ہم کیوں مسلمان ہوئے

ڈاکٹر منیر احمد راشد(بہاماز)
دو ڈھائی سال گزرے گرمیوں کی ایک سہ پہر کو منصورہ کی جامع مسجد میں نمازِ عصر کے بعد میں نے ایک باریش‘ دراز قد‘ صحت مند سیاہ فام شخص کو دیکھا جس کے لباس نے خصوصاً میری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ غیر ملکی ہونے کے باوجود پاجامہ اور کرتہ زیب تن کیے ہوئے تھا۔تعارف ہوا تو پتا چلا کہ موصوف بہاماز (Bahamas) سے آئے ہیں اور نو مسلم ڈاکٹر ہیں۔ چنانچہ میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کا وقت لیا اور ان کی خواہش پر ایک سوال نامہ ان کے حوالے کر دیا جس کے تفصیلی جوابات انہوں نے اپنے قلم سے تحریر کر دیے۔ اسی تحریر کو اردو میں منتقل کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ بہاماز بحر اوقیانوس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی ساحلوں کے قریب ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست ہے‘ جس کی اکثریت سیاہ فام آبادی پر مشتمل ہے۔ متذکرہ سوال نامہ اور اس کے جواب ذیل میں ترتیب وار ملاحظہ کیجیے:
سوالات:
-1 میرے دینی بھائی براہِ کرم اپنا پورا اور مفصل تعارف رقم فرما دیجیے۔ آپ کہاں اور کس خاندان میں پیدا ہوئے؟ پرانا اور نیا نام کیا ہے اور تعلیم اور ملازمت کے مراحل کہاں طے کیے ہیں؟
-2 سب سے پہلے آپ اسلام سے کب متعارف ہوئے؟ اس ضمن میں آپ نے مثال کے طور پر کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کیا اور آخر کار کیسے اسلام قبول کیا؟
-3 قبولِ اسلام کے بعد آپ نے اپنے اندر کس نوعیت کی تبدیلیاں محسوس کیں؟
-4 قبولِ اسلام کے بعد آپ کے والدین‘ حلقۂ احباب‘ خاندان اور اہلیہ کا ردعمل کیا تھا۔
-5 بہاماز کی عام معاشرتی حالت کیسی ہے؟ براہِ کرم وہاں کی سماجی اور اخلاقی صورت حال پر کچھ روشنی ڈالیے۔ آپ نے اپنی گفتگو میں بتایا ہے کہ بہاماز میں آزاد معاشرت (فری سیکس سوسائٹی) پروان چڑھ رہی ہے‘ اس حوالے سے وہاں کی عورتوں کے بارے میں ضروری معلومات تحریر فرمایئے۔
-6 جب آپ کے ملک میں سارے کا سارا معاشرہ ہر نوع کی پابندی کے بعد ’’عیش‘‘ کر رہا ہے تو کیا آپ کے ذہن میں نہیں آتا کہ اسلام قبول کرکے آپ کتنی ’’مسرتوں‘‘ سے محروم ہو گئے ہیں؟
-7 بہاماز میں مسلمان کتنے ہیں اور وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں؟ کفر و عصیان کی غلاظت سے وہ اپنا دامن کس طرح بچاتے ہیں؟
-8 ذاتی و اجتماعی تربیت کے لیے آپ کیا ذرائع استعمال کرتے ہیں اور کون سی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں؟
-9 پاکستان آکر آپ نے کیسا محسوس کیا؟ یہاں کی عام معاشرتی صورت حال کے بارے میں آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
جوابات:
-1 میرا نام ڈاکٹر منیر احمد راشد ہے‘ میں 28 ستمبر 1943 کو بہاماز کے صدر مقام نسائو (Nassau) میں پیدا ہوا۔ میرا پیدائشی نام ویوان فرانسس رسل تھا۔ والد کا ایرک رسل ہے جب کہ والدہ رتھ رسل کے نام سے موسوم ہیں۔ دونوں کیتھولک عیسائی ہیں۔ یہ گھرانا پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں پر مشتمل ہے۔ لڑکوں میں میرا تیسرا نمبر ہے۔ اللہ کے فضل سے ہم دو بھائی اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہوگئے ہیں جب کہ باقی سب لوگ بدستور عیسائی ہیں۔
میں نے پرائمری تعلیم سینٹ جوزف کیتھولک اسکول نسائو سے حاصل کی۔ میٹرک سینٹ آگسٹن سیکنڈری اسکول سے پاس کیا جب کہ اپنی سیکنڈری تعلیم (سینئر کیمبرج سر ٹیفکیٹ) دسمبر 1960ء میں کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ سے حاصل کی۔ ستمبر 1961ء میں‘ میں نے لوزیانہ (امریکا کی کیتھولک یونیورسٹی) میں داخلہ لیا اور وہاں چار سال تک تعلیم حاصل کرکے مئی 1965ء میں سائنس کی بیچلر ڈگری حاصل کی۔ بہاماز واپس آکر نسائو کے ایک کیتھولک ہائی اسکول میں بیالوجی‘ کیمسٹری اور ہیلتھ سائنس کی تعلیم دینے لگا۔ 1966ء میں‘ میں نے ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن ڈی سی) میں داخلہ لے لیا۔ طفیلی پودوں اور کیڑوں کے شعبے (Parasitology) میں تحقیق کا کام کرنے لگا۔ 1967ء میں‘ میں اسی یونیورسٹی کے شعبہ دندان سازی میں تعلیم حاصل کرنے لگا اور جون 1971ء میں مجھے ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری کی ڈگری مل گئی۔ 1974ء تک میں نے منہ‘ جبڑے اور چہرے کی سرجری میں بھی اسپیشلائزیشن حاصل کیا۔
