عید مبارک ،خوشیاں مبارک

337

اسے ساحل پر کھڑے کتنی ہی دیر گزر چکی تھی، ہر بار ایک زوردار لہر آکر ساحلی پتھروں سے ٹکراتی اور ٹوٹ کر، بکھر کر واپس لوٹ جاتی،کوئی یہ اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کے اندر اٹھنے والی لہریں ان موجوں سے کہیں زیادہ سر پٹخ رہی تھیں، وہ خود سے لڑ رہی تھی‘ ذھن میں آنے والی ہر یاد اضطراب بن کر اس کے پورے وجود کو اٹھا پٹخ کر رہی تھی جیسے وہ ساحل کو چھوڑ کر بیچ منجدھار میں آپھنسی ہو…وہ تھک کر قریب ہی ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی۔
’’مما!مما!‘‘ ایک چھوٹی بچی کی تیز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور وہ بے ساختہ ’’ماریہ…ماریہ!‘‘ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ قریب ہی ایک چھوٹی بچی ساحل پر تیزی سے آنے والی ایک لہر سے ڈر کر اپنی ماں سے لپٹ گئی تھی۔
ایک ساعت کو وہ پھر اپنے حال سے ماضی میں پہنچ گئی۔
’’مما!مما…!‘‘ اس کی بیٹی ماریہ اسے پکار رہی تھی جس کی رنگ برنگی گیند ساحل پر آنے والی ایک لہر کا شکار ہوگئی تھی اور وہ بے بسی سے اپنی مما کو آواز لگانے پر مجبور ہوگئی۔
’’کوئی بات نہیں جان ! ابھی آپ کے بابا آپ کو لا دیتے ہیں۔‘‘ عاشر نے اپنی لاڈلی کو پیار کیا اور جلد ہی ان لہروں سے اپنی بیٹی کا کھلونا چھین لایا۔
’’بابا! میرے پیارے بابا…‘‘ وہ عاشر کی گود میں چڑھی اور گیند اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی، عاشر نے اس کے سنہرے بال سمیٹتے اس کے سر پر بوسہ دیا اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر بابا کا شہزادہ کہتے ثانیہ کی گود میں لیٹے حاشر کو بھی چوم ڈالا۔
منظر کتنا مکمل تھا… وہ اس کا ہاتھ تھامے اور ماریہ کو گود میں چڑھائے ڈوبتے سورج کے ساتھ تصویر بنوا رہا تھا، وہی تصویر جو آج بھی ان کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر موجود تھی۔
ایک اور تند و تیز لہر آئی اور پتھر سے ٹکراتی ثانیہ کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو مزید بھگو گئی، وہ ایک دم چونک اٹھی۔ سورج ڈوبنے کے قریب تھا اور وہ تنہا تھی اُس نے اپنے آنسوؤں اور پانی سے بھیگے چہرے کو صاف کیا اور واپسی کی جانب قدم بڑھا دیے۔
…٭…
وہ دو ماہ سے اپنے والدین کے گھر پر تھی، ماریہ اور حاشر کو اس نے عاشر کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا اور اب عدالتی کارروائی کے بعد خلع کا نوٹس عاشر کو بھیجا جا چکا تھا۔
وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی، نازوں سے پلی تھی گھر کا ماحول بہت زیادہ آزاد نہ تھا مگر پابندیوں والا بھی نہ تھا۔ خوب صورت تو وہ تھی ہی مگر ذہانت، خود اعتمادی اور اعلیٰ تعلیم نے اس کی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا۔ کالج،یونیورسٹی اور آفس‘ ہر جگہ اُس نے خود کو منوایا تھا۔ اسی دوران اس کے کئی اچھے رشتے آئے مگر والدین کی نظر ِ انتخاب عاشر پر پڑی اور وہ بھی چند ملاقاتوں میں اس کی گرویدہ ہوگئی۔ اگر خوب صورتی اور تعلیم میں وہ اس کا ہم پلہ تھا تو مالی لحاظ سے بھی کم نہ تھا۔ ہر ایک نے اس جوڑے کو سراہا… پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ چاند سورج کی جوڑی پانچ سال بعد ہی ٹوٹنے کو تھی؟
