ٹانسلز کی بیماری

327

آپ نے خواتین کو پریشان لہجے میں یہ کہتے ضرور سنا ہوگا کہ ’’منے کو ٹانسلز ہو گئے ہیں۔‘‘دل چسپ بات یہ ہے کہ ’’ٹانسلز‘‘ کسی بیماری کا نام نہیں ہے بلکہ ٹانسلز تو انسان کو تندرست رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں‘ البتہ جب یہ ’’ٹانسلز‘‘ خود بیمار پڑ جائیں تو انسان بھی بیمار پڑ جاتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے بہترہے کہ ’’ٹانسلز‘‘ کا آپ سے تعارف کروا دیا جائے۔
انسانی جسم میں حلق کے اندر لوز یا بادام کی شکل کی چھوٹی چھوٹی سی گلٹیاں یا غدود ہوتے ہیں انہیں’’لوزتین‘‘ کہا جاتا ہے‘اگر منہ کو پوری طرح کھول کر حلق کا معائنہ کیا جائے تو انہیں بہ خوبی دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ انہی گلٹیوں کے ورم کو ’’ورم لوزتین‘‘ یا ’’ٹان سیلائٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ چند بار لوزتی میںورم ہوا اور گلا دکھنے آیا تو ان گلٹیوں کو آپریشن کرکے نکال دیاجاتا ہے۔ کیا واقعی لوزتین اتنے ہی غیر ضروری ہیں کہ جب چاہیں انہیں جسم سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے اور کیا ان کو نکال دینے سے بدنِ انسانی اور صحتِ جسمانی پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا؟ ان باتوں کا ہمیں بغور جائزہ لینا چاہیے۔
ٹانسلز کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ قدرت نے کیا کام ان کے سپرد کیا ہے؟ ہمارے جسم کو امراض سے محفوظ رکھنے کے لیے قدرت نے ایک نظام بنایا ہے جسے ’’نظام لفادی‘‘ یا ’’لفیٹک سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت چند چھوٹی چھوٹی گلٹیاں جسم کے اندر ان اہم حصوں یا راستوں پر پیدا کی گئی ہیں جہاں سے بیماری کا مادہ یا جراثیم جسم میں داخل ہو کر مرض پیدا کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ گلٹیاں چوکیدار ہیں جو ہمہ وقت چوکس رہتی ہیں اور اگر کسی مرض کے جراثیم جسم کے اندر داخل ہونے لگتے ہیںتو یہ انہیں اپنے اندر جذب کرکے ختم کر دیتی ہیں لیکن جب بار بار اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے یا جراثیم بہت بھرپور طریقے پر وار کریں تو پھر یہ خود ہی کمزور ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ خود ان میں سوزش اور ورم پیدا ہو جاتا ہے۔
جسم میں حلق ایک ایسا مقام یا جنکشن ہے جہاں سے بہت سے راستے شروع ہوتے ہیں یا ان کا اختتام ہوتا ہے۔ مثلاً جہاں منہ کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے غذا و ہوا کی نالیاں شروع ہوتی ہیں۔ دونوں کانوں اور دنوں آنکھوں سے بھی ایک ایک باریک ٹیوب حلق میں جا کر کھلتی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی دوا کان یا آنکھ میں ڈالی جائے تو کچھ ہی دیر بعد اس کا ذائقہ منہ میں محسوس ہونے لگتاہے۔ اسی طرح روتے وقت آنسو ناک وحلق میں پہنچ جاتے ہیں۔ ناک کے سوراخوں کا اختتام بھی حلق میں ہوتا ہے انہی وجوہات کی بنا پر حلق کو جنکشن کہا گیا ہے جہاںجراثیم ایک راستے سے آکر دوسرے میں داخل ہوسکتے ہیں اور جسم کے اندر دور دور تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے یہاں سے بیماری کے پھیلنے کے امکانات ہر وقت رہتے ہیں۔ حلق کی اسی ’’فوجی اہمیت‘‘ کے پیش نظر قدرت نے یہاں مضبوط ’’چیک پوسٹ‘‘ قائم کر دی ہے اور اس حفاظتی چوکی پر پہرے دار بٹھا دیے ہیں۔ غالباً یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ پہرے دار ہی ’’لوزتین‘‘ یا ’’ٹانسلز‘‘ ہیں۔ ان کی 24 گھنٹے کی ڈیوٹی یہ ہے کہ حلق پر حملہ آور ہونے والے جراثیم کو یہیں روک کر انہیں ہلاک کر دیں یا ان جراثیم کو آگے زیادہ اہم مقامات تک جا کر نقصان پہنچانے کی مہلت نہ مل سکے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب بار بار یہ غدود جراثیم سے آلودہ ہوتے ہیں تو یہ خود بھی کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں اور ایک مرحلے پر جا کر بیمار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سوزش اور ورم رہنے لگتا ہے۔
اب ذرا اس بات پر بھی غور کر لیا جائے کہ ان لوزتین کو جسم سے نکال دیا جائے تو اتنے بہت سے راستوں سے جراثیم کی یلغار کو حلق میں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا نتیجتاً انہیں آگے بڑھنے اور اہم ٹھکانوں پر حملہ آور ہونے کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔ جس طرح کسی ملک کی سرحدوں کی نگرانی کرنے والی فوجوں کو ہٹا دیا جائے اور دشمن بلا کھٹکے ملک کے اندر دور تک گھستا چلا آئے۔
یہ ضرور ہے کہ بعض صورتوں میں لوزتین کو نکالے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ان کی ساخت اتنی خراب ہو جائے کہ جراثیم کا قلع قمع کرنے کے بجائے وہ خود جراثیم کی آماج گاہ بن جائیں یا ان میں پیپ پڑ جائے اور وہ پیپ غذا و پانی کے ذریعے جسم کے اندرونی حصوں تک پہنچ جائے اور جسم کو خطرات سے دوچار کردے تاہم بہتر یہی ہے کہ خراب لوزتین کو نکلوانے سے پہلے انہیں ٹھیک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ لوزتین کو نکلوا دینے کے بعد دوسری بیماریاں مثلاً حلق و پھیپھڑوں کے امراض‘ پیٹ کی خرابی اور ناک کے امراض گھیر لیتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر کسی شخص کے لوزتین بار بار متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں تکلیف بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مریض میں بعض جراثیم مستقل مرض پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیںلیکن لوزتین کے آڑے آجانے کی وجہ سے وہ مرض اپنے قدم نہیں جما پا رہے۔
ورم لوزتین عام طور پر بچوں یا جوانوں کو لاحق ہوتا ہے۔ یہ ایک سے دوسرے کو لگ جانے والی بیماری ہے۔ زیادہ تر یہ موسم کی تبدیلی کے زمانے میں یا سردی کے موسم میں ہوا کرتا ہے‘ وہ لوگ بھی اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں جو ایسے تنگ و تاریک مکانات میںرہتے ہیں جن میں صاف ہوا کی آمدورفت کا معقول انتظام نہیں ہوتا یا دھوپ ان مکانات کے اندر نہیں جاتی۔ واضح رہے کہ دھوپ خود بھی بہت تیز جراثیم کش اثرات اپنے اندر رکھتی ہے۔ پانی میں بھیگنا‘ سردی لگ جانا‘ کھٹی چیزوں یا بہت تیز مرچ مسالے کاکثرت سے استعمال‘ چکنائی والی اشیاء کھانے کے بعد پانی پی لینا بھی ورم لوزتین پید کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی جو بہت چیخ چیخ کر باتیں کرتے ہیں یا اونچی آواز میں گانے کا شوق رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں اعتدال سے کام نہیں لیتے‘ اپنا گلا خراب کر لیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں میں چیونگم‘ ٹافی اور چاکلیٹ کا زیادہ استعمال اور انہیں کھانے کے بعد من صاف نہ کرنے‘ صبح اٹھ کر اور سوتے وقت دانتوں کی صفائی کی طرف سے غفلت برتنے سے بھی یہ مرض پیدا ہو سکتا ہے۔ بہت چھوٹے بچے جنہیں چسنی چوستے رہنے کی عادت ڈال دی جاتی ہے ان کے لوزتین بھی اکثر خراب رہتے ہیں چونکہ چسنی مستقل طور پر چوستے رہنے سے منہ و حلق پر زور پڑتا ہے۔ دوسرے اگر چسنی زِمین پر گر جائے تو ناسمجھ بچے اسے اٹھا کر دوبارہ منہ میں رکھ لیتے جس کی وجہ سے فرش پر موجود گندگی اور جراثیم ان بچوں کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
بعض امراض کے نتیجے میں بھی ورم لوزتین پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً جوڑں کا درد‘ خواہ وہ بڑے جوڑوںمیں ہو یا چھوٹے جوڑوںمیں۔ اس کے علاوہ اگرورم لوزتین بہت دنوں تک رہے اور اس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو قلب کے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے خصوصاً دل پر استر کرنے والی جھلیوں میں سوزش ہو جاتی ہے یا دل کے صمامات خراب ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ورم لوزتین کا علاج پوری سنجیدگی کے ساتھ کرنا چاہیے۔
کبھی کبھی یہ مرض وبا کے طور پر بھی پھیلتا ہے۔ اس مرض کی شروعات عموماً گلے کی خرابی سے ہوتی ہے جس کے نتیجے میں گلے میں تکلیف ہو جاتی ہے۔ درد بڑھنے کی صورت میں ٹیسیں کانوں تک پہنچتی ہیں۔ا گر مرض کا حملہ شدید ہو تو سرد لگ کر بخار چڑھ آتا ہے‘ منہ کھول کر اگر حلق کا معائنہ کیا جائے تو زبان کی جڑ کے ساتھ ساتھ دونوں جانب بادام کی شکل کی گلٹیاں سرخ اور بڑھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ باہر کی جانب زیریں جبڑے کے نیچے ہاتھ لگانے سے ورم محسوس ہوتا ہے۔ کوئی چیز کھائیں تو نگلنا دشوار ہو جاتا ہے ساتھ ہی درد بھی ہوتا ہے۔ مناسب علاج اور غذا و پرہیز سے عام طور پر چار‘ پانچ دن میں ورم اور تکلیف کم ہونے لگتی ہے اور آٹھ دس دن میں آرام آجاتا ہے۔ اگر یہ مرض بار بار ہوتا رہے اور لوزتین کی ساخت بھی خراب ہو جائے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے تو پھر ان کا معائنہ کرنے وقت سفید یا زردی مائل پیپ کے دھبے بھی نظر آتے ہیں‘ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے اورایسی صورت میں انہیں آپریشن کے ذریعے نکالنا ہی مناسب ہوتا ہے۔
چھوٹے بچوں میں اگر اس مرض کے حملے بار بار ہوں تو ان کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ دن بہ دن کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذرا سی بے احتیاطی یا بد پرہیزی سے ان کا گلا خراب ہو جاتا ہے۔ کبھی مرض کے بار بار حملے لوزتین کو سخت کر دیتے ہیں۔ خصوصاً کمزور نوجوانوں میں‘ کبھی یہ اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے اور آواز تبدیل ہو جاتی ہے۔
