کو بھی یہی ذہن میں بٹھایا تھا کہ اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ رزق حلال میں اللہ نے ہمیں بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے لیے نوازا بھی ہے یہی وجہ تھی کہ پانچوں بچے بھی ماں کی طرح فضول خرچی سے پرہیز کرتے تھے۔ تمام خاندان اس کی سلیقہ مندی کی داد بھی دیتے تھے اور حیران بھی ہوتے تھے۔دوسری طرف انعم کا اندازِ زندگی مختلف تھا۔ دو وقت کا کھانا گھر پر پکتا تو تیسرے وقت کا ضرور ہوٹل سے آتا یا فیملی کے ہمراہ ہوٹل کھانے چلی جاتی۔ گھر میں بھی پانچ‘ چھ ہزار سے کم کا جوڑا نہ پہنتی۔ قیمتی جوڑے ایک آدھ مرتبہ کسی تقریب میں پہننے کے بعد اسے گھر میں پہن لیتی اس طرح قیمتی جوڑے بھی چند مرتبہ پہننے پر ہی بے کار ہوجاتے۔ وہ خود بی اے پاس تھی لیکن بچوں کو گھر میں پڑھانا دردِ سر سمجھتی تھی۔ تینوں بچے پرائمری کلاس میں تھے لیکن انہیں ٹیوٹر پڑھانے آتا جو منہ مانگی فیس لیتا تھا۔
اشعر نے اسے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اس لیے ان فضولیات سے پرہیز کرو لیکن وہ اسے اپنی چند کزن کا حوالہ دیتی کہ ان کے شوہر تو انہیں اس طرح خرچ کرنے پر نہیں ٹوکتے جس طرح تم ٹوکتے ہو۔ روز کی اس بحث کے آگے اب تو اشعر نے بھی ہار مان لی تھی۔ سمجھو وہ بے چارہ انعم کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے دو‘ دو نوکریاں کر رہا تھا جس پر بھی انعم کا منہ سوجا رہتا کہ وہ اسے اور بچوں کو زیادہ وقت نہیں دیتا۔
…٭…
یہ دونوں معاشرے کی حقیقی جھلکیاں تھیں جو میں نے آپ سے شیئر کیں۔ آج ہمارے سامنے یہی صورت حال ہے‘ کفایت شعر‘ سلیقہ مند خاتون تو بخیر و خوبی اپنے گھر کو سنبھال لیتی ہے لیکن فضول خرچ خصوصاً ناشکری عورت مرد کے لیے بھی بہت سے مسائل کا باعث بن جاتی ہے اس سلسلے میں میری چند خواتین سے گفتگو ہوئی جو اپنے گھر کو اس مہنگائی میں بھی بہتر طریقے سے چلا رہی ہیں۔
…٭…
نیلم (فرضی نام): ہم دونوں میاں بیوی ریٹائر ہو چکے ہیں‘ پنشن اور کچھ جمع پونجی سے گھر چلا رہے ہیں۔ تینوں بچیاں شادی شدہ ہیں‘ بچیاں ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور آتی ہیں۔ میں 68 سال کی ہوں لیکن تمام ڈشز گھر میں تیار کرتی ہوں تاکہ نہ صرف کچھ بچت ہو جائے بلکہ بازاری کھانوںسے بھی بچا جائے۔
الحمدللہ‘ اللہ رب العزت کا کرم ہے لیکن بہت زیادہ قیمتی لباس وغیرہ پر خرچ کرنے سے پرہیز کرتی ہوں اور نہ میری الماریاں کپڑوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں یہی حال میرے شوہر کا بھی ہے۔
…٭…
ثمینہ (فرضی نام): میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہوں‘ مشترکہ خاندان ہے‘ میں نے بچوں کو سبزیاں‘ گوشت‘ دالیں وغیرہ سب چیزیں کھانے کا عادی بنا دیا ہے اور یہی کوشش ہوتی ہے کہ بچے گھر میں بنا ہوا کھانا کھائیں لہٰذا ہوٹلنگ وغیر شاذونادر ہوتی ہے۔ بچوں کو بنیادی آسائشیں فراہم کی ہیں لیکن ہم لگژری آسائشیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کمرے میں بیٹھتے اسی کمرے میں پنکھے اور لائٹ جلتی ہیں۔ میں نے بچوں کو اے سی وغیرہ جیسی آسائش سے دور رکھا ہوا ہے۔ کھیل و تفریح زندگی کے لیے لازمی بلکہ زندگی کا حصہ ہیں لہٰذا کفایت شعاری کے دائرے میں مہینے میں ایک آدھ بار ایسی سرگرمی انجام دی جاتی ہے۔
تمام بچے شہر کے درمیانی درجے کے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں‘ بچوں کو گھر میں بھی مکمل توجہ دی جا رہی ہے اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ اسکول چاہے بہت اونچے اور مہنگے ہوں یا درمیانی‘ بچے کی اپنی کارکردگی اور ذہانت کی بڑی اہمیت ہے‘ وہ چھوٹے اسکولوں سے بھی نکل کر کامیاب ہو جاتے ہیں۔
…٭…
نورین (فرضی نام۔ یہ مقامی کالج میں پروفیسر ہیں): الحمدللہ ہم دونوں میاں بیوی کی مناسب آمدنی ہے لیکن تین بچے پھر مشترکہ خاندان اس لیے فضول خرچی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ظاہر ہے میں خود بھی ملازمت کر رہی ہوں اس لیے اپنے آپ پر بھی دھیان دیتی ہوں لیکن بہت زیادہ قیمتی کپڑوں وغیرہ یا لگژری آسائشوں کی عادی نہیں ہوں ہاںانسان جو کمائے ہو اس کی زندگی اور رہن سہن سے بھی ظاہر ہونا چاہیے ناکہ کنجوسی برت کر اللہ کی نعمتوں سے منہ موڑیں۔
…٭…
مذکورہ بالا خواتین کی گفتگو سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ اس مہنگائی کی دور سے امیر‘ غریب‘ متوسط طبقہ سب متاثر ہیں۔ ان حالات میں کوئی بندہ بھی فضول خرچی کا مرتب ہو کر مسائل کو دعوت دے سکتا ہے ان پریشانیوں سے بچنے کے لیے ہر شخص کے لیے لازمی ہے کہ کفایت شعاری کو اپنائے جو کہ خوش حالی کی ضامن ہے۔ دین اسلام نے بھی ہمیں کنجوسی اور فضول خرچی سے بچنے کی تاکید کی ہے اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے یعنی کفایت شعاری اعتدال کا راستہ ہے‘ آج کے اس مہنگائی کے دور میں عوام کو یہ اعتدال کا راستہ یعنی کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا تاکہ مشکلات اور تکلیفوں سے بچا جاسکے یعنی آج کی اس مہنگائی کا مقابلہ اور سامنا کرنے کے لیے کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا خصوصاً گھر سنبھالنے والی خواتین کو تو ضرور اس اصول پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔

حصہ