فون کی گھنٹی بج رہی تھی‘ اُس نے حاشر کو کپڑے تبدیل کروا کر کھلونوں کے درمیان بٹھایا اور آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا۔
’’کیا بات ہے جب تمہیں فون کرو یا تو اٹھاتی نہیں یا کسی کام میں مصروف ہی ملتی ہو۔‘‘ دوسری جانب امی تھیں۔
’’بس امی اب فارغ ہوں آپ بات کریں۔‘‘ اس نے مردنی آواز میں کہا۔
’’کیا ہوا؟ یہ آواز کو کیا ہوا؟طبیعت خراب ہے یا تھک گئی ہو؟ کسی نے کچھ کہا تو نہیں ہے؟‘‘ وہ آواز سے ہی کھوج میں لگ گئیں۔
’’یہ کوئی بات ہوئی امی! میری کوئی مرضی‘ کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ گھر میں، نوکرانی کے ہوتے ہوئے نوکرانی بنا کر رکھا ہوا ہے، شوہر کی فرمائشیں پوری کروں، بچوں کو دیکھوں، گھر کے کام کروں یا ساس‘ سسر کے نخرے اٹھا کر بھی ان کی باتیں سنوں؟ میری بھی کوئی زندگی ہے، امی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ سب۔‘‘وہ فون پر اپنی ماں کے آگے سسک پڑی۔
’’اُف اللہ…! میری بچی تو ناقدرے لوگوں کے ہاتھوں میں رُل گئی۔ تمہارے ابو اور بھائی آتے ہیں تو بات کرتی ہوں اُن سے… اس لیے اتنا نازوں میں پالا تھا؟‘‘
’’امی بس اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میں اپنی مرضی سے گھر سے باہر بھی نہیں جاسکتی، اتنا پڑھ لکھ کر بھی وہی چولھا ہانڈی میں لگی ہوں، کل مجھے کمپنی سے فون آیا تھا‘ وہ بہت اصرار کر رہے تھے دوبارہ جوائن کرنے کے لیے، تنخواہ بھی زبردست ہے اور ترقی کے مواقع بھی ہیں مگر… رات کو میں نے عاشر سے بات کی تو وہ ہی تھرڈ کلاس سوچ، گھر کا کیا ہوگا؟ پورا دن باہر رہو گی تو بچے ڈسٹرب ہو جائیں گے، تمھیں کس چیز کی کمی ہے یہاں؟ بہت جھگڑا ہوا ہمارا… امی! میں نے ایسی زندگی کا تو نہیں سوچا تھا؟ میں تھک گئی ہوں‘ یہاں دَم گھٹتا ہے‘ لگتا ہے قید میں ہوں… مجھے نہیں رہنا یہاں، مجھے واپس بلالیں۔‘‘
…٭…
خلع کی در خواست کے ساتھ ہی اس نے بچے لینے کی درخواست بھی دائر کروانا چاہی تو اس کے بھائی اور امی آڑے آگئے۔ ’’ارے اس کے بچے ہیں‘ تم جہیز میں تھوڑی لے کر گئی تھیں‘ بس ذرا یہ خلع کا معاملہ ہو جائے تمھاری بہت زبر دست جگہ پر شادی کر دیں گے‘ ایک چھوڑ ہزار رشتے ہیں میری حسین و قابل بیٹی کے لیے…تم دیکھ لینا جیسا چاہتی ہو ویسی زندگی گزارو گی۔‘‘
’’امی مجھے نہیں کرنی یہ شادی وادی…اس موضوع پر کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔‘‘
بچوں کو چھوڑنے کا تصور ہی جان لیوا تھا، وہ اس کے جسم کا حصہ تھے اور عاشر انھیں دینے سے منع کر چکا تھا، ایک طرف اس کی آزادی تھی تو دوسری طرف اس کی اولاد، اس کے چاہنے والے رشتے… ہر گزرتا دن اس کے اضطراب کو بڑھا رہا تھا۔
’’میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا۔‘‘ وہ دن میں کئی بار خود کو سمجھاتی… بس کچھ دن کی بات ہے میں سیٹ ہوجاؤں گی،وہ تھک کر اپنا سر تھام لیتی۔
…٭…۔
