پاکستان میں تحقیق کی صورتحال

969

عملی زندگی میں تحقیق کی کیا اہمیت ہے،پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے “تحقیق “کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال

جس معاشرے میں تحقیق نہیں وہاں ترقی نہیں۔تحقیق انسان کی سب سے پختہ علمی اور دوررس سرگرمی کانام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس کا شدید فقدان ہے اور جو تحقیق ہو بھی رہی ہے وہ بہت ناپختہ اور اس کا معیار انتہائی پست ہے یا وہ ترقی یافتہ دنیا میں قابلِ قبول نہیں ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟سبب کیا ہے؟ہمارے یہاں کس قسم کی تحقیق ہورہی ہے اور اس کے معیار کو کس طرح بلند کیا جاسکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لیے ہم نے ڈاکٹر معین الدین عقیل کو زحمت دی اوران سے تحقیق سے متعلق کئی سوالات کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل ممتازنقاد، محقق اور ادیب ہیںاور کاغذ، قلم،کتاب، علم، ادب اور زبان کے آدمی ہیں۔ آپ کی دلچسپیوں کا سب سے بڑا محور تحقیق ہے۔ آپ ساری زندگی تحقیق و جستجو میںلگے رہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔کتاب سے خصوصی لگائو ہے، ہوش سنبھالتے ہی والد سید ضمیر الدین اور والدہ کو اکثر مطالعہ کرتے دیکھا،جب کہ یہ عادت آج کے والدین میں ناپید ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم قائدآباد میںواقع حیدرآباد ٹرسٹ کے اسکول اورلانڈھی نمبر ایک کے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ یہیں سے 1963ء میں میٹرک کیا۔ 1969ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کی سند حاصل کی،جس پر انجمن ترقی اردو سے بابائے اردو تمغے کے حق دار قرار پائے۔1970ء میں شپ اونر کالج، نارتھ ناظم آبادسے منسلک ہوئے اور ملیر کینٹ کالج اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں بھی اردو کے شعبے سے وابستہ رہے۔1969ء میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں اولاً ایم اے کا مقالہ لکھا پھر 1975ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ اس وقت سے آپ کا تحقیقی سفر جاری ہے، اعلیٰ تحقیقی خدمات کے اعتراف میں 2003ء میں کراچی یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی اعلیٰ ترین سند حاصل کرنا بھی آپ کا اعزاز ہے۔
ڈاکٹر سیدمعین الدین عقیل تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات کی تعلیمی وتدریسی صورت حال اور خاص طور پر تحقیق کی صورت سے غیر مطمئن اور فکرمند ہیں۔ جامعات میں ہونے والی تحقیق سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔چالیس، پینتالیس سالہ تدریسی تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کے تحقیقی و علمی کاموں کا سفر طویل اورکام بہت زیادہ ہے۔ 1976ء میں پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ انجمن ترقی اردو سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔آپ کی قریباً 80 سے زائد کتابیںشائع ہوچکی ہیں۔ً تحقیق کاکام کرنے،تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے شعبہ سے منسلک طلبہ کو جن اشکال کا سامنا ہوتا ہےاوران کے ذہنوںمیںتحقیق سے متعلق جوسوالات پیدا ہوتے ہیں ان کا حل اور جواب ہے، اس کے ساتھ انٹرویو کے مندرجات سے پاکستان میں تحقیق کی کیا صورتحال ہے اور ایک طالب علم کو اس کے لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے بھی آگاہی ملے گی۔