قیصروکسریٰ قسط(57)

232

اہلِ عرب نے آج تک کسی ایسے بے بس آدمی کی آقائی قبول نہیں کی تھی جس کے ہاتھ فتوحات اور کامرانیوں کے ظاہری اسباب سے خالی ہوں اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ جب عرب کی گلیوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ جب اُس کے راستے میں کانٹے بچھائے جائیں گے اور جب اُس کے لیے کعبے کے اندر داخل ہونا ناممکن بنادیا جائے گا تو اُس کے پیرو مایوس اور بددل ہو کر اُس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اور شاید اپنی بے بسی اور اپنے ساتھیوں کے آلام و مصائب کا احساس ہی اُسے اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور کردے گا کہ مکہ کی سنگلاخ زمین میں ایک نئے دین کا پودا برگ و بار نہیں لاسکتا۔ لیکن ہماری تمام تدبیروں کا اثر الٹاہوا ہے۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مرعوب نہیں کرسکے۔ ہم مسلمانوں کو یہ احساس دلانے سے قاصر رہے ہیں کہ تمہارا نبیؐ اُن وسائل سے محروم ہے جو ایک راہنما کی فتح و کامرانی کی ضمانت ہوسکتے ہیں۔
میرے دوستو اور بزرگو! ہم اپنے خاندانوں اور قبیلوں کی عزت کے لیے سینہ سپر ہوا کرتے تھے۔ ہم اپنے گھروں، اپنے مال و دولت، اپنے چشموں اور اپنی چراگاہوں کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگایا کرتے تھے۔ ہم اپنے حریفوں کو مغلوب کرنے اور انہیں لوٹنے کے لیے جنگ کرتے تھے۔ ہم یہ ثابت کرنے کے لیے اپنا خون بہایا کرتے تھے کہ اس زمین پر ہم سے زیادہ کسی اور کو مغرور و متکبر ہونے کا حق نہیں۔ دنیا میں کسی کو ہمارے افعال، ہماری قبائلی رسوم اور ہمارے مذہبی عقائد پر نکتہ چینی کا حق نہ تھا۔ ہم صحرا کی آندھیوں کی طرح آزاد تھے۔
عبدالمطلب کا پوتا اور عبداللہ کا بیٹا ہمیں زندگی کے نئے آداب سکھانا چاہتا ہے۔ وہ ہماری قبائلی زندگی کی تمام آزادیاں، تمام مسرتیں اور تمام راحتیں سلب کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے تا کہ ہمارا خاندانی غرور خاک میں مل جائے اور ہم دوسرے قبائل پر برتری کا دعویٰ نہ کرسکیں۔ وہ ہمیں صلح اور امن کی دعوت دیتا ہے تا کہ ہماری تلوار زنگ آلود اور ہمارا خون سرد ہوجائے اور جب ہمارے حریف ہمیں مغلوب کرنا چاہیں تو ہمارے اندر مقابلے کی سکت نہ ہو۔ وہ صبر اور قناعت کی تعلیم دیتا ہے تا کہ ہم بھی اُس کی طرح تہی دست ہو جائیں۔ وہ ہمارے بتوں کو جھٹلا کر توحید کا درس دیتا ہے تا کہ ہم اُس کے ایک خدا پر ایمان لے آئیں۔ اور اُسے اِس ایک خدا کے نبیؐ کی حیثیت سے اپنا آقا مان لیں۔ اب تک ہم نے ان باتوں کو مذاق سے زیادہ وقعت نہیں دی لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ اِس صورت حال سے نبٹنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اب تک ہم نے جو اقدامات کیے ہیں وہ ناکافی تھے‘‘۔
