غفلت کا شعور

323

ذاکر: (بیٹے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے) ’’اللہ کا شکر ہے بیٹا آپ کا ماسٹرز مکمل ہو گیا بس اب اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو کوئی اچھی ملازمت مل جائے۔‘‘
اسد: (بابا کے دونوںہاتھوںکو اپنے ہاتھوں میں لے کر) ’’بابا! یہ سب آپ اور اماں کی محنت کا ثمر ہے کہ آپ دونوں نے سخت محنت و مشقت کرکے کم وسائل کے باوجود ہم دونوں کو پڑھایا لکھایا‘ آج اگر ہم دونوں بھائی بہن کسی قابل ہیں تو صرف آپ کی وجہ سے۔‘‘
اماں: ’’بس بیٹا! ہم نے رزق حلال سے آپ دونوں کو پالا ہے‘ آپ اور آپ کی بہن آنے والی زندگی میں ہمیشہ خوش رہیں‘ بس ہماری ایک ہی خواہش ہے کہ اللہ آپ دونوں کو نیک زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام سے بچائے رکھے۔’’
…٭…
اسد کو کی کوشش سے ملازمت مل گئی‘ بہن کی شادی کے بعد اماں کو اسد کی فکر لاحق ہوگئی کہ اب اس کی شادی کا فریضہ بھی ادا کردے۔
…٭…
عاتکہ کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا‘ کہیں اس کی اسد سے ملاقات ہوئی تو وہ اسد کو پسند کرنے لگی۔ اسد نے اسے بتایا کہ وہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے‘ وہ اسے اس کی خواہش کے مطابق خوشیاں نہیں دے سکے گا۔ لیکن نہ جانے عاتکہ نے اسد میں کیا دیکھا تھا کہ اس نے اپنے والدین کو بھی اس شادی پر راضی کر لیا۔
…٭…
عاتکہ: اسد ہم ہنی مون پر کب جائیں گے؟
اسد: ہنی مون؟‘ عاتکہ تمہیں میرے مالی حالات کے بارے میں سب معلوم ہے‘ ابھی تھوڑے عرصے قبل ہی میں نے بہن کی شادی کی پھر اپنی شادی… ابھی تو میں وہ قرض بھی بھی چکا نہیں سکا ہوں جو میں نے شادی پر آفس سے لیا تھا‘ ہنی مون… یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
عاتکہ: ’’آپ کی ملازمت تو بہت اچھی ہے‘ آپ کے ساتھ کام کرنے والے تو بڑے عیش سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ (کن اَنکھیوں سے اسد کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’اور آپ…‘‘
اسد: ’’تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘
عاتکہ: ’’آپ میری بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ خالی خولی تنخواہ سے بندہ ترقی نہیں کر سکتا اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی ایمان داری سے لوگ آپ کو ٹکنے دیںگے… یہاں تو سارا سسٹم اسی طرح ہی چلتا ہے۔‘‘
عاتکہ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی‘ ان تین سال کی ملازمت میں بارہا ایسے مواقع آئے تھے لیکن ہمیشہ اماں کی نصیحت سے اس نے اپنا ہاتھ روک دیا تھا۔
عاتکہ: اسد کیا سوچنے لگے… دیکھو دو‘ تین مہینے بعد ہمارے گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہونے والا ہے‘ بچے کی اچھی تعلیم و تربیت‘ ان سب کے لیے ہمیں زائد آمدنی کی ضرورت ہوگی۔ آج کل اُس کی عزت ہے جس کے پاس اچھا گھر‘ گاڑی وغیرہ ہو‘ ہمیں اپنا نہیں آنے والے بچے کے لیے سوچنا چاہیے۔
