جلد کے زخم

341

روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے اسباب ہوتے ہیں کہ جو انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ فو ری طبی اقدام کرکے متاثرہ شخص کی زندگی بچائی جائے اور اس کی تکلیف کو کم کیا جائے۔ ایسی ناگہانی صورتوں میں کسی معالج کا فوری طور پر دستیاب ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ہر باشعور شہری ابتدائی طبی امداد کی ابجد سے واقف ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے انسانی و اخلاقی فریضے کو انجام دے سکے۔
ابتدائی طبی امداد کیا ہے؟
ابتدائی طبی امداد جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ جائے حادثہ پر متاثرہ شخص کو پہنچائی جانے والی ایسی طبی مدد ہے کہ جس سے اس کی جان بچائی جاسکے یا کم از کم اس کی تکلیف کو کم کیا جاسکے۔ ابتدائی یا فوری طبی مددگار کے لیے لازمی نہیں کہ وہ کوئی اچھا معالج ہو یا کسی مستند طبی ادارے سے فارغ ہوا ہو بلکہ ہر وہ شخص جس میں خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے‘ طبی مددگار کے فرائض انجام دے سکتا ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ موقع پر حالات کو سنبھال سکے‘ حالات کا اچھی طرح جائزہ لے سکے اور گھبرا نہ جائے۔
جِلد کے زخم
انسانی جلد پر کسی وجہ سے خراش پیدا ہو جاتی ہے یا کوئی نوکیلی چیز گھس جانے سے سوراخ ہو کر زخم بن جاتا ہے‘ عام طور پر خطرناک زخم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہماے جسم میں زخموں سے خون کے بہائو کو روکنے‘ زخموں کو بھرنے اور انفکیشن سے لڑنے کا ایک عمدہ اور خود کار نظام موجود ہے‘ لیکن اسے اکثر مدد کی ضرورت رہتی ہے۔ جب جلد مجروح ہوتی ہے‘ خون کی شریانوں سے خون کا بہائو شروع ہو کر جراثیم جسم کے اندر داخل ہو سکتے ہیں لہٰذا تمام زخموں کو صاف کرنے کے علاوہ ان کی مرہم پٹی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے جسم میں خون کے اندر ایک خاص پروٹین ہوتا ہے جو ٹشوز کے تباہ ہونے خلیوں اور ریشظں کی ایک حفاظتی تہہ تیار کرتا ہے۔ اس تہہ یا پرت کو ہم تھکے یا کھرنڈ کے نام سے جانتے ہیں جو شریان کے متاثرہ مقام کو بند کرکے جریان خون کو روک دیتا ہے۔ اسی اثنا میں خون کی متاثرہ شریان کی دیواروں میں موجود پٹھے سکڑتے ہیں اور خون کی روانی کو سست کر دیتے ہیں۔ اگر جریانِ خون شدید ہو تو خون کا دبائو پورے بدن میں کم ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جونہی جلد پرکوئی خراش وغیرہ پڑتی ہے‘ خون کی خاص سفید خلیے جنہیں فیگو سائٹس کہتے ہیں‘ متاثرہ مقام پر جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ خلیے کسی متوقع انفکیشن کے خلاف پہلے اقدام کے طور پر بکٹریا کی طرح کے خورد بینی اجزا کو دفع کر دیتے ہیں۔ تاہم اگر چوٹ جلد کے بڑے حصے کو متاثر کر چکی ہو تو بکٹریا سے آلودہ ہونے کا اور چھوت (انفکیشن) ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔جب جریانِ خون رخ جاتا ہے اور زخم‘ انفکیشن کے خطرے سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے تو زخم کے مقام پر ایک ریشے دار کھرنڈ بننے لگتا ہے۔ اگلے چند روز میں یہ کھرنڈ سکڑتا ہے اور کٹی ہوئی سطح کے درمیان ایک سخت بند بناتا ہے۔
زخموں کی اقسام:
بنیادی طور پر زخموں کی پانچ اقسام ہیں جن میں خراش (Scratches)‘ رگڑ (Abrasions)‘ کسی تیز دھار آلے سے کٹنے والے (Cuts)‘ جلد کے پھٹنے (Lecration)‘ اور جلد میں چھید (Punctures) سے ہونے والے زخم شامل ہیں۔