-2 میں 1968ء میں سب سے پہلے اسلام سے متعارف ہوا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں مشہور باکسر محمد علی آئے اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسلام کی بنیادی خصوصیات بیان کیں جن سے میں بہت متاثر ہوا۔ ان دنوں محمد علی علی جاہ محمد کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے وابستہ تھے۔ چنانچہ میں نے اس تحریک کے جرائد اور کتب کا مطالعہ شروع کر دیا اور یہ دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس تحریک کے نتیجے میں بے شمار سیاہ فام لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آگیا ہے۔ انہوں نے جرائم اور شراب نوشی کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی اپنا لی ہے اور محنت اور دیانت کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ امریکا میں سیاہ فام مردوں اور عورتوں کی حالتِ زار پر میں یوں بھی کڑھتا رہتا تھا۔ چنانچہ اس تحریک کی صورت میں مجھے اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دی اور میں نے جولائی 1971ء میں اسلام کو اسی صورت میں قبول کر لیا جس صورت میں علیجاہ محمد اس کی تعبیر اور تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے ایک ماہ پہلے مجھے ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری کی ڈگری ملی تھی۔ 1972ء میں میری اہلیہ بھی حلقہ گوشِ اسلام ہو گئی۔
یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مطالعے کے دوران مجھے مولانا مودودی کی کتاب To Words Understanding Islam (دینیات کا انگریزی ترجمہ) مل گئی جس سے اندازہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں علی جاہ محمد کے خیالات قرآن و سنت سے خاصے مختلف ہیں۔ اس کے بعد میں نے مولانا مودودیؒ ہی کی ’’فنڈا منٹلزم آف اسلام‘‘ اور ’’اسلامک وے آف لائف‘‘ کا مطالعہ کیا اور اسلام کی تعلیمات روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آگئیں۔ اس ضمن میں بہاماز ہی کے ایک راست فکر نو مسلم خلیل خلفقانی سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ میں نے علی جاہ محمد کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے اپنا تعلق ختم کر لیا اور 1974ء میں جب تعلیم سے مکمل فراغت حاصل کرکے واپس بہاماز آگیا تو ہم نے ’’جماعت الاسلام‘‘ کی تشکیل کی جس میں وہ مسلمان شامل تھے جو قرآن و سنت کے مطابق صحیح اور بے میل عقائد کے مالک تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت تک میرا سب سے چھوٹا بھائی حنیف عبداللہ شاہد بھی مسلمان ہو گیا اور اس کا ایک گہرا دوست اور کلاس فیلو فرید یوسف عبداللہ بھی اسلام کی مقدس و مبارک چھتری تلے آگیا۔ اس تنظیم کو قائم کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ راست فکر مسلمان باہم متحد ہوکر خو د بھی قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور غیر مسلموں تک بھی دینِ حنیف کی صحیح تعلیمات پہنچانے کی تگ و دو کریں۔
-3 اسلام قبول کرنے سے پہلے میں شراب پیتا تھا‘ رقص کی مخلوط پارٹیوں میں شریک ہوتا تھا اور جیسا کہ یورپین معاشرت کا مزاج ہے‘ اپنا فارغ وقت عورت کی قربت میں گزارتا اور عیش کرتا تھا۔ معاشرت کے اعتبار سے بہاماز کا ماحول بھی یورپ کا ہو بہو چربہ ہے اور یہاں کا ہر فرد شراب‘ عورت اور لحمِ خنزیر کا دلدادہ وشیدا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی میں ان ساری خرافات سے دور ہو گیا اور اپنی روز مرہ زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے میں لگ گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عقائد کی کمزوریوں اور خامیوں سے قطع نظر علی جاہ محمد کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ نے بھی ان گنت لوگوں کو اخلاقی قباحتوں سے بچا لیا تھا جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ اسلام کی صحیح تعلیمات کے ادراک نے ان برائیوں سے نفرت میں مزید اضافہ کر دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ دورِ جاہلیت کی زندگی کو میں نے کبھی یاد نہیں کیا اس پر ندامت ضرور ہوتی ہے مگر یہ میرے لیے حسرت نہیں بنی۔