عقبہ بن ربیعہ نے کہا۔ ’’تم یہ تسلیم کرچکے ہو کہ تمہاری سختیاں مسلمانوں کو مرعوب یا بددل نہیں کرسکتیں۔ تم اُن کی کھال اُتار سکتے ہو لیکن اُن کی روح کی گہرائیوں سے محمدؐ کی اطاعت اور محبت کے جذبات خارج نہیں کرسکتے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ کسی کو لالچ دے سکے۔ اُس کے پاس کوئی ایسی طاقت بھی نہیں جس کے خوف یا احترام نے مفلوک الحال اور بے بس لوگوں کو اُس کی اطاعت پر مجبور کردیا ہو۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں زندگی کی وہ آسائشیں عطا نہیں کرسکتا جو تمہیں کعبے کے بتوں سے، اطاعت کے بدلے حاصل ہوتی ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ محمدؐ کے پیرو اپنے دین کے معاملے میں تمہاری نسبت کہیں زیادہ مخلص ہیں۔ انہوں نے تمہاری ہیبت اور قوت کے باوجود تمہارے کئی آدمیوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا ہے اور تم اُن کی کمزوری اور بے سروسامانی کے باوجود ان میں سے ایک کو بھی واپس نہیں لاسکے؟‘‘۔
عقبہ بن ابومعیط نے جواب دیا۔ ’’آپ کے سوال کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک جادوگر ہے اور ہم اُس کے جادو کا کوئی توڑ پیش نہیں کرسکے‘‘۔
ابوجہل نے کہا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کے جادو کا یہی توڑ ہے کہ ہم اسے قتل کردیں مجھے یقین ہے کہ اُس کی موت سے مسلمانوں کی ساری امیدیں ختم ہوجائیں گی اور ہمیں یہ زمانہ ایک خواب محسوس ہوگا‘‘۔ عقبہ ربیعہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اُس نے ولید بن مغیرہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ولید! مجھے معلوم نہیں کہ محمدؐ سچا نبی ہے یا جادوگر ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ عبدالمطلب کا پوتا ہے اور اُس کا باپ عبداللہ ہم سب سے زیادہ شریف النفس تھا۔ اُسے قتل کرنا آسان نہیں۔ اگر تمہارا بھتیجا بنو ہاشم کو بے حمیت سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ اگر تم نے مجھے مشورے کے لیے بلایا ہے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے ابوطالب کے سامنے پیش کرنا چاہیے، وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا چچا ہے اور بنو ہاشم پر اُس کا بہت اثر ہے۔ اگر ہم نے اُسے اپنا ہم خیال بنالیا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے نبٹنا زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ اگر قریش کے رئوسا ابوطالب کے پاس کوئی وفد بھیجنے پر آمادہ ہوں تو میں اُس کا ساتھ دینے کو تیار ہوں لیکن جہاں تک میرا بس چلے گا میں اپنے خاندان کے کسی فرد کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خون سے ہاتھ رنگنے کی اجازت نہیں دوں گا‘‘۔
ولید نے جواب دیا۔ ’’مجھے آپ کی تجویز سے پورا اتفاق ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سردار ان قریش کی تائید کے بغیر ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے‘‘۔
ابی بن خلف ہانپتا ہوا کمرے کے اندر داخل ہوا اور اُس نے کسی تمہید کے بغیر بلند آواز میں کہا۔ بھائیو! آپ کو مبارک ہو میں ابوبکرؓ سے دس کی بجائے سو اونٹ کی شرط بدآیا ہوں۔ ابوبکرؓ خود میرے پاس آیا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنے وعدے سے منحرف ہونے کے لیے کوئی بہانہ پیش کرے گا۔ لیکن اُس نے آتے ہی کہا کہ میں نے رسول اللہ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھے بغیر تم سے شرط بدی تھی۔ لیکن جب میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ چند سال سے مراد دس سال کا عرصہ ہے یعنی پیش گوئی کے مطابق رومی دس سال کے اندر اندر ایرانیوں پر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ اس لیے تم شرط کی مدت تین سے بڑھا کر دس سال اور اونٹوں کی تعداد دس کی بجائے سو کردو۔ میں نے شرط میں یہ ترمیم منظور کرلی ہے۔ اب میں تین کی بجائے دس سال کے بعد ابوبکرؓ سے شرط جیتنے کی خوشی میں آپ کے لیے ایک شاندار دعوت کا انتظام کروں گا‘‘۔