دروازے کی گھنٹی بج رہی تھی اور ابھی تک کسی نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔ سب دروازے بند کیے دن کے اس پہر بھی سوئے ہوئے تھے۔ وہ جو لاؤنج میں صوفے میں دھنسی اپنی ہی سوچوں سے لڑ رہی تھی ناچار اُٹھ کر دروازہ کھولنے پہنچ گئی۔
’’ارے مریم…!‘‘اپنی بچپن کی دوست کو دیکھ کر اس میں ایک دم خوشی کی کیفیت در آئی۔
’’ثانیہ…ثانیہ!یہ تم ہو؟ وہ تو شکر ہے حسیب نے بتا دیا کہ تم آج کل آئی ہوئی ہو تو میں ملنے آگئی ورنہ پرسوں میری اسلام آباد واپسی ہے پھر نہ جانے کب ملنا ہوتا… یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا بیماری سے اٹھی ہو؟ یا بچے سونے نہیں دیتے؟‘‘ اس نے گلے لگتے کتنے ہی سوالات داغ ڈالے۔
’‘بس یونہی… تم اندر تو آؤ،آرام سے ساری باتیں پوچھ لینا، چائے بھی پئیں گے اور ڈھیر ساری باتیں بھی کریں گے۔‘‘
’‘خیر تو ہے؟ ایسے بول رہی ہو جیسے نہ جانے کب سے خاموش ہو کہ بولنے کا موقع ملے…چلو آؤ میں بھی فارغ ہوں بچے امی کے گھر چھوڑے ہیں اور وہ سب اپنے کزنز کے ساتھ مست ہیں، دو بیٹے ہیں جڑواں۔ اب تو آٹھویں سال میں ہیں، یاد ہے تمھاری شادی میں دونوں نے مجھے کتنا تنگ کیا تھا؟‘‘ وہ باتیں کرتی اندر آبیٹھیں۔
’’تمہارے بچے کہاں ہیں؟ کیا ابھی تک سو رہے ہیں؟‘‘ فریج سے پانی کی بوتل نکالتی ثانیہ کے ہاتھ سے ایک دم بوتل چھوٹ گئی۔
’’ارے آرام سے…لاؤ مجھے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘ اس نے بوتل اور گلاس ثانیہ کے ہاتھ سے لے کر اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
’’یہ لو‘ تم پہلے پانی پیو اور اب بتاؤ کہ کیا ہوا ہے؟ یہ کیا حال بنایا ہو ہے اپنا؟‘‘ ثانیہ جو اپنے اندر ڈھیروں گھٹن جمع کیے بیٹھی تھی ایک دم رو پڑی۔
’’ارے ارے میری پیاری دوست…‘‘ مریم نے اٹھ کر اسے گلے لگالیا۔ ثانیہ نے خود پر گزری تمام کہانی مریم کے آگے کھول کر رکھ دی۔
’’یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے ثانی جس پر اپنا گھر اور بچے چھوڑ دیے جائیں۔‘‘ ثانیہ نے حیرت سے اس کے جواب کو سنا؟
’’دیکھو! میری پیاری بہن! رشتے قربانیوں سے بنتے ہیں اور ان دنیاوی چمک دمک کے لیے اتنے قیمتی رشتوں کو چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ تم خود اقرار کر رہی ہو کہ عاشر تمہیں بے پناہ چاہتا ہے، تمہاری ہر فرمائش پوری کرتا ہے، دو خوب صورت اور ذہین بچے جن کو تمہاری عادت ہے، وہ ساس‘ سسر جو تمہیں اپنا سمجھتے ہیں‘ تبھی تم سے اپنا کوئی کام کہتے ہیں صرف اس لیے اُن سب سے منہ موڑ لینا کہ وہ تمہاری آزادی میں رکاوٹ ہیں نہایت غلط فیصلہ ہے۔ تم سوچو نقصان میں تو تم ہی رہو گی، اکیلی رہ جاؤ گی، یہ بچے بڑے ہو کر تم سے سوال کریں گے‘ تمھیں خودغرض سمجھیں گے، بتاؤ اس میں کیا کامیابی ہے؟اور کہاں سکون ہے؟‘‘
’’تمھیں اور عاشر کو بیٹھ کر افہام و تفہیم سے فیصلے کرنے چاہیئں،کہیں تم قربانی دو کہیں وہ ایثار کرے تو ہی یہ رشتے بچ سکتے ہیں اور میری پیاری دوست… محبت تو اپنے سارے فیصلے منوا لیتی ہے، یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لو۔‘‘