-4 عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کرنے پر میرے والدین خوش نہ تھے تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ میری زندگی نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور معمولات میں نیکی‘ پاکیزگی اور سلجھائو پیدا ہوا ہے تو ان کا رویہ خوش گوار ہو گیا۔ اب وہ اچھی طرح جان گئے ہیں کہ اسلام ایک سچا اور اچھا مذہب ہے مگر وہ عیسائیت کو چھوڑتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ایک دن آئے گا کہ وہ بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائیں گے۔
-5 جہاں تک بہاماز کی معاشرت کا تعلق ہے وہ اخلاقی اعتبار سے مکمل زوال کی زد میں ہے۔ یقین کیجیے کہ وہاں قانون کا ذرا بھی احترام نہیں۔ جرائم کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال عام ہے۔ اخلاقی قدریں معدوم ہیں اور خاندانی زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ حکومت اس صورتِ حال پر قابو پانے میں اس لیے ناکام ہے کہ اعلیٰ افسران کی اکثریت خود ان قباحتوں میں ملوث ہے اور عوام کے اندر ان کا کوئی اخلاقی وقار برقرار نہیں رہا۔ چرچ بھی ان خرابیوں کے سامنے بے بس ہے کہ پادریوں کی اس نوعیت کی تبلیغ کے نتیجے ہی میں آخر کار یہ صورت سامنے آئی ہے کہ حضرت مسیح ان کے گناہوں کے بدلے سولی پر چڑھائے گئے تھے اور اگر لوگ ان کے عقیدت مند بن جائیں‘ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے رہیں تو ان کی نجات ہی نجات ہے خواہ اعمال کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔اس طرح عامۃ الناس کا عقیدہ بن گیا ہے کہ چونکہ وہ مذہبِ عیسوی کے پیروکار ہیں اس لیے ان کی نجات یقینی ہے اور انہیں اپنے دنیوی اعمال کو درست کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ہر قسم کی اخلاقی قیود سے آزادی کا نتیجہ ہے کہ بہاماز امریکا اور یورپ کی طرح خطرناک قسم کی جنسی بے راہ روی کے طوفان میں غرق ہو گیا ہے۔ بارہ باہ‘ تیرہ تیرہ سال کی لڑکیاں جنسی تجربہ حاصل کر لیتی ہیں بلکہ ان میں سے بہت سی حاملہ ہو جاتی ہیں اور ایک اور مصیبت میں پھنس جاتی ہیں۔ یعنی ملکی قانون کے مطابق جب تک ان کی عمر اٹھارہ سال نہ ہو جائے ان کی شادی نہیں ہوسکتی چنانچہ انہیں لامحالہ اسکول کی تعلیم ترک کرنی پڑتی ہے اور اگر لڑکی کے والدین اس کے بچے کی پرورش کا ذمہ لیں تو اس کی تعلیم جاری رہتی ہے ورنہ وہ کوئی ملازمت تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں جو تعلیم کی تکمیل کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ نتیجتاً یہ لڑکیاں نہ صرف اپنی ذاتی میں مایوسی اور خوف کی علامت بن جاتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ناسور کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں اور ان کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حرامی بچے پورے ملک کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں اور کسی نوعیت کا اخلاقی نظام نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً یہ بچے جوں جوں بڑے ہو رہے ہیں‘ سب کے لیے مصیبت بنتے جا رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکا میں چلنے والی آزادیٔ نسواں کی تحریک اور ہمہ نوع اباحیت نے بہاماز کی پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور خدا ہی جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
بہاماز چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ایک ننھی سی ریاست ہے‘ جس کی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں مسلمانوںکی تعداد ایک سو سے کچھ ہی زیادہ ہوگی۔ ان میں اکثریت نو مسلموں کی ہے باقی کا تعلق پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ مراکش‘ مصر‘ سری لنکا اور یورپ سے ہے جو تربیت یافتہ ٹیکنیشن اور مختلف محکموں میں ملازمت کرتے ہیں۔