ابوجہل نے کہا۔ ’’ابوبکرؓ کو اِس بات کا یقین ہے کہ دس سال تک عرب میں کسی مسلمان کا وجود باقی رہے گا؟‘‘۔
ابی بن خلف نے جواب دیا۔ ’’بھائی! ابوبکرؓ تو یہ کہتا تھا کہ اسی پیش گوئی کے مطابق جہاں دس سال کے اندر اندر رومی ایرانیوں پر فتح حاصل کریں گے وہاں مسلمانوں کو بھی ایک شاندار فتح حاصل ہوگی‘‘۔
ولید بن مغیرہ نے پوچھا۔ ’’شرط بدتے وقت تم نے کسی کو گواہ بنایا تھا؟‘‘۔
ابی بن خلف نے جواب دیا۔ ’’مجھے گواہ تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی، ابوبکرؓ بذاتِ خود جگہ جگہ یہ اعلان کررہا ہے کہ میں نے یہ شرط بدی ہے‘‘۔
ابوسفیان نے کہا۔ ’’میری رائے میں ہمیں زیادہ جوش و خروش سے اس خبر کی تشہیر کرنی چاہیے تا کہ ابوبکرؓ کے لیے منحرف ہونے کا کوئی راستہ باقی نہ رہے‘‘۔
ولید بن مغیرہ نے کہا۔ ’’میرے خیال میں یہ کام مشکل نہیں ہمیں صرف حج اور عکاظ کے میلے میں چندبار اعلان کرنے کی ضرورت ہے اِس کے بعد یہ خبر پورے عرب میں مشہور ہوجائے گی‘‘۔
ابوجہل نے بگڑ کر کہا۔ ’’سردارانِ قریش تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ کیا ہم دس سال انگاروں پر لوٹ کر روم و ایران کی جنگ کے نتائج کا انتظار کریں گے؟۔ اور اس عرصے میں عبدالمطلب کے پوتے کو ہمارے بھائیوں، دوستوں اور عزیزوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کی اجازت ہوگی؟۔ کیا ہم اپنے معبودوں کی تضحیک برداشت کرتے رہیں گے۔ کیا ہم ایک ایسے دشمن کی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں گے جو اپنی فتح پر یقین رکھتا ہو۔ تم دیکھ رہے ہو کہ مسلمانوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اس دین کے باعث ہماری لونڈیاں اور غلام بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہیں؟ کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو چند سال اور اس بات کی اجازت دو گے کہ وہ اخوت و مساوات کا درس دے کر پورے عرب میں غلاموں، مفلسوں اور ناداروں کو ہمارے دوش بدوش کھڑا کردے؟‘‘۔
ایک رئیس نے کہا۔ ’’ہبل کی قسم! مجھے اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ ہم چند مسلمانوںکو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ اُن کا حبشہ کی طرف فرار ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے لیے اب تک ہم نے جو اقدامات کیے ہیں وہ کافی نہیں۔ لیکن ہشام کے بیٹے کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا ترکش خالی ہوچکا ہے۔ ابھی تو ہم نے ابتدا بھی نہیں کی اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اِس مسئلے پر سنجیدہ ہوجائیں گے تو ان لوگوں کو روم و ایران کے مسائل کے متعلق سوچنے کی فرصت نہیں ملے گی۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مسئلہ صرف غلاموں اور ادنیٰ حیثیت کے لوگوں کا مسئلہ ہی نہیں۔ اب چند بااثر لوگ بھی اُن میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں اُن کے خاندانوں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہمیں ان کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے پہلے انہیں سمجھا بجھا کر واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ نہ مانیں تو پھر ہمیں اُن کے رشتہ داروں سے یہ اطمینان حاصل کرلینا چاہیے کہ یا تو وہ ان کے خلاف ہمارا ساتھ دیں گے۔ ورنہ غیر جانبدار رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے خاندانوں کی اعانت سے مایوس ہونے کے بعد اُن کے حوصلے زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے۔ پھر اگر تصادم کی صورت پیش آئی تو ہم انہیں ہر وقت کچل سکتے ہیں‘‘۔
حاضرین مجلس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔
یروشلم کی فتح کے چند ماہ بعد غزہ کے سوا شام کے تمام علاقے ایرانیوں کے قبضے میں آچکے تھے۔ رومی لشکر کے بیش تر دستے جو مختلف محاذوں سے شکست کھا کر بھاگے تھے، غزہ کی محافظ فوج میں شامل ہوچکے تھے اور روم کا جنگی بیڑا سمندر کے راستے انہیں رسد و کمک پہنچا رہا تھا۔ قیصر کی فوج غیر متوقع عزم و استقلال کا مظاہرہ کررہی تھی اور اس اہم قلعے پر قبضہ کرنے کے لیے ایرانیوں کی متعدد کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ لیکن جب پرویز نے اپنے لشکر کے ایک حصے کو صحرائے سینا کے راستے وادیٔ نیل کی طرف بڑھنے کا حکم دیا تو روم کے جنگی بیڑے کو غزہ کی بجائے اسکندریہ کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی پڑی۔ اسکندریہ مصر کا دروازہ تھا اور اپنی فوجی، سیاسی اور مذہبی اہمیت کے لحاظ سے انطاکیہ اور قسطنطنیہ کے سوا رومی سلطنت کا کوئی اور شہر اس کا ہم پلہ نہ تھا۔ شام اور فلسطین سے بھاگنے والے ہزاروں متمول اور بااثر لوگ وہاں پہنچ چکے تھے اور غزہ کی محافظ فوج کے بڑے بڑے عہدہ داروں نے بھی اپنے بال بچوں کو وہاں بھیج دیا تھا۔ بحری بیڑے کی اعانت سے محروم ہونے کے بعد اہل غزہ کے حوصلے ٹوٹ گئے اور ایرانیوں نے چند پے درپے حملوں کے بعد شام کے اس آخری حصار پر بھی قبضہ کرلیا۔
اس کے بعد ایرانی فوجیں وادیٔ نیل کی اُن قدیم گزرگاہوں کو پامال کررہی تھیں جن پر چل کر نف اور جیزہ کے اہرام میں ابدی نیند سونے والے فراعنہ کے لشکر بارہا شام و فلسطین کی بستیوں کو آگ اور خون کے جہنم زادوں میں جھونک چکے تھے۔
عاصم مقدمتہ الجیش کے عرب دستوں کے سالار کی حیثیت سے غیر معمولی شہرت حاصل کرچکا تھا۔ ان بدخصلت انسانوں سے جو صرف لوٹ مار اور قتل و غارت کے شوق میں ایرانیوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے، کسی ضبط و نظم کی پابندی کروانا آسان نہ تھا۔ لیکن عاصم میں ایک فوجی رہنما کی تمام صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اپنی جرأت اور بہادری کے باعث وہ کئی میدانوں میں داد و تحسین حاصل کرچکا تھا اور عرب موت کو کھیل سمجھنے والے رہنما کا حکم ماننا جانتے تھے۔ غزہ کی فتح کے بعد حابس کے علاوہ کئی اور رئوسا اس اطمینان کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جاچکے تھے کہ اُن کے سپاہیوں کی قیادت اور دیکھ بھال کے لیے ایک فرض شناس رہنما اور ایک قابل اعتماد دوست موجود ہے۔
(جاری ہے)

حصہ