بورس استعفیٰ اور مغربی مرعوبیت

234

پاکستان سمیت عالمی سطح پر برطانوی استعمار کے موجودہ سرخیل یعنی وزیر اعظم بورس جانسن کے استعفیٰ کی خبر سوشل میڈیا پر گرم رہی۔بورس جانسن پر کرپشن سمیت سیاسی انتشار کے الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بورس نے کسی بیرونی سازش کا ذکر نہیں کیا، خود ہی شکست مان لی۔ الزامات میں صحت کی عدم سہولیات جس کی وجہ سے شہریوںکی اموات اور اس کے ایک وزیر کرس پنکچر کی نشہ میں کی گئی کچھ حرکات ،سیکریٹری صحت کے استعفیٰ اور خود بورس پر کورونا لاک ڈاؤن پابندیوں پرعمل نہ کرنے کا مدعا اہمیت کا حامل رہا۔پچھلے سال کورونا وائرس کی پابندیوں کے دوران برطانوی وزیر صحت نے اپنے ہی دفتر میں خاتون ساتھی کے ساتھ سماجی فاصلے کے بغیر بوسہ لے لیا ، جو کہ ان کے اپنے ہی دفتر کے سی سی ٹی وی میں کچھ دیر محفوظ رہا اور بعد ازاں عوامی دلچسپی کا باعث بن گیا۔ یوں وزیر کورونا کی پابندیاں نہ اپنانے کی وجہ سے مستعفی ہوگئے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ 2020-21میں برطانیہ میں کیسی سخت پابندیاں تھیں۔13 نومبر2020 کو بورس جانسن نے خود اپنے ہی گھر کی تقریب میں اپنی بنائی پابندیوں کو نظر انداز کیا جس پر تحقیقات ہوئی ، سو گرے رپورٹ آئی ، یوں وہ پہلے برطانوی وزیر اعظم کہلائےجس کو جرمانہ ہوا۔ بات یہاں نہ ختم ہوئی ، برطانوی جریدے گارجین نے امسال ایک بڑی تحقیق مکمل کی کوئی ڈیرھ ہزار خاندان اور 1592کلینکل حادثات کی تفصیلات پر۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئی 201 بچے اور 9 مائیں بہتر سہولیات ہونے کی وجہ سے بچ سکتی تھیں ۔مزے کی بات یہ کہ تمام میڈیا عوامی دباؤ اور پارلیمنٹ کا دباؤ رپورٹ کر رہا ہے استعفیٰ کی وجہ مگر کوئی ہمت نہیں رکھتا یہ بتانے کی کہ محض ڈھائی سال میں یہ دباؤ کیوں پیدا ہوگیا؟لوگ ظاہر کو دیکھتے ہیں، کوئی اس کو پاکستان سے جوڑ رہا ہے اور کوئی پاکستانی نظام سیاست سے ، برطانیہ کو دلی طور پر آقا سمجھنے اور مغرب سے مرعوب زدہ لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ دیکھوکیسے زبردست لوگ ہیں، کیا اعلیٰ تہذیب ہے؟مگر کوئی یہ سمجھنے کوتیار ہی نہیں کہ دونوں تہذیبوں کا تصور حیات ایک دوسرے سےمتصادم ہے ۔نبی کریم ﷺ کی ایک دعا یہ بھی تھی کہ ’اے اللہ ،مجھے چیزیں اسی طرح دِکھا جیسی ان کی حقیقت ہے۔‘ یہ دعا اس وقت بھی مانگی جا رہی تھی جب بظاہر کوئی سائیکولوجیکل فاصلے نہیں تھے ۔ مطلب جیسا کہ آپ ابھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ ائر کنڈیشن ، گاڑیوں ، فیکٹری ، سگریٹ کا دھواں اوزون لیئر اور ہمارے پھیپھڑےتباہ کر رہا ہے، آپ یہ سب اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ آپ کے سامنے کوئی فوری نتیجہ نہیں ہوتا ،جو کچھ ہوتا ہے بعدمیں رونما ہوتا ہے۔اس کو سائڈ ایفیکٹس کا نفسیاتی فاصلہ کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سائنسی و ٹیکنالوجی والی چیزیں جب ایجاد ہوتی ہیں تو صرف اس کے ایک دائرے سے باخبر رکھاجاتا ہے باقیوں سے نہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ15-10قبل آپ کے گھر میں سب پیلے رنگ کے بلب لگتے تھے پھر اچانک پتا چلا کہ یہ تو بہت نقصان دہ ہیں اور یہ سب بند ہوگئے اور سفید بلبوں کی نئی سے نئی ورائٹی آگئ۔کسی میں ہمت نہیں یہ سوال کرنے کی کہ اگر نقصان دہ تھے تو پہلے کیوں نہ بتایا۔یہی حال بناسپتی گھی کا بھی تھا جب پاکستان نے بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ، مگر دیکھ لیں کیا حال ہے بناسپتی گھی سے بنے فرنچ فرائز ، سموسوں ،پراٹھوںاورپوریوں کا۔