پھر اس انٹرویو میںجن مسائل اورموضوعات کا احاطہ قارئین کو ملے گا وہ پاکستان کی جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے مسائل سے بھی نہ صرف آگاہی فراہم کرے گا بلکہ خود جامعات میں اور جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے سرپرست و نگراں ادارے ایچ ای سی کو بھی متوجہ کرسکے گا کہ آج جامعات میں ہونے والی تحقیقات کن مسائل سے دوچار ہیں اور ان کی اصلاح اور بہتری کیوں کر ممکن ہے۔
……٭……
میں نے نشست سنبھالنے اور پانی پینے کے بعد پہلا سوال کے لیے تمہید باندھی اور کہا تحقیق‘‘ آپ کا نہ صرف دلچسپی کا موضوع اور مضمون ہے بلکہ ادبی تحقیق میں آپ کا ممتاز نام بھی ہے، یہ بتائیے کہ عملی زندگی میں تحقیق کی کیا اہمیت ہے؟ تو ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے گہری سانس لی اور فرمایا کہــ’’ آپ نے علم و علوم سے قطع نظر عملی زندگی میں اس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں پوچھاہے۔ تحقیق انسان کو حقیقت تک پہنچاتی ہے، حقائق سے روشناس کرتی ہے اور معمولات ِ زندگی میںسچائی کی اہمیت کوواضح کرتی ہے۔ اسی عمل میں انسان دلیل ا ور استناد پر انحصارکرنا سیکھتا ہے۔اگر تحقیق انسان کے رویے اور عمل میں شامل نہ ہو تو انسان حقیقت شناس نہ رہے۔تحقیق اور اس کی جستجو انسان کوحسن اور خوبیوں تک لے جاتی ہے اور خود اس کی زندگی کواس کے تصورات اور نظریات کوخوبیوں اور محاسن کا مرقع بناتی ہے۔ یہ افضل تر انسانی اوصاف ہیں جو تحقیق کے ذوق سے انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے تحقیق کا ذوق جس قدر پختہ و شائستہ ہوگا انسان حق وصداقت کا داعی اور دھوکے اور فریب سے گریزاںہوگا۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا!ڈاکٹر صاحب عمومی خیال یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اول تو معیاری تحقیق نہیں ہورہی اور جو تحقیق ہو بھی رہی ہے وہ عالمی معیار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی،اس پس منظر میںآپ پاکستان کے اندر تحقیق کی صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس میں آپ کو کیا کمزوریاں اور نقائص نظر آتے ہیں؟یا میرا یہ پیش کردہ خیال ہی غلط ہےآپ نے اس ضمن میںہمارے یہاں ہونے والی تحقیق کے معیار اور موضوعات کے تعلق سے سخت مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ’’ عالمی سطح پر ہونے والی انتہائی معیاری تحقیقات اور مطالعات میرے سامنے آئے دن آتی رہتی ہیں اور یہاں کی تحقیقات کے نام پر جو کچھ بالعموم سامنے آرہاہے وہ مقابلتہ ً ہیچ اور مایوس کن ہے۔علمی تحقیقات دنیا بھر میںانفرادی سے زیادہ جامعاتی سطح پر ہوتی ہیں۔ افراد جس قسم کی تحقیقات میں دل چسپی لیتے ہیں وہ ان کی پسند کے موضوعات اور ان کے ذاتی معیار و میلان کے مطابق ہوتی ہیں۔ہم انھیں پسند بھی کرسکتے ہیں یاناپسند بھی کرسکتے ہیں اور اگر وہ معیاری اور قابل تعریف ہوتی ہیں تو ہم انھیں سراہتے اوران سے استفادہ کرتے ہیں ورنہ وہ کسی استفادے یا حوالے کے قابل نہیں رہتیں۔