طارق جمیل کے گھر مشاعرہ

174

طارق جمیل ایک علم دوست شخصیت ہیں‘ اس وقت کراچی کے ادبی منظر نامے میں طارق جمیل پوری توانائی کے ساتھ جگمگا رہے ہیں۔ یہ شاعر نہیں ہیں‘ ہ پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار خواجہ رضی حیدر نے گزشتہ ہفتے طارق جمیل کی رہائش گاہ پر عرفان ستار کے اعزاز میں منعقدہ مشاعرے میں اپنی صدارتی تقریر میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری ایک بین الاقوامی ادارہ ہے ہر ملک میں شاعری کے موضوعات الگ الگ ہوتے ہیں تاہم ہر شاعر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ مہمانِ اعزازی عرفان ستار نے کہا کہ میں معاشی ضروریات کے تحت پاکستان سے باہرمقیم ہوں ‘میں پاکستان سے بے انتہا محبت کرتا ہوں کہ اس ملک کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اس ملک کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبستان کراچی کی شاعری میں زندگی نمایاں ہیں‘ ان کے شعرائے کرام اپنے زمانے کے مسائل اجاگر کر رہے ہیں۔ آج کی نشست میں بہت اچھی شاعری پیش کی گئی ہے۔ مہمانانِ خصوصی میں فراست رضوی‘ جاوید صبا اور کاشف غائر شامل تھے جب کہ رضوان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صاحب خانہ طارق جمیل نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ معاشرے میں شعرائے کرام وہ اہم طبقہ ہے جو ہمیں مختلف راستے دکھاتا ہے۔ شاعری تو ہماری روح کی غذا ہے لیکن مزاحمتی شاعری‘ نعتیہ شاعری اور رثائی ادب کے اپنے اپنے اثرات ہیں۔ آج کی نشست انتہائی مختصر ہے آج خواجہ رضی حیدر‘ فراست رضوی‘ عرفان ستار‘ جاوید صبا‘ کاشف غائر نے اپنا کلام پیش کیا ہے‘ آئندہ ہم دوسرے شعرائے کرام کو بھی دعوت دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس کے لیے عدالتی فیصلہ آچکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اس سلسلے میں ہمیں کام کرنا ہوگا۔ فراست رضوی نے کہا کہ طارق جمیل نے اپنے گھر پر ’’مذاکرہ‘‘ شروع کیا ہے جہاں کسی ایک موضوع پر گفتگو ہوتی ہے اس عمل سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مذاکرے اور تنقیدی نشستوں کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ میں طارق جمیل کے اس اقدام کی قدر کرتا ہوں۔ جاوید صبا نے اپنے اشعار سنانے سے پہلے کہا کہ مشاعرے بھی ہماری مشرقی روایت کا حصہ ہیں‘ ہر زمانے میں یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے تاہم ان میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ امید ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی جاری رہے گی۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ اب مشاعرہ ایک انٹرٹینمنٹ پروگرام بنتا جارہا ہے۔ کراچی کے عالمی مشاعرے میلے کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ مشاعرے کی اصل روح بیدار کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

حصہ