جس زمانے میں یہ مرض وبا کی صورت میں پھیل رہا ہو تو غذا میں بہت احتیاط کرنی چاہیے‘ بازاری غذائیں‘ بہت تیز مرچ مسالے اور کھٹی چیزیں ترک کر دینی چاہئیں۔ صاف ماحول میں وقت گزارا جائے اور منہ و دانتوں کی صفائی توجہ کے ساتھ کی جائے۔ بہت تیز ٹھنڈا پانی بھی مضر ہوتا ہے۔ مریض کو چاہیے کہ وہ اپنا گلاس و تولیہ وغیرہ الگ رکھے تاکہ دوسروں تک بیماری نہ پہنچ سکے۔ چھوٹے بچوں کو پیار کرنے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے چونکہ چھوٹے بہت بہت نازک ہوتے ہیں اور بیماری کے جراثیم کو جلد قبول کر لیتے ہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت تولیہ یا رومال منہ پر رکھیں اور اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیں۔ چیخ کر بات نہ کی جائے‘ صبح سو کر اٹھنے اور رات سوتے وقت گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کیے جائیں۔ نمک کی مقدار اس میں اتنی ہو جتنی کھانے میں شامل کی جاتی ہے۔
ورم لوزتین کے علاج کے لیے شہتوت خصوصاً سیاہ رنگ کے شہتوت بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے رس سے شربت تیار کیا جاتا ہے جو کہ ’’شربت توت سیاہ‘‘ کے نام سے بازار میں مل جاتا ہے چائے کا ایک چمچہ شربت دو‘ دو گھنٹے سے آہستہ آہستہ نگلا جائے‘ نگلنے کا انداز چوسنے والا ہو تاکہ حلق میں لگتا ہوا جائے۔ اس شربت کو مزید مؤثر بنانے کے لیے اس میں نصف گرام ’’ڈیکامالی‘‘ (ایک پودے کا گوند) یا ’’نمک چرچٹہ‘‘ (ایک بوٹی کا نمک) باریک پیس کر ملا لیتے ہیں۔ شہتوت کے پتوں سے غرارے کرنا بھی سود مند ہے۔ دس پتوں کو تھوڑے سے نمک کے ساتھ دو پیالی پانی میں اچھی طرح جوش دیا جائے‘ اس کے بعد چھان کر نیم گرم پانی سے صبح اور سوتے وقت غرارے کیے جائیں۔
دوسری مؤثر دوا ’’مغزاملتاس‘‘ ہے۔ یہ املتاس کی پھلی سے نکلنے والا گودا ہوتا ہے اور دوا فروشوں سے مل جاتا ہے۔ ویسے بھی املتاس کے درخت شہروں میں کثرت سے نظر آتے ہیں انہیں سڑکوں کے دونوں جانب یا باغوں میں لگایا جاتا ہے۔ مارچ اور اپریل کے مہینے میں ان درختوں میں زرد رنگ کے پھول لڑیوں کی شکل میں لٹکنے لگتے ہیں۔ پھر تقریباً دو فٹ کلانبی پھلیاں لگتی ہیں جن کی رنگ ابتدا میں سبز ہوتی ہے اور پکنے پر سیاہ ہو جاتی ہے۔ سیاہ پھلیوں کے گودے کو ہی ’’مغز املتاس‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ دوا کو ’’لعوق خیارشنبر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لعوق کو دو بڑے چمچے ایک پیالی گرم پانی میںملا کر سوتے وقت اور صبح پیا جائے۔ یہ کھانسی اور قبض میں بھی مفید ہے۔ مغزل املتاس سے غرارے بھی کرائے جاتے ہیں۔ 25 گرام مغز کو ایک پیالی دودھ اور ایک پیالی پانی میں ملا کر ہلکا جوش دیا جائے‘ اس کے بعد مَل کر چھان لیا جائے اور نیم گرم پانی سے غرارے کیے جائیں۔
اس مرض میں چند دیگر دوائیں بھی استعمال کرائی جاتی ہیں مثلاً لعوقِ سپستاں‘ لعوقِ معتدل‘ خمیرۂ بنفشہ‘ شربتِ بنفشہ اور شربتِ خشخاش وغیرہ۔ اگر مرض پرانا ہونے کی وجہ سے لوزتین سخت ہو جائیں تو کاڈلیورل آئل کیپسول ایک صبح اور ایک رات کھانے کے بعد کھلایا جائے۔ گندم کے آٹے کی بھوسی ایک بڑا چمچہ لی جائے اور اسے ایک پیالی دودھ اور ایک پیالی پانی میں ملا کر جوش دیا جائے جب ایک جوش آجائے تو چھان کر نیم گرم پانی سے غرارے کرائے جائیں۔ اگر مرض شدید یا پیچیدہ ہو جائی تو پھر ضروری ہے کہ کسی اچھے معالج سے مشورہ کر لیا جائے۔

حصہ