شعرو شاعری

272

علامہ اقبال
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصُور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں، تُو انتہائے حُسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرینِ جرمِ محبّت ہے حُسنِ دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھُپتی نہیں ہے یہ نگہ ِ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح اُنھیں دیکھا کرے کوئی
اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طُور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظّارے کو یہ جُنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھُل جائیں، کیا مزے ہیں تمنّائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

فیض احمد فیض
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں‌دیتے
تم اچھے ّ مسیحا ہو شفا کیوں‌نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں‌کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورولاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں‌نغمہ گرو سازِ‌ صدا کیوں نہیں ‌دیتے
مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں‌نہیں‌دیتے
پیمانِ جنوں‌ہاتھوں‌کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں‌کا پتہ کیوں ‌نہیں ‌دیتے
بربادئ دل جبر نہیں ‌فیضؔ ‌کسی کا
وہ دشمنِ جاں‌ہے تو بُھلا کیوں‌نہیں‌دیتے

حفیظ ہوشیار پوری
محبّت کرنے والے کم نہ ہوں گے!
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے​
میں اکثر سوچتا ہوں پُھول کب تک
شریکِ گریۂ شبنم نہ ہوں گے​
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے!
سِتم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے​
دِلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی!
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے​
زمانے بھر کے غم یا اِک تیرا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
ہمارے دل میں سیلِ گریہ ہوگا!
اگر با دیدۂ پُرنم نہ ہوں گے​
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تِری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے​
حفیظ اُن سے میں جتنا بد گُماں ہوں
وہ مجھ سے اِس قدر برہم نہ ہوں گے

شکیل بدایونی
اس درجہ بد گماں ہیں خلوص بشر سے ہم
اپنوں کو دیکھتے ہیں پرائی نظر سے ہم
غنچوں سے پیار کر کے یہ عزت ہمیں ملی
چومے قدم بہار نے گزرے جدھر سے ہم
واللہ تجھ سے ترک تعلق کے بعد بھی
اکثر گزر گئے ہیں تری رہگزر سے ہم
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم
عقبیٰ میں بھی ملے گی یہی زندگی شکیلؔ
مر کر نہ چھوٹ پائیں گے اس دردِ سر سے ہم
احسان دانش
حسن کی طالب نگاہیں، دل تمنا آشنا
زندگی لائی ہے اپنے ساتھ کیا کیا آشنا
دوستوں تک میں خلوصِ دل اثر رکھتا نہیں
دشمنوں میں لوگ کرلیتے ہیں پیدا آشنا
روز بن جاتا ہے اُن کا حسن موضوعِ کلام
اِک قیامت روز کر دیتے ہیں برپا آشنا
جیسی قیمت ویسا پھل، جیسی طلب ویسی مراد
ایک صف میں ہیں وہاں کیا اجنبی کیا آشنا
اُن کے حلقے میں مری بے تابیوں پر تبصرے
اور اُس دہلیز سے میں آج تک ناآشنا
جانے کتنے دوست اس محفل میں ہیں کتنے حریف
ہم مگر ان کی طبیعت سے ہیں تنہا آشنا
کس طرح جائیں، کہاں نکلیں کہ تم رسوا نہ ہو
ہم تو دیوانے ہیں، دیوانوں سے دنیا آشنا
حشر سے ڈرتے ہو دانش بزم دنیا سے ڈرو
نفسی نفسی ہے یہاں بھی کون کس کا آشنا

سیف الدین سیف
راہ آسان ہو گئی ہوگی
جان پہچان ہو گئی ہوگی​
موت سے تیری درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہوگی​
پھر پلٹ کر نگر نہیں ‌آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہوگی​
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پریشان ہو گئی ہوگی​
ان سے بھی چھین لو گے یاد اپنی
جن کا ایمان ہو گئی ہوگی​
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں میری جان ، ہو گئی ہوگی​
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہوگی​
محمد دین تاثیر
لطفِ وفا نہیں کہ وہ بیداد گر نہیں
خاموش ہوں کہ میری فغاں بے اثر نہیں
تیرے بغیر تلخی کام و دہن حرام
درد جگر ہے لذتِ درد جگر نہیں
سجدوں سے نامراد ہے جلووں سے ناامید
وہ رہ گزر کہ اب جو تری رہ گزر نہیں
تم کیا گئے کہ سارا زمانہ چلا گیا
وہ رات دن نہیں ہیں وہ شام و سحر نہیں
ہر ہر روش معاملۂ حسن و عاشقی
ہر ہر قدم فروغِ جمال نظر نہیں
بے باک چال چال سے بیباک تر نظر
اب حسن تو بہت ہے مگر فتنہ گر نہیں
زخموں سے چور قافلے پر خار راستے
اس میں ترا قصور تو اے راہبر نہیں
دنیائے چشم و گوش تو برباد ہو گئی
اب کچھ بغیر معرکۂ خیر و شر نہیں

بیا بیا کہ مرا بے تو زندگانی نیست
ببیں ببیں کہ مرا بے تو چشم جیجوں است

مولانا رومیؒ
شعر کاترجمہ
آجا آجا کہ تیرے بغیر میری کوئی زندگی نہیں ہے، دیکھ دیکھ کہ تیرے بغیر میری آنکھیں ایسے ہیں جیسے جیجوں دریا۔

حصہ