شعرو شاعری

228

مرزا غالب
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

فيض احمد فيضؔ
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غمگسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

شکیل بدایونی
غم سے کہاں اے عشق مفر ہے
رات کٹی تو صبح کا ڈر ہے
ترکِ وفا کو مدت گزری
آج بھی لیکن دل پہ اثر ہے
آئنے میں جو دیکھ رہے ہیں
یہ بھی ہمارا حسنِ نظر ہے
غم کو خوشی کی صورت بخشی
اس کا بھی سہرا آپ کے سر ہے
لاکھ ہیں ان کے جلوے جلوے
میری نظر پھر میری نظر ہے
تم ہی سمجھ لو تم ہو مسیحا
میں کیا جانوں درد کدھر ہے
پھر بھی شکیلؔ اس دور میں پیارے
صاحب فنِ ہے اہلِ ہنر ہے

افتخارعارف
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینہٴ احباب دیکھ
موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ
بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب وتاب دیکھ
کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسمِ عشق سیکھ
کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ
شب کو خطِ نُور میں لکھّی ہوئی تعبیر پڑھ
صبح تک دیوارِ آئندہ میں کُھلتے باب دیکھ

حفیظ ہوشیارپوری
پھر سے آرائش ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اوّل پہ ٹھہرنے والو
اس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارت گر ہستی بن کر
ہم بھی اب ساتھ ترے گردش دوراں ہوں گے
کس قدر سخت ہے یہ ترک و طلب کی منزل
اب کبھی ان سے ملے بھی تو پشیماں ہوں گے
تیرے جلووں سے جو محروم رہے ہیں اب تک
وہی آخر ترے جلوئوں کے نگہباں ہوں گے
اب تو مجبور ہیں پر حشر کا دن آنے دے
تجھ سے انصاف طلب روئے گریزاں ہوں گے
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
کوئی بھی غم ہو غمِ دل کہ غمِ دہر حفیظؔ
ہم بہ ہر حال بہ ہر رنگ غزل خواں ہوں گے

محمد دین تاثیر
حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملاتِ من و تُو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں
حنائے ناخنِ پا ہو کہ حلقۂ سرِ زلف
چھپاؤ بھی تو یہ جادو نکل ہی آتے ہیں
جنابِ شیخ وضو کے لیے سہی لیکن
کسی بہانے لبِ جوُ نکل ہی آتے ہیں
متاعِ عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے
زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں

سیف الدین سیف
چین اب مجھ کو تہ دام تو لینے دیتے
تیرے فِتنے کہیں آرام تو لینے دیتے
آپ نے اُس کا تڑپنا بھی گوارہ نہ کیا
دلِ مضطر سے کوئی کام تو لینے دیتے
موت بھی بس میں نہیں ہے ترے مجبوروں کی
زندگی میں کوئی الزام تو لینے دیتے
پل میں منزل پہ اڑا لائے فنا کے جھونکے
لطف رک رک کے بہرگام تو لینے دیتے
ہاتھ بھی اُن کی نگاہوں نے اٹھانے نہ دیا
دلِ بے تاب ذرا تھام تو لینے دیتے
سیف ہر بار اشاروں میں کیا اُس کو خطاب
لوگ اُس بت کا کبھی نام تو لینے دیتے
عرش ملسیانی
یہ دور خرد ہے دور جنوں اس دور میں جینا مشکل ہے
انگور کی مے کے دھوکے میں زہراب کا پینا مشکل ہے
اک صبر کے گھونٹ سے مٹ جاتی تب تشنہ لبوں کی تشنہ لبی
کم ظرفیٔ دنیا کے صدقے یہ گھونٹ بھی پینا مشکل ہے
وہ شعلہ نہیں جو بجھ جائے آندھی کے ایک ہی جھونکے سے
بجھنے کا سلیقہ آساں ہے جلنے کا قرینہ مشکل ہے
کرنے کو رفو کر ہی لیں گے دنیا والے سب زخم اپنے
جو زخم دلِ انساں پہ لگا اس زخم کا سینا مشکل ہے
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے
اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے
ملنے کو ملے گا بالآخر اے عرشؔ سکونِ ساحل بھی
طوفان حوادث سے لیکن بچ جائے سفینہ مشکل ہے

کدام حُسن و جمالے کہ آں نہ عکسِ تو است
کدام شاہ و امیرے کہ اُو گدائے تو نیست

مولانا رومیؒ
شعر کاترجمہ
وہ کونسا حُسن و جمال ہے کہ جو تیرا (تیرے حُسن و جمال کا) عکس نہیں ہے؟ وہ کونسا بادشاہ اور امیر ہے کہ جو تیرا گدا نہیں ہے؟

حصہ