فیصلہ

276

’’ارے باجی! کہاں جارہی ہیں اتنے گیلن اٹھاکر؟‘‘ فہمیدہ نے اپنی پڑوسن شگفتہ کو روکتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے بہن! کیا بتاؤں تین دن بعد پانی آیا اور وہ بھی ایک گھنٹے کا… اور جو آیا اس میں گٹر کا پانی شامل ہے۔ ابھی چند دن پہلے میری بیٹی ہیضے کا شکار ہوگئی تھی‘ تین دن اسپتال میں رہ کر‘ آئی ڈرپ لگی تب جاکر الٹیاں موشن بند ہوئیں۔ اس لیے پینے کے لیے پانی خریدنے جا رہی ہوں۔‘‘
’’بہن! ہر جگہ پانی۔ بجلی۔ گیس کا مسئلہ ہے۔ کیا کریں تمہارا تو پانی تین دن بعد بھی آرہا ہے میری بہن اسلام آباد میں رہتی ہے وہ تو دو دفعہ بورنگ کروا چکی ہے اور دونوں دفعہ لاکھوں کے خرچ کے باوجود پانی نہیں آرہا‘ وہ ٹینکر ڈلوا کر گزارا کر رہی ہے‘ خود میری امی کے گھرچالیس فٹ گہرائی کے باوجود پانی نہیں آرہا۔‘‘
’’ہاں بہن! بڑی تشویش ناک معاملہ ہے۔ پانی کے بغیر کیسے رہیں گے‘ اب تو زیر زمین پانی بھی خشک ہو رہا ہے۔ کراچی میں گزشتہ سال کتنی بارشیں ہوئی تھیں‘ اگر اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیم بنالیے ہوتے تو آج اتنی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘ فہمیدہ نے آہ بھرکر کہا۔
’’بہن! میں تمھاری مدد کرتی‘ لیکن میرے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں‘ کہیں پانی کم نہ پڑ جائے۔‘‘ فہمیدہ نے شرمندگی سے کہا۔
’’ارے نہیں بہن! مجھے پتا ہے پانی کی تو سب کو ضرورت ہوتی ہے اب گٹر کے ذائقے والا پانی ہی واش روم کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘ بار بار ٹینک بھی نہیں بھروا سکتے‘ ایک ٹینکر ہزاروں میں ہے اتنی مہنگائی اوپر سے ذریعۂ آمدنی بھی کم ہے۔ بس اللہ ہی ہم پر رحم کرے۔‘‘ شگفتہ نے کہا۔
’’ہاں اللہ بھی تب رحم کرے گا جب ہم خود اپنے اوپر رحم کریں گے۔‘‘ فہمیدہ نے کہا۔
’’کیا مطلب…؟ ہم تو ہر معاملے میں اچھی سے اچھی چیز خریدتے ہیں‘ اپنا خیال رکھتے ہیں ہم اپنے اوپر کیسے رحم نہیں کرتے؟‘‘ شگفتہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بہن! جب ہر چیز خریدنے میں معیار کو اہمیت دیتے ہو تو ووٹ ڈالنے میں دیانت۔ امانت اور تقویٰ کا معیار کہاں چلا جاتا ہے؟ تب ہی تو ہم اب تک بے ایمان حکمرانوں کے ہاتھوں خوار ہورہے ہیں‘ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔‘‘فہمیدہ نے کہا۔
’’ہاں بہن صیحیح کہہ رہی ہو‘ جس طرف پہلے توجہ دینی چاہیے تھی اُس طرف ہم دیتے نہیں‘ پھر مسائل کا رونا روتے ہیں لیکن بس اس دفعہ فیصلہ امانت دار لوگوں کے حق میں ہوگا… یعنی ترازو۔‘‘ شگفتہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

حصہ