آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

200

25 اپریل 2022 بمطابق23 رمضان اُن کی جدائی کی خبر ملی جومتوقع تو تھی لیکن دل اسے ماننے پر تیار نہ تھا۔
میری بہنوں جیسی ہر دل عزیز ساتھی اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئی۔ غم کا پہاڑ تھا جو سر پر آن گرا… لیکن جب اپنی پیاری سہیلی کا چہرہ دیکھا تو لگا کہ ایک طویل اور صبر آزما بیماری سے گزرنے کے بعد رب کے پاس پہنچ کر پُرسکون ہو گئی۔
میرا تعلق نگہت عرفان سے پانچ سال کے عرصے پر محیط رہا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ خاموشی سے دلوں میں ایسے جگہ بنا لیتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد خلا پیدا ہو جاتا ہے یہ جملہ اب سمجھ میں آیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص فہم و بصیرت سے نوازا تھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے حلقے میں پیغام قرآن و سنت عام کرنے کے لیے افرادی قوت کو اکٹھا کیا اور ان میں اللہ سے تعلق کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں ہمہ تن مصروف رہیں۔ حلقے میں وہ تربیتی امور اور اطلاعات دینے کے فرائض پر مامور تھیں۔ اجتماع وقت پر شروع اور ختم کرنا،ایجنڈے پر گرفت رکھنا ہفتہ وار پلاننگ، صلاحیت کے مطابق کام سونپنا اور ہر کام مشاورت سے کرنا۔ یہ تمام امورانتہائی نظم و ضبط کے ساتھ انجام پاتے۔ گزشتہ پروگرام کا جائزہ بہت فکر کے ساتھ ہوتا کہ کیا کمی رہی اور کیسے دور کی جائے۔ کبھی کوئی بات قرآن و سنت کے اصولوں سے ہٹ کر ہونے لگتی تو وہ فوراً اس معاملے میں موجود قرآن وسنت کے مؤقف کی بھرپور وضاحت کرتیں۔ صاف سیدھی اور سچی بات کرتیں ان کی تنبیہ کا انداز بہت مؤثر ہوتا۔
ان سے تعلق قائم ہوئے سال بھر ہی ہوا تھا کہ ان میں موذی مرض کی علامات ظاہر ہوئیں جب رپورٹوں سے بھی تصدیق ہوگئی تو سب ہی کارکنان نے دل تھام لیے۔ چار سال سے زائد تکلیف دہ علاج میں اتار چڑھاؤ آتے رہے لیکن انہوں نے بیماری کو کبھی رخصت کا بہانہ نہ بنایا۔ کیمو تھراپی کے دوران معالج موبائل کے استعمال پر عارضی پابندی لگا دیتے۔ یہ وقت پورا ہوتے ہی وہ اپنے فرائض کی ادائی کے لیے گروپ پر موجود ہوتیں۔ جب خود کہیں جا نہیں سکتیں تو اپنے گھر پر رکھوا لیتیں۔ جب ساتھ بیٹھا نہ جاتا تو معذرت کرکے اپنے کمرے میں چلی جاتیں اور پروگرام کو متاثر نہ ہونے دیتیں۔ نوجوان بچیوں کے لیے ایک عرصے تک کلاس کا اہتمام کیا۔ ٹیچر سے وقت لینا، انہیں کلاس والے گھر تک پہنچانا، شرکاکے لیے چائے پانی کا انتظام غرض کسی خدمت سے کبھی گریز نہ کیا۔ اپنے گھرکو کبھی فیملی پروگرام کے لیے کبھی پڑوسیوں اور بچیوں کے درس کے لیے حاضر کر دیتی تھیں۔ کسی بھی بڑے پروگرام کے بعد ہم خوش ہوتے کہ صحیح طرح انجام پا گیا لیکن ان کی بصیرت افروز نگاہ ایسا نکتہ نکال کر لاتی کہ ہم اپنی کوتاہی کو جان جاتے۔ حلقے کے ہر کارکن کے گھریلو معاملات کی بھی فکر رکھتی، کتاب نیل کا مسافر پڑھاتے ہوئے اخوانی کارکنان کے آپس کے تعلقات کا بیان ایسے دل نشین انداز سے پڑھایا کہ آج بھی ہم کارکنان ساتھ خوشی مناتے ہیں اور تکلیف میں بھی ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