’’مریم! کل رات میں نے ایک خواب دیکھا تھا… میرے بچے میرے پاس آئے تھے اور جب میں نے ہاتھ بڑھا کر انہیں گود میں لینا چاہا توانھوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا…کہیں یہ خواب سچ نہ ہو جائے۔‘‘ وہ اپنے ہاتھ منہ پر رکھ کر زار وقطار رو دی۔
ان کے پیچھے اپنے کمرے کے دروازے میں بت بنی کھڑی امی بہت کچھ سن چکی تھیں، وہ بھی اپنی آواز دبائے آنسو ضبط کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ ’’یہ تو وہ باتیں تھیں جو مجھے اپنی بیٹی کو سمجھانی چاہئیں تھیں،کیا میں نے اپنی ہی بیٹی کے ساتھ زیادتی کر ڈالی؟میری بے جا حمایت و طرف داری کی وجہ سے ہی ثانی اس حال کو پہنچی ہے، کیا میں اپنی بچی کی خوشیوں کی قاتل ہوں؟ ان کے پیر بے جان ہوگئے تھے وہ وہیں دہلیز میں بیٹھ گئیں۔‘‘
مریم نے ثانیہ کو خود سے لپٹا لیا۔ ’’ثانی ابھی دیر نہیں ہوئی ہے،اچھی طرح سوچو اور درست فیصلہ کرو تم ابھی خلع کا فیصلہ واپس لے سکتی ہو… تمہاری ذرا سی قربانی تمھارے بچوں کو مستقبل کا نفسیاتی مریض بننے سے بچا سکتی ہے، تمہارے بھائی‘ بھابھیاں کب تک تمہارے نخرے اٹھائیں گے، تمہارا اصل نخرے اٹھانے والا تمہارا منتظر ہے اور اس کے والدین تمہارے والدین ہیں، بس تھوڑی سی برداشت، ایثار اور قربانی تمھاری کھوئی ہوئی خوشیاں واپس لا سکتی ہے ابھی دیر نہیں ہوئی۔‘‘
’’اٹھو یہ آنسو صاف کرو اور اچھی سی چائے پلاؤ۔‘‘ مریم نے اسے واش بیسن کی جانب دھکیلا اور دل کی گہرائیوں سے اپنی دوست کے لیے دعا کرنے لگی۔
…٭…
’’بابا ! عید آنے والی ہے… میرے کپڑے بھی نہیں آئے‘ مما بھی نہیں آئیں… اور ہمارا بکرا بھی نہیں آیا۔‘‘ ماریہ منہ پھلا کر بولی مگر عاشر خاموش رہا۔
’’بابا…!ایمن لوگوں کے گھر بھی بکرا آگیا ہے اب بس ہمارا گھر بچا ہے…‘‘ چار سالہ ماریہ نے عاشر کو اطلاع دی۔
’’عمر اور ہانا کارٹون میں تو اتتی پیاری گائے لائے ہیں قربانی کے لیے… بابا! ہماری گائے کہاں ہے؟‘‘
’’حاشر! ابھی مما نہیں ہیں ناں جو مزے مزے کے کھانے بنائیں تو اس لیے ہمارے گھر قربانی نہیں ہوگی۔‘‘ ماریہ نے اپنی طرف سے سمجھ داری کی بات کی۔
عاشر‘ جو اتنی دیر سے ان معصوموں کی توتلی زبان میں باتیں سن رہا تھا‘ ایک دَم کھڑ ا ہو گیا۔ ’’چلو پھر جلدی سے تیار ہوجاؤ، قربانی کی تیاری کریں۔‘‘
’’ابھی…؟‘‘ ماریہ نے اپنی گول گول آنکھیں گھمائیں۔
وہ دونوں اپنے بابا کے ساتھ گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ دروازے پر مما کو دیکھ کر چیخ اٹھے۔ ’’مما! مما… مما آگئیں۔‘‘گاڑی کے دروازے کھولتے دونوں نیچے کودے اور ثانیہ سے لپٹ گئے۔
’’مم… میں بچوں کو تمہارے پاس چھوڑنے ہی آرہا تھا۔‘‘ عاشر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’اور میں…‘‘ وہ دروازے پر ہی عاشر کے کندھے پر سر رکھ کر سسکنے لگی۔
’’ارے بس کرو۔‘‘ عاشر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اگلی سیٹ پر بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔
’’چلوبچو! ہم بڑی قربانی کے لیے بڑا ساجانور لینے جا رہے ہیں۔‘‘بچے خوشی سے اچھلنے لگے۔
وہ دونوں ہی قربانی کا سوچ چکے تھے اور قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ اس کے بدلے عید ملتی ہے،عظمت ملتی ہے…عید مبارک،خوشیاںمبارک۔

حصہ