’’خراش‘‘ جلد پر آئے ہوئے کسی ایسے زخم کو کہتے ہیں جس میں جلد کی محض اوپری سطح (ایپ ڈرمس) متاثر ہوئی ہو۔ جلد اس سے علیحدہ نہیں اور خود جلد میں سے چھوٹی چھوٹی شریانوں سے خون قلیل مقدار میں رستا ہے۔ اس قسم کے زخم میں سے خون کا بہائو فوراً رک جاتا ہے‘ لیکن انفکیشن کا خطرہ بدستور باقی رہتا ہے خاص طور پر اگر جلد کو یہ خراش کسی آلودہ اور گندی چیز سے لگی ہو۔
’’رگڑ‘‘ کی صورت میں جلد کسی چیز سے قوت کے ساتھ رگڑ کھتی ہے۔ کبھی یہ رگڑ ہلکی ہوتی ہے تو کبھی جلد کافی متاثر ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ زخم اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس میں تکلیف بھی کافی ہوتی ہے کہ ایسی لاکھوںرگیں جو جلدی سطح پر آکر ختم ہوتی ہیں‘ متاثر ہو جاتی ہیں۔ یہ زخم عام طور پر گرد اور ریت سے بھر جاتے ہیں لہٰذا ان کا مسئلہ چھوت ہے۔ ایسے زخموں کو گرد وغیرہ سے صاف کر لینے کے بعد اسے کھرنڈ بننے تک سوتی کپڑے کی صاف پٹی سے ڈھانک دینا چاہیے۔
ٹوٹے ہوئے شیشے‘ بلیڈ‘ چاقو یا کسی اور تیز دھار آلے کے جلد پر زور سے لگنے کی وجہ سے جلد کٹ جاتی ہے۔ ایسے زخموں سے کافی تیزی سے خون بہہ نکلتا ہے‘ خاص طور پر اس حالت میں کہ جب جلد کے اندر کافی گہرائی تک خون کی شریانیں کٹ گئی ہوں۔ تاہم ایسے زخموںکو آسانی کے ساتھ قابو کیا جاسکتا ہے۔
بہت سے زخم جلد پر بہت معمولی سے پھیلے ہوتے ہیں۔ چنانچہ متاثرہ مقام پر ہلکی سی مرہم پٹی کرکض یا پلاسٹر پٹی لگا کر زخم مندمل ہونے کے عمل کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل گھٹنے یا کہنی پر ہونے والے زخم کے لیے خاص طور پر بہتر رہتا ہے کہ یہ دونوں اعضا ہر وقت مڑتے رہتے ہیں۔ یہی حال انگلیوں کا ہوتا ہے۔ ایسے مقام پر زخم کی جگہ کی کھال مل نہیں پاتی جس سے زخم کے مندمل ہونے میں بھی دیر لگتی ہے۔
زخم بہت گہرا ہو اور اسے معمولی پٹی یا پلاسٹر سے بند کر نا ممکن نہ ہو یا جلد کے نیچے چربی کی تہہ یا پٹھے متاثر ہو گئے ہوں تو ایسی صورت میں ٹانکے لگانا پڑتے ہیں۔ تاہم چہرے پر زخم کے نشان سے بچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ چھوٹے زخم پر بھی ٹانکے لگوائے جائیں۔
شدید زخم یا سخت چوٹ:
زخم کی اس حالت میں عام طور پر جلد پھٹ جاتی ہے‘ زخم کے گرد رگڑ کے آثار ہوتے ہیں اور جب تک اسے صاف نہ کر دیا جائے انفکیشن کا خدشہ رہتا ہے۔ اس قسم کا زخم معالج کو دکھانا چاہیے۔ ان میں سے خون کا بہائو بھی تیز ہوتا ہے او رجلد کے اندر گولی یا کوئی نکیلی شے کے گھس جانے کی صورت میں زخم کے خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسی چیز کو کبھی خود نکالنے کی کوشش مت کیجیے کیوں کہ جو چیز جلد کے اندر داخل ہو چکی ہے وہ نقصان پہنچا چکی ہے‘ اس کو خود نکالنے کی صورت میں بڑی مقدار میں خون جاری ہو سکتا ہے۔ تاہم آپ زخم کے گرد ایک موٹی پٹی باندھ کر زخم کو مزید خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد فوراً معالج سے رجوع کیجیے۔
چلتے چلتے اچانک پائوں میں کسی نوک دار شے کے چبھ جانے سے پائوں میں بظاہر معمولی لیکن گہرا زخم بن سکتا ہے۔ ایسے زخموں میں نوک دار چیز جلد کے اندر چھید کرتی ہوئی کافی گہرائی تک چلی جاتی ہے۔ کپڑے سیتے میں اچانک سوئی انگلی میں گھس جانے کا تجربہ تو اکثر پاکستانی خوتین کو ہوا ہی کرتا ہے۔ ایسے زخم کی صورت میں یہ بہت ضروری ہے کہ جریان خون کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے کیوں کہ ایسے زخم کو صاف کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے جب ایک مرتبہ خون کا بہائو خود بہ خود رک جائے‘ زخم کو دھویئے اور صاف و خشک پٹی باندھ لیجیے۔
معالج کیا کرے؟