اس کے ہاتھ میں یہ ’’اضافی کمائی‘‘ آئی تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے اماں کی نصیحتیں کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگیں کہ ’’حرام سے بچنا‘‘ پھر اس نے اپنے دل کو تسلی دی کہ میں کوئی غلط کام تو نہیں کر رہا‘ سلیم صاحب کا جائز کام تھا‘ چھ مہینوں سے اس کی فائل پھنسی ہوئی تھی اس کا کام بھی ہو گیا اور میرا بھی۔
عاتکہ تو شوہر کی اس پہلی ’’کمائی‘‘ سے باغ باغ ہوگئی‘ اس نے آنے والے بچے کے لیے دل کھول کر خریداری کی‘ اماں کے پوچھنے پر اسد نے صرف اتنا کہا کہ اسے بونس ملا تھا۔
اب یہ بونس والا سلسلہ چل پڑا‘ شروع میں تو اسد کو اس کمائی پر بڑی بے چینی ہوتی‘ رات میں نیند بھی نہیں آتی لیکن اب وہ کافی حد تک ’’بہل‘‘ گیا تھا لیکن اکثر اماں اسے کوئی اسی قسم کی نصیحت کرتیں تو وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا۔ اماں کے مرنے پر سلسلہ بھی گم گیا‘ نیا گھر‘ گاڑی‘ دونوں بچے شہر کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہ شان و شوکت دیکھ کر پاس پڑوس‘ رشتے داروں میں اس کی عزت بڑھ گئی خصوصاً سسرال میں اب سب اسے اپنے ’’برابر‘‘ سمجھنے لگے اور عزت سے نوازنے لگے۔ عاتکہ کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے‘ وہ اپنی مما سے کہتی مما اسد سے شادی کا میرا فیصلہ غلط نہ تھا۔ مما بھی اسے سراہتی۔ گھر میں روپے پیسے کی فراوانی ہوئی تو ہر فرد کے انداز ہی بدل گئے۔ عاتکہ نے کلب جوائن کر لیا جہاں اکثر و بیشتر خواتین کی پارٹیوں میں شرکت کرنا اس کا معمول بن گیا۔ اسد کو بھی کچھ ’’ایسے دوست‘‘ مل گئے جہاں وہ اپنی شامیں گزارنے لگا یعنی دنیا کی ’’چکا چوند‘‘ میں وہ گرفتار ہوتا جارہا تھا۔ غربت و افلاس کی اس زندگی کا خیال آتا تو فوراً جھٹک دیتا۔ ہاں اماںکی نصیحتیں اکثر و بیشتر ذہن کے دریچوں پر دستک دیتی رہتی جن کی آواز بھی اب مدھم ہوتی جارہی تھی۔ بابا اس کے رنگ ڈھنگ میں نمایاں فرق کو محسوس کر رہے تھے۔ کبھی کبھار و کچھ لب کشائی کر دیتے جس پر عاتکہ کی پیشانی پر بل آجاتے۔ آخر بابا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے جو اس گھر کا مضبوط سائبان اور دعا کا دروازہ تھے۔
…٭…
آج نیو ائر (سالِ نو) کی رنگا رنگ پارٹی اپنی عروج پر تھی‘ جام پر جام لنڈھائے جا رہے تھے۔ ابھی تک اسد نے اس حرام چیز کو خود سے دور رکھا تھا لیکن کیچڑ میں رہ کر گندگی سے اپنا دامن بچانا ناگزیر ہوتا ہے۔ لہٰذا رات گئے وہ مدہوشی میں لڑکھڑاتا اپنی گاڑی تک پہنچا۔ باقی دوست تو اس لت کے عادی تھے لیکن اسد کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے وہ گاڑی پر قابو نہ پا سکا۔
…٭…
عاتکہ اسپتال پہنچی تو اسد نیم بے ہوشی میں‘ اس نے مدہم آنکھوں کے پٹ سے عاتکہ کو دیکھا پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
ڈاکٹر: آپ کے شوہر کو گردن میں کافی چوٹ اور سر میں بھی شدید چوٹ ہے‘ تکلیف بہت زیادہ تھی جب تک رپورٹ نہیں آجاتی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ فی الحال آرام کے لیے انہیں کچھ دوائیاں دی ہیں۔