انفاق کا معاملہ بھی بہترین تھا۔ کسی کی کوئی مشکل ہو اُن کے پاس مسئلے کا حل موجود ہوتا۔ اپنا مال خاموشی کے ساتھ دوسروں کی آسانی کے لیے خرچ کرتیں۔ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی وہ سب کی بچیوں کو اپنی بیٹی سمجھتیں اور بیٹوں کے لیے بھی اپنی کارکن ساتھیوں کی بچیو ں کو ہی ترجیح دی۔ بیماری کے دوران خاندانی امور میں ان پر سخت آزمائش آئی لیکن وہ صبر کا پیکر بنی قرآن وسنت سے ہی رہنمائی لیتی نظر آئیں۔ ہر ایک کے لیے کلمہ خیر ہی کہا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیاگویا:
مجھ کو میرے شعور نے یہ شرف بخشا ہے
میں زخم زخم ہوں پھر بھی خلوص دیتا ہوں
ان سے ملاقات کیے کچھ دن ہو جاتے تو ایک فکر والا میسج آجاتااور میں سب مصروفیات چھوڑ کران سے ملاقات کے لیے چلی جاتی‘ ان کی ایمان افروز گفتگو مجھے مقصد زندگی کے لیے تازہ دم کر دیتی اور میں ان سے مل کرایک نئی توانائی لے کر واپس آتی۔ دوران مرض کوئی شکوہ یا مایوسی کا اظہار نہیں کیا جب طبیعت پوچھی ہمیشہ کہا’’الحمدللہ کچھ تکلیف ہے بہتر ہو جائے گی ان شاء اللہ۔‘‘ گمان ہے کہ اس صبر کے بدلے اللہ نے ان کے درجات بلند کیے ہوں گے۔
آخری دنوں میں اسپتال کا وہ منظر آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوئے تو احساس ہوتے ہی قسم قسم کے کینولا لگا کمزور ہاتھ پلک جھپکتے میں دوپٹے سے چہرہ کور کرنے لگا۔ آج کمزوری کی حالت میں بھی اپنے پردے کی حفاظت کر رہی تھیں۔ دوپٹہ بہت اچھی طرح لپیٹ کر مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمارا استقبال کرنے والی نگہت آج ہمارے سامنے اس حال میں تھیں۔ ایسی تکلیف میں انسان کو کچھ یاد نہیں رہتا لیکن اس وقت بھی جب غنودگی سے باہر آتیں تلاوت قرآن اور ذکر زبان پر جاری رہتا تھا۔
اور پھر مہربان رب کی بارگاہ میں حاضری کا وقت بھی آن پہنچا۔ چوبیسویں تراویح اختتام پر تھی جب انہیں نماز جنازہ کے لیے مسجد پہنچا دیا گیا اور ہم نے کبھی لوٹ کر نہ آنے والے کو اشک بار آنکھوں سے رخصت کر دیا۔
اپنی پیاری بہن کے انتقال کے بعد ان کی رہائش گاہ پر تعزیتی پروگرام رکھاگیا۔ اس میں لوگوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کے معاملات کیسے تھے۔ پڑوسی خاتون کہہ رہی تھیں کہ ہم پڑوسیوں کا آپس میں تعلق نگہت باجی کے سبب قائم ہوا، بھابھیاں گواہی دے رہی تھیں کہ خاندانی معاملات میں ان کا مشورہ اور رائے سب کے لیے قابلِ قبول ہوتی، رشتے دار بچیاں تھیں جنہیں وہ قرآنی سرکل سے جوڑنے کی فکر کرتی رہتی تھیں۔ ساتھی کارکن بہنیں تھیں جو کہہ رہی تھیں کہ ان کے کتاب پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ آسان اور عام فہم ہو یا بھاری موضوع پر مشتمل لٹریچر‘ نہ صرف باآسانی پڑھا جاتا بلکہ عملی نکات بھی خوب ذہن نشین ہو جاتے۔
میں اپنی کتابوں کی الماری کھولتی ہوں۔ اپنی اصلاح آپ ،نیل کا مسافر، قرآن پر عمل، اخوان المسلمون کا تربیتی نظام، بشیر جمعہ کی کتاب وقت کی تنظیم شیلف میں ترتیب سے رکھی ہیں جن میں سے نگہت عرفان کا روشن چہرہ جھلک رہا ہے۔ کس محنت اور عرق ریزی سے ان کتابوں کے نوٹس بنا کر ہمیں پڑھائے۔ ان کتابوں میں خطِ کشیدہ اہم پیراگراف اور سطور جگ مگ کرتے ان کے حق میں گواہی دیتے رہیں گے۔ اللہ اپنی بندی سے راضی ہو۔ اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔

حصہ