ہم ان سے کوئی شکایت نہیں کرتے کہ وہ ان کے اپنے وسائل، ان کی اپنی ضرورتوں یا ان کے ذوق و شوق یا ان کی اہلیت و استعداد کے مطابق ہوتی ہیں،لیکن ان ذاتی نوعیت کی تحقیقات کے مقابلے میں جامعاتی تحقیقات بڑی حد تک جامعاتی وسائل کے تحت انجام پاتی ہیں اور ان تحقیقات سے جامعات کا وقار، ان کی شناخت، کارکردگی،اور محققین کے فوائد وابستہ ہوتے ہیں اورجو جامعات اور دراصل قومی وسائل سے منسلک ہوتے ہیں۔گویا جامعات میں انجام دی جانے والی تحقیقات پر قومی وسائل استعمال ہوتے ہیں اور قومی سرمایہ صرف ہوتاہے۔ اس لیے اگر تحقیق معیاری اور نتیجہ خیز نہ ہو، یہ علوم کی ترقی اور تہذیب و معاشرت کو فائدہ نہ پہنچا سکے، یہ مزید تحقیقات اور علمی ترقیوںکے در وا نہ کرے تو ایسی تحقیق جامعاتی اور ملکی و قومی وسائل کے ضیاع کا سبب بنتی ہے اور ہمارے ملک میں ایسا ہی ہورہاہے۔مجھے ذاتی نوعیت سے ہونے والی تحقیقات سے یہاں غرض نہیں، کیوں کہ ان میں قومی وسائل استعمال شاید نہیں ہورہے ہیں،ہاں، ان کا معیاری یا غیرمعیاری ہونا قومی و ملکی عزت و وقارکے حق میں یا منافی ہوسکتاہے۔ لیکن جامعات میں ہونے والی تحقیق خاصی مایوس کن بلکہ افسوس ناک ہے۔مختصرا ًاس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ موضوعات کا ہے۔میری یہاں ساری معروضات معاشرتی علوم میں ہونے والی تحقیقات کے تناظر میں ہیں۔جو موضوعات منتخب ہورہے ہیں وہ انتہائی فرسودہ، اذ کار رفتہ اوربے فیض ہیں۔سرسری جائزے یا تاریخی جائزے اور سوانحی عنوانات بالعموم موضوع بنائے جارہے ہیں جب کہ محقق اور ان کے نگرانوں یہاں تک کہ اس مجلس کو بھی، جو موضوعات اور منصوبوں کو منظوری عطاکرتی ہے،یہ احساس و شعور نہیں کہ کوئی جائزہ مطالعہ نہیں ہوسکتا۔تحقیق مطالعے کا تقاضہ کرتی ہے جائزے کا نہیں۔جائزہ ہمیشہ سرسری اور سطحی ہوتاہے، اس میں گہرائی اور گیرائی نہیں ہوتی جب کہ تحقیق میں یہ لازمی تقاضے ہوتے ہیں۔جن موضوعات اوران کے عنوانات میں لفظ ’’جائزہ‘‘ استعمال ہوتاہے اس سے نہ صرف محقق کی ذہنی کم مائیگی ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے نگران کی ذہنی پس ماندگی اور تحقیق کے بنیادی تقاضوں سے ناواقفیت ثابت ہوتی ہے اور تحقیق کے معیار سے اس مجلس کی بے نیازی کا بھی علم ہوتاہے جو موضوعات کو منظور کرتی ہے۔ہماری جامعات میں ایسے موضوعات بکثرت تفویض ہوتے ہیں جن کا مقصد موضوع کا ’’جائزہ‘‘ ہوتاہے، تحقیق یا مطالعہ نہیں۔
ایک اور متعلقہ سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ ’’موضوعات میں ایک غلط رجحان تکرار کا بھی ہے کہ کسی موضوع پر کہیں کوئی کام ہوچکاہے لیکن کچھ لاعلمی میں اور کچھ ارادۃً وہی عنوان یا ویساہی عنوان دوبارہ لے لیا جاتاہے تاکہ اسے سامنے رکھ کر کام آسانی سے اور جلد مکمل کرلیاجائے۔بعض عنوانات پانچ پانچ چھے چھے بار موضوع بن چکے ہیں۔تو ان کا معیار کیسا ہوگا؟پھر شخصیات کو اور وہ بھی قریبی عہد کی بلکہ معاصر شخصیات کو موضوع بنانا بہت عام ہے کہ موضوعی شخص کے حالات ِ زندگی بآسانی معلوم کرلیے جائیں اور اس کی کتابوں کے نام لکھ کر ان پرتبصرہ کردیاجائے۔نہ گہرائی میں جانے کا تکلف کیاجائے نہ کسی نئے پہلو کی جستجو اور تلاش و دریافت کی جائے۔ایسے موضوعات منتخب کرنے والوں میں اہلیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ معیاری اور جامع کام کرسکیں۔ اگر اہلیت ہوتی تو وہ نہ کسی گھسے پٹے موضوع کو لیتے نہ کسی شخص کے محض احوال و آثار کا مطالعہ کرتے۔ موضوعات عام طور پروہ منتخب ہوتے ہیںجن کی آج کے معاشرے کوکوئی ضرورت نہیں ہوتی۔موضوع کے انتخاب ہی سے ظاہر ہوجاتاہے کہ محقق کا مطالعہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ اس موضوع پر، جو فرسودہ اور پرانا ہی ہے، کیاکیا جدید تحقیقات یا مطالعات عالمی سطح پر ہوچکے ہیں کہ جن کے مطالعے سے شاید وہ کوئی نئی بات اخذ کرسکے اور ان تحقیقات سے مدد لے کر کوئی نیا پہلو یا نیا نکتہ وہ اپنے مطالعے میں شامل کرسکے۔ایسے موضوعات جن کی آج کے معاشرے کو ضرورت ہے یا جن کے توسط سے ہم کوئی دریافت و انکشاف کرکے علم اور معاشرت کو کوئی فائدہ پہنچاسکیں ہمارے محققین اور ان کے نگرانوں کی رسائی سے دور رہتے ہیں لہٰذا ہماری جامعات میں ہونے والی اکثرتحقیقات علم و معاشرے کے لیے بے فیض رہتی ہیں، جن کا علمی اور معاشرتی سطح پرکوئی خاص فائدہ نہیں۔موضوعات وہ اہم ہوتے ہیں جو معاشرتی اور تہذیبی ربط و رشتوں اور ان کے جذب و اثرکو ملحوظ رکھ کر منتخب کیے جائیںیا ان کا کوئی تاریخی یا نفسیاتی و انسانی تناظرہو۔
ستم یہ کہ آج موضوعات کی فضولیت کے ساتھ ساتھ انھیں ان تقاضوں کے تحت برتابھی نہیں جاتا کہ موضوع کی مناسبت سے وہ تمام بنیادی مآخذ و مصادر کی جستجو کی جائے جو متعلقہ موضوع کے تعلق سے اہم ہیں۔ہم یہاں صرف اپنے اطراف اور عام طور پر کتاب فروشوں یا جیسے تیسے کتب خانوں میں موجود کتابوں تک خود کو محدود رکھتے ہیں۔بیرون ِ ملک، عالمی سطح پر،دیگر زبانوں میں جو مواد موجود ہوتاہے ان کی جستجو یا ان تک رسائی کا بالعموم شعور ہی نہیں رکھتے یا اگر ایسا چاہیں بھی تو اپنی جستجو کو بے حد محدود اور اپنی زبان ہی تک مخصوس رکھتے ہیں۔اس لیے مطالعہ ناقص، محدود اور بے نتیجہ ہی رہتاہے۔
موضوع سے قطع نظر اسالیب اور رسمیات کے لحاظ سے بھی ہمارے تحقیقی مطالعات یا مقالات، جو چاہے محققین یا اساتذہ کی جانب سے کسی سند کے حصول کے لیے پیش ہوں یا تقرر و ترقی کے لیے، یا خود اجتماعی کسی منصوبے کے تحت ہوں، جدید اور ضروری سائنٹیفک اصولوں اور اسالیب و رسمیات کے معیار یا تقاضوں سے بھی مبرا ہوتے ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ ’’اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی ترقی و فروغ کے ادارے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ اور جامعات کسی نے بھی، میری معلومات کی حد تک، تاحال اس ضمن میں کوئی جدید اور عالمی معیار و سطح کے مطابق اسالیب و رسمیات کو اختیار کرنے پر کوئی زور نہیں دیاہے اور نہ خود انھیں اپنے اساتذہ و محققین کے لیے ترتیب دے کر مقرر کیاہو جن کی پیروی جامعات اور محققین پر لازم ہو۔یعنی محقق پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ مقالہ میں اسالیب اور حواشی و کتابیات کے درج کرنے کے لیے، اقتباسات نقل کرنے کے لیے اور عنوانات طے کرنے کے لیے کیا طریقہ ٔ کار اختیار کریں، خود اپنے وضع کردہ یا مقرر کردہ اصولوں کو اختیار کریںیا کسی عالمی مسلمہ نظام کے مطابق عمل کریں۔اس لیے اس معاملے میں لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطابق حاشیے لکھتے، حوالے دیتے، اقتباسات نقل کرتے یا کتابیات ترتیب دیتے ہیں۔