…٭…
یہ… یہ میں کہاں ہوں اور یہ سانپ بچھو… مجھے بچائو کوئی ہے… لیکن بڑے سانپ نے اسے مکمل گرفت میں لے لیا اس سے سانس بھی نہیں لی جارہی تھی سانپ کی گرفت سی اس کی پسلیاں ٹوٹ رہی تھیں‘ تکلیف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سانپ کی گرفت ڈھیلی ہوئی تو بے شمار بچھو اور کیڑوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کا جسم ان کے ڈنگ اور کاٹنے سے لہو لہان ہو رہا تھا۔ سانپ‘ بچھو‘ کیڑے مکوڑے جسم میں اٹھنے والی ٹیسیں اور ان کیڑوں سے اٹھنے والی ناگوار بدبو… بچائو… بچائو اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا ہے‘ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا… وہ زور زور سے چیخنے لگا کوئی ہے… کوئی ہے… عاتکہ! اماں‘ بابا…! یہ سب مجھے تنہا چھوڑ کر کہاں چلے گئے… وہ زور سے چیخا… بچائو… بچائو… (اس کی نیم بے ہوشی اور چیخنے پر عاتکہ گھبرا گئی)
عاتکہ: ڈاکٹر… ڈاکٹر… نرس دیکھیں انہیں شاید ہوش آرہا ہے۔
ڈاکٹر نے اسد کا بلیڈ پریشر چیک کیا اور نرس کو انجکشن لگانے کے لیے کہا۔
عاتکہ: ڈاکٹر صاحب! سب ٹھیک ہے ناں…؟ یہ اتنی زور سے چیخ رہے تھے کیا ہوا؟
ڈاکٹر: ابھی کچھ دیر میں ان کی رپورٹ آجائے گئی فی الحال ہم نے نیند کا انجکشن دے دیا… انجکشن سے اسد دوبارہ نیند کی وادی میں پہنچ گیا جہاں اب بچپن کی یادیں ایک فلم کی طرح اس کے سامنے تھیں۔
اٹھو اسد بیٹا نماز پڑھو‘ فجر کا وقت نکل جائے گا۔
اماں بہت نیند آرہی ہے‘ بعد میں پڑھ لوں گا… آج تو اسکول کی بھی چھٹی ہے۔
نہیں بیٹا نیند بعد میں کر لینا نماز نیند سے بہتر ہے… اٹھو میری جان۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اسد نماز کے لیے اٹھ گیا… لیکن وہ تھوڑا اماںسے ناراض لگ رہا تھا جسے اماں نے بھی محسوس کیا۔
…٭…
اسد: اماں… بابا…! یہ دیکھیں میں پوری کلاس میں اوّل آیا ہوں۔
بابا: ماشاء اللہ… ماشاء اللہ۔
اماں نے بھی آگے بڑھ کر اسد کو اپنی بانہوں میں لے لیا… بیٹا الحمدللہ اب دو نفل شکرانے کا پڑھ لینا۔ میں بھی شکرانے کے نفل پڑھ لوں۔
اماںکی یہ عادت تھی دونوں بھائی بہن ہمیشہ امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوتے تھے تو وہ فوراً شکرانے کی نفل پڑھتیں۔
نورین (اسد کی بہن): اماں آپ ہر خوشی کے موقع پر شکرانے کی نفل پڑھتی ہیں؟
ماں: بیٹا یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے‘ اور نماز تو اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے‘ بندہ جتنا نماز میں اللہ کے قریب ہو کر دعا اور استغفار کرتا ہی تو فوراً اس کی فریاد بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو جاتی ہیں… اور ویسے بھی اللہ کا شکریہ بھی تو ادا کرنا ہے کہ اس نے ہمیں اتنا نوازاہے۔ (دونوں بچوں کی طرف دیکھ کر) اللہ نے دو اتنے پیارے پیارے‘ نیک‘ ذہین بچے دیے ہیں رزق حلال دیا‘ صحت دی ہے… ہے ناں اللہ کی مہربانی۔
پھر اس کے کانوں میں آواز گونجی… اسد نماز پڑھ لو… اٹھو بیٹا!
