سند باد جہازی کے حیرت انگیز سفر

197

میں رات بھر اسی طرح بندھا پڑا رہا۔ صبح ہوئی تو سیمرغ اڑا اور میں بھی اس کے ساتھ بندھا آسمان کی سیر کرنے لگا۔ حیرت یہ ہے کہ اس سیمرغ کو معلوم نہ تھا کہ میں اس کے پنجوں سے بندھا ہوں۔ سیمرغ میدانوں، وادیوں، پہاڑوں، دریاؤں اور جزیروں پر سے اڑا جا رہا تھا۔ میں دم بخود یہ سب دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ ایک ایسی وادی میں اترا جس کے دونوں اطراف دیوار کی طرح دو پہاڑیاں تھیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہ تھا کہ سیمرغ اس جگہ کیوں اترا، دیکھا کہ ماجرا یہ تھا کہ نیچے ایک بڑا سانپ رینگ رہا تھا۔ سیمرغ اسے جھپٹ کر اوپر لے جانے کو اڑا۔ میں اندازے سے یہ سب کچھ بھانپ گیا۔ میں نے پگڑی کی گرہ کھولی اور جونہی وہ سانپوں پر جھپٹا میں ایک طرف کودا اور یہ جا وہ جا۔ میں ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں دبک کر بیٹھا رہا۔ سیمرغ سانپ کو تنکے کی طرح آسمان میں لے گیا۔
ہیروں کی وادی
اس بھاگ دوڑ میں میں نے سو دو سو گز کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کشتی کی جسامت کے کئی سانپ رینگتے نظر آئے۔ میرے اللہ! مجھے بچانا! میں نے گڑگڑا کر دعا مانگی۔ صبح کا وقت، سورج چمک رہا تھا اور سانپ رینگ رینگ کر اپنے بلوں میں گھس رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ یہ مخلوق سیمرغ کے ڈر سے دن کو اپنے بلوں میں چھپ جاتی ہے اور رات کو باہر نکلتی ہے۔
اس خیال سے کچھ ڈھارس بندھی۔ اب میں وادی کا سرا تلاش کرنے نکلا۔ زمین کچھ پتھریلی تھی۔ ٹھوکر کھائی تو چند ہیرے میرے پاؤں سے ادھر جا پڑے۔ غور سے دیکھا تو پوری زمین ہیروں سے بھری تھی۔ یہ ہیرے خاصے بڑے اور خوبصورت تھے، لیکن میرے کس کام کے۔ میں تو اپنی زندگی بچانا چاہتا تھا۔
چلتے چلتے شام ہو گئی۔ زندگی میں پہلا اور عجیب و غریب موقع تھا کہ میں ہیروں سے اٹی ہوئی زمین کو پامال کرتا چلا جا رہا تھا۔ شام ہوئی۔ سانپوں کا خوف پیدا ہوا۔ بلکہ سچ مچ سانپ نکلتے دیکھے۔ ابھی زیادہ اندھیرا نہیں تھا۔ پاس ہی ایک غار نظر آیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، غار کے اندر چلا گیا اور اپنے ہوش و حواس کی مدد سے یہ تسلی کر لی کہ غار میں کوئی سانپ نہیں۔ پھر ایک بڑے پتھر کو کھسکا کر میں نے غار کا منہ اچھی طرح بند کر دیا اور اللہ کا نام لے کر سو گیا۔
ہیروں کے تاجر
اس غار نے میری جان بچائی۔ رات کو کئی بار میری آنکھ کھلی تو مجھے غار کے منہ پر پھنکاریں سنائی دیں۔ شاید سانپ میری بو پا چکے تھے، لیکن پتھر نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ صبح ہوئی تو میں اس وقت کا انتظار کرتا رہا جب سانپ سیمرغ کے ڈر سے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے جھانک کر دیکھا تو سب سانپ مجھے بلوں کی طرف رینگتے نظر آئے۔
پھر میں اندر چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مجھے دھڑام سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے پتھروں کی درز میں سے جھانکا۔ ایسا لگتا تھا کہ گوشت کا ایک بڑا لوتھڑا گرا ہے۔ اس کا رنگ سیمرخ تھا۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آ گئیں جو جہاز کے ملاح ہیرے کی وادی کے بارے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ کسی کی کیا مجال کہ اس ہیروں کی وادی میں جائے۔ اس میں اتنے بڑے سانپ ہیں جتنی کشتی ہوتی ہے۔ لمبا چوڑا آدمی ان کا ایک نوالہ بنتا ہے۔ انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی اس وادی کا رخ نہیں کرتا۔ لیکن حضرت انسان کی کیا کہیے۔ وہ کوئی نہ کوئی تدبیر سوچ کر اس وادی سے کچھ ہیرے نکال ہی لیتا ہے۔ ہیروں کے لیے اس وادی کے ایک طرف واقع اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے۔ وہاں وہ دنبے، بکرے وغیرہ کاٹتے اور ان کے گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑے پہاڑ سے نیچے وادی میں گرا دیتے۔ گوشت کے لوتھڑے جب گرتے تو کوئی نہ کوئی ہیرا ان سے چپک جاتا۔ اس گوشت کو کھانے والے بڑے بڑے شکاری پرندوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانے بنا رکھے تھے۔ وہ اڑ کر جاتے اور وہ گوشت اچک کر آشیانوں میں لے آتے اور تاجر پھر شور مچا کر پرندوں کو اڑنے پر مجبور کر دیتے اور گوشت کو ٹٹول کر ہیرے نکال لیتے ہیں۔
میں ہیروں کی وادی میں تھا، لیکن ہیرے میرے کس کام کے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلوں۔ مجھے ایک پرندہ یہاں لایا، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ کوئی پرندہ ہی الله کے حکم سے مجھے یہاں سے نکالے گا۔ انسان کچھ بھی ہو، لالچ اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ ایک طرف تو میں یہ کہتا تھا کہ مجھے زندگی پیاری ہے، بھاڑ میں جائیں ہیرے، دوسری طرف میں نے اپنی خُرجی (تھیلی) نکالی اور بڑے بڑے شفاف اور چمکدار ہیروں بھر لی پھر میں نے اپنی پگڑی اتاری، اپنی کمر کے گرد گھیرا دے کر کندھوں اور سر تک لے گیا اور اس سے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا باندھ لیا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی پرندہ اس گوشت کو اچکے تو میں بھی اس کے ساتھ بندھا ہوا اوپر پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچوں گا۔
تھوڑی دیر بعد شکاری پرندے منڈلانے لگے۔ ایک پرندہ اس گوشت پر جھپٹا جو میرے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اسے وہ لے کر اڑا اور ساتھ ہی مجھے اڑا لے گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر اس کا آشیانہ تھا۔ وہاں اس کے بچے منتظر تھے۔ ساتھ ہی تاجر بھی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پرندہ آشیانے میں اترا تھا کہ شور و غل ہوا۔ پرندہ گوشت چھوڑ کر پھر اڑ گیا۔ تاجر گوشت لینے آئے تو مجھے وہاں کھڑا پایا۔ گوشت کے خون سے میں لال ہو چکا تھا۔ میری شکل و صورت بھی عجیب نظر آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے۔ میں نے کہا، “بھائیو! گھبرائو نہیں۔ میں آدم زاد ہی ہوں۔ اس گوشت کے ساتھ یہ پرندہ مجھے بھی اٹھا لایا ہے۔ اس گوشت میں تو شاید کوئی ہیرا نہیں۔ ہاں میرے پاس کچھ ہیرے ہیں۔ میں تم میں سے ہر ایک کو ایک ایک ہیرا دوں گا۔ یہ ایک ہیرا اتنا بڑا ہو گا کہ کبھی تمہارے ہاتھ نہ آیا ہو گا۔”
وہ میری بات سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے، “تم بہت ہی خوش قسمت انسان ہو ورنہ ہیروں کی وادی سے کبھی کوئی شخص زندہ نہیں لوٹا۔”
میں نے کہا، “یہ سب الله کا کرم ہے۔”
ان تاجروں کی مدد سے میں نے اپنے باقی ہیرے شہر جا کر بیچے اور ایک جہاز میں سوار ہو کر بخیر و عافیت بغداد پہنچ گیا۔
ساتھیو! کل میں تمہیں اپنے تیسرے سفر کا حال بتاؤں گا۔
(جاری ہے)

حصہ