کوئی انھیں عنوان کے اعتبار سے درج کرتاہے کوئی مصنف کے نام سے۔کتابیات میں کوئی متعلقہ تفصیلات، جیسے ناشر کا نام، شہر کا نام،سن اشاعت اور اگر مقالہ ہو تو کوئی اس کا عنوان پہلے درج کرتاہے کوئی مصنف کا نام، اور پھر رسالے یا کتاب کا نام، جہاں وہ مقالہ شائع ہواہے، پھر دیگر تفصیلات کا اندراج کرتاہے۔ یہ تفصیلات اپنی ترتیب کے مطابق ہر محقق کے ہاں مختلف ہوسکتی ہیں اور کوئی ہدایت ان کے سامنے نہیں رہتی کہ ان ساری تفصیلات کو کس ترتیب سے درج کریں۔ اس لیے بھانت بھانت کا فرق ان کے درمیان دیکھا جاسکتاہے۔ یہ کام جامعات کا یا اداروں کا یا دراصل ایچ ای سی کا ہونا چاہیے کہ وہ ساری جامعات کے لیے خود کوئی اصول ترتیب دے کر انھیں اختیار کرنے کا پابند بنائے تاکہ معیار و اسلوب میں یکسانیت اور حسن و سلیقہ نظر آئے۔یہ کام جامعات انفرادی طور پر اپنے لیے کسی منظم اصول کو اختیار کرنے لیے بھی کرسکتی ہیں، جیسے دنیا بھر میں بالعموم شکاگو یونیورسٹی کے نافذ کردہ اصولوں کو اختیار کرنے کی روایت بہت مستحکم ہوگئی ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ بھی اب پرانے ہوچکے ہیںاور حوالہ دینے اور انھیں اور کتابیات کو مرتب کرنے کے اصولوں میں اب جدید تقاضوں کے مطابق یہ اصول یا رسمیات خاصی مختلف صورت اختیار کرچکے ہیں، جن پر میں نے کچھ کام کیاہے اور ان رسمیات کو اپنی کاوش کے تحت ’’رسمیات ِ مقالہ نگاری‘‘ کے عنوان سے پیش کیاہے جو کئی بار رسائل وغیرہ میں چھپ چکے ہیں اور بعد میں انھیں پاکستان اسٹڈی سینٹر کراچی یونیورسٹی نے انھیں کتابی صورت میں شائع کیاہے۔معیاری اور جدید سائنٹی فک اصولوں کو اختیار کرکے تحقیق کوہم سلیقے اور شائستہ اصولوں سے پیش کرسکتے ہیں ورنہ اگر یہ سائنٹی فک نہ ہوں اور ان میں ضروری لوازم کا لحاظ نہ رکھا جائے اور ان میں کوئی مسلمہ حسن ِ ترتیب نہ ہو توایسی تحقیق یا مطالعے کو ہم پختہ اور جامع نہ کہہ سکیں گے۔ان اصولوں ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ محقق یا مصنف اور ساتھ ہی اس کے نگران کوتحقیق کے عالمی رجحانات اور جدید اصولوں سے کتنی واقفیت ہے یا نہیں ہے۔میں ذاتی طور پر کسی بھی تحقیقی کام کے معیار کو جانچنے یا پرکھنے کے لیے اسے از ابتدا ٔ نہیں آخر میں کتابیات کو اور اندر حواشی اور حوالوں کودیکھتاہوں جس سے فیصلہ کرنا آسان ہوجاتاہے کہ کام معیاری ہے یا نہیں۔افسوس ہماری جامعات اور ایچ ای سی تحقیق کے معیار کی جانب سے قطعی لاتعلق اور بے نیازاور غیر سنجیدہ لگتی ہیں چناں چہ موضوعات اور مقالات کی رسمیات و پیش کش ان کی توجہ میں نہیں رہتیں اس لیے انتہائی ناقص معیار کے حامل مقالات بھی سند اور اساتذہ کی ترقی و تقرر کے لیے قابلِ قبول ہوجاتے ہیں۔ جب صورت حال ایسی ہو تو پھرجامعاتی تحقیق کا معیار کیوں کر بہتر یا بلند ہوسکے گا۔ہم اس معاملے میں بھی زوال و پستی کی ایک تصویر پیش کررہے ہیں۔اس اعتبار سے جامعات میں ہونے والی تحقیقات خود جامعات کے لیے کسی اعزاز و وقار کا سبب نہیں بنتیںکیوں کہ ہماری جامعات کے ناقص نظام، نگران ِ منصوبہ کی نااہلی،متعلقہ مجالس کی فرض ناشناسی اور ایچ ای سی جیسے ذمے دار ادارے کی بے نیازی یہ سب ہمیںتحقیق اور اس کی بلند معیاری سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