’’جماعت الاسلام‘‘ کے ارکان کی کل تعداد 35 ہے جن میں 15 مرد‘ 7 خواتین (جو مختلف ارکان کی بیگمات ہیں) اور 13 بچے شامل ہیں۔ ہم نے اجتماعی دینی مطالعے کے لیے اسٹیڈی سرکل بنا رکھے ہیں مثال کے طور پر ہر روز نمازِ فجر کے بعد قرآن کی اجتماعی تلاوت ہوتی ہے‘ ہر منگل کو نمازِ مغرب کے بعد اسلامی لٹریچر کے حوالے سے گروپ کی صورت میں گفتگو اور مذاکرے (گروپ ڈسکشن) ہوتے ہیں۔ اسلامی لٹریچر میں یہ کتابیں شامل ہیں سید مودودی کی ’’ٹو ورڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام‘‘ سید قطب کی ’’مائیل اسٹون‘‘ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی ’’اسلام اِن فوکس‘‘ اور مولانا مودودی ہی کی ’’اسلامک وے آف لائف‘‘ ان پروگراموں میں بعض حضرات اپنی بیگمات کو بھی لے آتے ہیں۔ وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر گفتگو میں حصہ لیتی ہیں اور اس معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
ہفتے کو صبح دس بجے سے دوپہر تک کا وقت بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کے لیے مخصوص ہے۔ اتوار کی صبح کو نمازِ فجر کے بعد سارے بھائی پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی مختلف پہلوئوں پر باری باری اظہار خیال کرتے ہیں نیز ان مسائل پر بھی گفتگو ہوتی ہے جو ایک غیر مسلم سوسائٹی میں مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ اتوار ہی کو نمازِ ظہر کے بعد خواتین کا اجتماع ہوتا ہے۔ ہر مہینے میں ایک مرتبہ بہاماز بھر کے تمام مسلمانوں کی ایک جنرل میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں سب لوگوں کو جماعت کی رفتارِ کار اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اجتماعی کھانا اس میٹنگ کا ضروری حصہ ہے۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے رات بھر کا پروگرام بھی رکھا جاتا ہے جو ’’جماعت الاسلام‘‘ کے مرکز میں منعقد ہوتا ہے اور جہاں لوگ اکٹھے کھاتے اور دعوت و تربیت کے مختلف طریقوں پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ سال میں دو مرتبہ یعنی دسمبر اور جون میں ایک‘ ایک ہفتے تربیتی کیمپ بھی منعقد کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم مقامی اخبارات میں اسلام کے بارے میں معلوماتی مضامین بھی چھپواتے رہتے ہیں۔
جہاں تک لٹریچر کا تعلق ہے ‘ہمارے پاس مولانا مودودیؒ کی بہت سی انگریزی کتب موجو ہیں۔ مختلف دینی اداروں مثلاً رابطۂ عالمِ اسلامی‘ افسو‘ وامی نے بھی ہمیں مطلوبہ کتابوں کے تحائف بھیجے ہیں اور انفرادی طور پر بھی اہلِ خیر ہماری مدد کرتے رہتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی ضرورت ایسے تربیت یافتہ باعمل کارکنان کی ہے جو ہماری تربیت بھی کریں اور اپنے عمل و کردار سے اس غیر اسلامی معاشرے میں اسلام کی جیتی جاگتی مثال بھی قائم کریں۔ اس سلسلے میں اگر پاکستان سے کوئی صاحب ہماری مدد فرمائیں تو ہم بے حد شکر گزار ہوں گے۔
-9 پاکستان کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والا عظیم اسلامی ملک ہے جہاں ہر طرف اسلام کے عملی نمونے دیکھنے کو ملیں گے مگر افسوس کہ جب میں کراچی پہنچا اور اس شہر کی معاشرت کو ایک نظر دیکھا تو میری تو میری خوش فہمی کی عمارت دھڑام سے گر گئی۰ مجھے کراچی کے ماحول میں اسلامی کردار کا کوئی رُخ نظر نہیں آیا۔ وہی مغربیت کا چلن‘ وہی مادہ پرستی کی روش اور اخلاقی قدروں سے پہلو تہی۔ ائرپورٹ پر ٹیکسی ڈرائیوروں اور قلیوں کا طرز عمل بڑا منفی تھا اور اگر میں مسلمان نہ ہوتا تو یہ منظر مجھے اسلام سے بدظن کرنے کے لیے کافی تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ لاہور کی اس بستی منصورہ میں پہنچ کر میرا وہ منفی تاثر جو کراچی میں بنا تھا‘ زائل ہو گیا اور میں نے یہاں اسلامی اخوت‘ بھائی چارے اور اخلاص کا وہ مشاہدہ اور تجربہ حاصل کیا جو کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔ خدا کرے یہ جذبہ اس بستی میں ہمیشہ جاری و ساری رہے‘ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ منصورہ کی طرف سے مجھے جو محبت ملی ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔

حصہ