اگرچہ چھوٹے موٹے زخموں کو خصوصی توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی‘ خاص کر اس وقت کہ جب فوری طور پر کوئی طبی اقدام کر لیا گی ہو‘ تاہم بڑے اور گندے زخم ضرور معالج کو دکھانا چاہئیں۔
معالج زخم کو صاف کرے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ زخم میں کوئی خطرناک اجزا تو نہیں ہیں۔ اگر خدشے کی کوئی بات ہو‘ مثلاً شیشے کی کرچیاں‘ دھاتی ٹکڑے زخم کے اندر رہ گئے ہوں تو ایکسرے لیا جاسکتا ہے۔ پھر معالج یہ دیکھے گا کہ رگیں اور نسیں (جو پٹھوں پر آکر ختم ہوتی ہیں) معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ آیا کزاز (ٹیٹانس) کا ٹیکا یا زخم پر ٹانکے لگانے کی تو ضرورت نہیں ہے۔
زخم کے دونوں سروں کو قریب لانے اور ملانے کے لیے ٹانکوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح زخم کے آلودہ ہونے کا خطرہ نہیں رہتا‘ زخم بند ہونے میں آسانی وہتی ہے اور زخم کی درستی کے بعد جلد پر زخم کے بدنام نشان کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر ٹانکوں کے بغیر زخم بند ہو سکتا ہو یا ٹانکے لگانے سے اردگرد کی ٹشوز کے متاثر ہونے سے مزید نشانات پڑنے کا اندیشہ ہو تو ٹانکے نہیں لگائے جاتے۔ اس کے علاوہ بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے ٹانکے لگوا لینے چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے عام طور پر زخم کے اطراف کی جلد کو سن کرنے کے لیے مقام مخدر (Local Anaesthet ic) دوا استعمال کی جاتی ہے۔
زخموں کا اندمال:
چوٹ لگنے کے فوراً بعد اندمال کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ خون کے سفید کلیے جو ممکنہ انفکیشن کو دور کرنے کے لیے زخم والی جگہ پر تیزی سے پہنچ جاتے ہیں‘ چوٹ کے نتیجے میں ختم ہونے والے خلیوں کو بھی صاف کرتے ہیں۔
جب ایک مرتبہ زخم صاف ہو جاتا ہے تو زخم کے اندمال کا عمل زخم پر موجود حفاظتی کھرنڈ کے اندر جاری رہتا ہے۔ جلد کے بچ جانے والے زندہ خلیے تیزی کے ساتھ تقسیم ہوتے ہیں اور زخم بھرنے والی ریشے دار نسیحوں کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ ان نسیحوں میں خون کی شریانیں اور عصبی ریشے شمل ہوتے ہیں۔ یہ نسیحیں زخم کی گہرائی سے بڑھنا شروع ہوتی ہیں اور بتدریج تمام زخم کو بھرتی ہیں۔ جب یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے تو کھرنڈ از خود اتر جاتا ہے۔
جن زخموں پر ٹانکے لگائے جاتے ہیں وہ چوبیس گھنٹے کے اندر پانی سے محفوظ (واٹر پروف) ہو جاتے ہیں اور عموماً پانچ دن کے اندر مندمل ہو جاتے ہیں۔ اب ٹانکے اکھاڑے جاسکتے ہیں۔ا گلے چند ماہ میں زخم کو مندمل کرنے والی نسیحیں گہری ہوتی جاتی ہیں جیسے جیسے یہ نسیحیں گہری ہوتی ہیں‘ آپس میں ملتی ہیں جس کے باعث زخم پر تہہ در تہہ نظر آتی ہیں۔ ایسا اکثر بڑے زخموں کے نشانات میں نظر آتا ہے۔اگر کسی زخم کا نشان زیادہ بھدا ہو تو اسے جلد کی پیوند کاری کے ذریعے چھپایا جاسکتا ہے۔ زخموں پر بننے والی نسیحوں میں بال کبھی نہیں اُگتے ایسی جگہ پر پسینے کے غدود بھی نہیں ہوتے اور دھوپ سے یہ جگہ گہری بھی نہیں پڑتی‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مضبوط حفاظتی غلاف کا کردار ادا کرتی ہے اور بالکل اصل جلد کی طرح بدن کی حفاظت کرتی ہے۔
مرہم پٹی کیسے کی جائے؟