ہاں… ہاں… اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں… سامنے کرسی پر اس کا سولہ سالہ بیٹا بیٹھا تھا۔ باپ کو آنکھیں کھولتے دیکھ کر فوراً اٹھ کر پلنگ کے قریب آیا… بابا…! آپ کیسے ہیں؟
اسد نے ہلکے سے مسکراکر کہاں ہاں؟ وہ شاید خواب دیکھ رہاتھا۔ اماں‘ نماز… پھر اسے یاد آیا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا‘ اس نے چاروں طرف دیکھا… میں… میں اسپتال میں؟ عاتکہ ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ شوہر کو جاگتے دیکھا تو خوش ہوگئی۔ اسد آپ بالکل ٹھیک ہیں‘ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کی ساری رپورٹ صحیح ہیں۔
ڈاکٹر صاحب: جی اسد صاحب! ماشاء اللہ آپ کی رپورٹ صحیح ہیں جسم میں کچھ چوٹیں آئی ہیں جسے صحیح ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔
ڈاکٹر کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں اتنا گناہ گار بندہ اور اللہ کا اتنا کرم… بے شک اماں صحیح کہتی تھیں وہ اللہ تو ستر مائوں سے زیادہ مہربان ہے جو اپنے بندے کے نہ صرف گناہ معاف کرتا ہے بلکہ اسے سنبھلنے کا موقع بھی دیتا ہے۔
…٭…
عاتکہ کی آنکھ کھلی تو اسد کو بستر پر نہ پا کر پریشان ہوگئی‘ یہ اسد کہاں گئے؟ ابھی انہیں ڈاکٹر نے مکمل آرام کرنے کو کہا ہے۔ پلنگ سے اٹھ کر وہ لائونج میں آئی سامنے اسد جائے نماز پر بیٹھا تھا‘ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب اور ہونٹوں پر مدہم سرگوشیاں اور لرزتے ہونٹ… عاتکہ نے ان اٹھارہ‘ انیس سال میں اسد کو اس طرح نہیں دیکھا تھا‘ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی… وہ اس کے قریب گئی۔ اسد کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ’’اے رب! معاف کردے‘ اماں‘ ابا نے تو میری بہترین تربیت کی تھی لیکن میں بھٹک گیا… تجھ سے دور ہوگیا‘ گناہوں کی دلدل میں اترتا گیا‘ آخرت کے انجام سے غافل ہوکر… اے اللہ میرے رسولؐ کا تو فرمان ہے کہ اللہ اپنے بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ جب اس کا بندہ کہتا ہے کہ ایاللہ! میرے گناہ معاف کر دے‘ بخش دے کیوں کہ تیرے سوا کوئی اور ذات نہیں ہے جوگناہوں کو معاف کر دے…‘‘
اس کی بڑھتی ہوئی سسکیوں پر عاتکہ گھبرا گئی کہ اسد کی طبیعت نہ بگڑ جائے‘ اس نے ہلکے سے اس کے گندھے پر ہاتھ رکھا۔ اسد نے سیلاب بہاتی آنکھوںکو کھولا۔
اسد پلیز آپ کی طبیعت خراب ہے‘ آپ اتنی دیر سے یہاں بیٹھے ہیں‘ آئیں تھوڑی دیر آرام کریں۔
اسد: عاتکہ ابھی تو لمبی غفلت کی نیند سے بیدار ہوا ہوں…
واقعی اس حادثے نے اسد کو بیدار کر دیا تھا۔ اماں نے اس کے ذہن و دل میں تربیت کا جو بیج بویا تھا شاید اسی کا اثر تھا کہ اللہ رب العزت نے اس حادثے کے ذریعے اسے اپنے قریب کرکے اسے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا۔
سچ کہا ہے کسی نے کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔

حصہ