زخم کی صورت اگر یہ ہے کہ کوئی نوک دار چیز جلد کے اندر چھید کر گئی ہے تو بہتر ہے کہ تھڑا سا خون بہنے دیا جائے۔ خون بہہ جانے سے زخم کی ازخود صفائی ہو جاتی ہے تاہم اگر خون بہنے کی رفتار فیز ہے تو اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر پائوں یا ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور اب اس کے لیے حرکت کرنا مشکل ہے تو ایسی صورت میں اس عضو کو اونچا رکھنا چاہیے تاکہ اس جگہ پر خون کادبائو کم ہو جائے اس کے بعد زخم میں سے خون کا رسائو روکنے کے لیے ایک صاف پٹی زخم کی جگہ پر رکھیں اور کم از کم پانچ منٹ تک متاثرہ مقام پر ہلکا سا دبائو ڈالیں۔ اگر خون کا بہائو اتنا ہو کہ پٹی میں سے نکل کر خارج ہو تو ایسی صورت میں اس پٹی کو ہٹانے یا تبدیل کرنے کے بجائے اس پٹی کے اوپر ایک ور پٹی رکھ دیں کیوں کہ پٹی ہٹانے کی صورت میں خون کا جو تھکا زخم پر جمنا شروع ہو گیا ہے پٹی ہٹانے پر یہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا جس کی وجہ سے خون کا رسائو تیز ہو سکتا ہے۔
اگر خون زور کے ساتھ دھار کی شکل میں جاری ہے تو یہ شریان کے کٹنے کی علامت ہے۔ اس صورت میں زخمی کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے تاہم جب تک طبی امداد میسر نہ آسکے زخم پر ہلکا ہلکا دبائو ڈالتے رہنا چاہیے۔ اگر آپ اس مقام پر موجود متاثرہ شریان تلاش کر لیتے ہیں تو اس پر دبائو ڈالنا زیادہ مؤثر ثابت ہوگا‘ لیکن یہ دبائو ایک دفعہ میں پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔ تاہم اگر سر میں زخم آنے کی وجہ سے جریان خون ہو رہا ہے اور سر میں فریکچر کا اندیہ بھی ہے تو ایسی صورت میں مقامِ متاثرہ پر براہ راست دبائو نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کے بجائے کپڑے کو لپیٹ کر اسے گول (رنگ کی شکل میں) کرکے زخم کے اردگرد رکھنا چاہیے۔
زخموں کی صفائی:
زخم کی صفائی سے پیشتر زخم کو کسی کپڑے سے ڈھک دیجیے تاکہ مکھیاں بیٹھنے یا گرد وغیرہ پڑنے سے زخم مزید گندا نہ ہو۔ اس کے بعد خوب اچھی طرح کسی معیاری صابن سے اپنے ہاتھ دھو لیجیے۔ اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ ناخنوں وغیرہ میں کسی قسم کا میل کچیل نہ رہ جائے۔ زخموں کی صفائی کے لیے یوں تو کئی سیال (لیکویڈ) بازر میں دستیاب ہیں لیکن عام صاف پانی سے بھی زخمں کی صفائی بلا خطر کی جاسکتی ہے تاہم کسی بھی اینٹی سیپٹک لوشن کا استعمال مفید ہوتا ہے لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ زیادہ تیز نہ ہو ورنہ زخم کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
زخم میں اگر کسی قسم کی پھانس وغیرہ پھنس گئی ہے تو اسی نرم برش یا پانی کی دھار سے صاف کیا جاسکتا ہے اور کسی بڑے کانٹے یا کنکر وغیرہ کو چٹکی سے پکڑ کر نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد صاف روئی کو اینٹی سیپٹک میں بھگو کر آہستہ آہستہ زخم کی صفائی کر دیجیے۔
زخم کی صفائی کے بعد اب زخم کو جراثیم اور وائرس وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے زخم کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ چھوٹے زخموں کے لیے تو پلاسٹر پٹی بہتر رہتیہے اور نسبتاً بڑے زخموں پر مرہم پٹی کی جاسکتی ہے جو کھرنڈ کو اکھاڑے بغیر آسانی کے ساتھ اتاری جاسکتی ہے۔ پٹی استعمال کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ کاٹن کی پٹی یا پٹی کی روئیں دار سطح زخم کی جانب نہ رکھی جائے کیوں کہ زخم پر اس کے چپکنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
پٹی باقاعدگی کے ساتھ تبدیل کرنی چاہیے اور اگر پٹی تبدیل کرتے وقت محسوس ہو کہ روئی کا پھایا زخم کے ساتھ چپک گیا ہے تو اسے کھاڑنے کی ہرگز کوشش نہ کریں کیوں کہ ایسی صورت میں خم پر بنا کھرنڈ بھی اتر کر خون کا بہائو شروع ہو سکتا ہے اس کے بجائے یہ کیجیے کہ کسی اینٹی سیپٹک لوشن سے پھائے کو بھگو کر اسے آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ صاف کر لیجیے۔

حصہ