اس کی مثال یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک مچھلی یا سمندری مخلوق کے لیے پانی اور باقی تمام مخلوق کے لیے پانی کودیکھنے کا نظریہ بالکل الگ ہوگا۔ جس نے پانی میں ہی آنکھ کھولی ہو دن رات وہیں رہتی بستی ہو تو اس کی نفسیات بھی پانی کے مطابق ڈھل جاتی ہیں۔ بنسبت ان تمام کے جو پانی سے باہر ہوں۔جدید مغربی تہذیب مکمل نظریہ حیات کی بنیاد پر بنی اور استعمار کی صورت دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی۔آج کی نسل وہ مچھلی ہے جس کے لیے مغربی تہذیب اُس پانی کی مانند ہے جس میں اس نے آنکھ کھولی اور مستقل پانی کو بطور قدرتی، نظام حیات سمجھ کر قبول کر رہی ہے، اس کو مغرب بدیہی یا فطری لگنے لگتا ہے۔اس کو ایسا ہی لگتا ہے کہ پہلے انسان یہ کرتا ، پھر ایسا ہوا ، پھر ایسا ہوا بعد میں یہ کرنے لگااور اب یہ کر رہا ہے ، یہ ٹیکنالوجی پروگریسکو دیکھ کر ان سب کو وہ فطری عمل قرار دےکر، ترقی کو فار گرانٹڈ لیتا ہے ۔ اس لیے جب فطری مان لیں گے تو سوال ہی نہیںکریں گے اور اُلٹا اُس کی حقانیت ڈھونڈیں گے ، اس کو تسلسل جان کر تاریخی قرار دے کر اس میں آفاقیت شامل کریں گے اور پھر اسکو دینی بنائیں گے ۔
جب ساری مغربی تہذیب کو انسانی شعور میں آفاقی مان لیا جائے گا تو اس کو کبھی سوال نہیں کیا جاسکےگا، بلکہ اس کو دینی بنا کر ہمیشہ کے لیے حلال کر لیاجاتا ہے۔یہاں سے ہمیں اسلامی اسکول، اسلامی بینک، اسلامی لباس، اسلامی بازار، اسلامی شادی، اسلامی لیبل کی بہار نظر آنا شروع ہوتی ہے ۔ پھر لوگ کہتے ہیں اس میں برائی کیا ہے؟صحیح بات ہے ناں کہ ایک باطل چیز آپ کے خارج میں خودکار عمل بن چکی ہو اسکو کوئی سمجھے بغیر کیسے چیلنج کرےگا؟تحصیل مغرب تو سب نے بغیر ڈکار مارے کرلی مگر کسی نے بھی تفہیم مغرب کی جانب توجہ نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے سارے بیانیے میں مغرب سے مرعوبیت اور درپردہ مغرب ہی بطور خدا بنا ہوا ہے، چاہے ہم ظاہر میں کتنا ہی بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہیں۔
استعمار کو توحید شرک کا کوئی ایشو نہیں تھا،اس کو صرف غیر مشروط اطاعت چاہیے تھی۔اس کے 2مقاصد تھے ،کیسے ہم محکوم کے لیے قابل قبول بن جائیں؟کیسے مزاحمت کا احساس ختم کیاجائے؟وہ یہ بخوبی دیکھ رہا تھاکہ مسلمان تو وہ ہیں جن پر تاتاریوں نے بھی جب غلبہ پایا تو بعد ازاںانہوں نے تاتاریوں کو ہی مسلمان کر دیا ،ترکوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا گوکہ انہوں نے مسلمانوں پر کوئی غلبہ نہ پایاتھا ، محمد بن قاسم کیس تو یاد ہوگا ، سب جانتے ہیں کہ ہندو کیسے مسلمان ہوئے ۔استعمار کے لیے دینی اقدار ہی بڑا چیلنج تھیں۔یہ اقدار اس کو پورے برصغیر کے خطے میں نظر آئیں۔ ہندو ایک جغرافیائی مذہب ہے ، اس میں مذہبیت ان معنوں میں بھی بھری ہوئی ہے کہ خداؤں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ جدید مغربی تہذیب ، لبرل ازم کی اقداروں کے ساتھ وارد ہوئی اور ہر قسم کی مذہبیت کو چاٹ گئی۔ اسلام و مسلمانوں کا معاملہ زرا گھمبیر تھااس لیے خاصی مشکل ہوئی۔اس نے ہمارے علاج کے لیے مفاہمت کے جو راستے نکالے ، بورس جانسن کے استعفیٰ پر آج ہونے والے تبصروں سے مجھے دوبارہ وہ یاد آگئے ۔مسلم دنیا میں کبھی سوال نہیں اٹھا کہ جدیدیت کیا ہے؟بلکہ دین کیا ہے یہ ڈیفائن کیا گیا؟اس دین کی نئی تعریف نے ’متن پرستی‘ کی ایسی خطرناک بدعت ایجادکی کہ مسلمان اس مچھلی کے خوف کا شکار ہوگئے کہ اگر ’پانی ‘سے باہرنکلے تو شاید مر جائیں گے ۔
مادی ترقی انسانیت کی میراث ہے۔
اس خوف نے مغرب کی مادی ترقی کو روحانی ترقی میں بدلنے کا فارمولا بنوایا۔ایسے مفکرین پید اہوگئے جنہوں نے مغرب کے ساتھ ایسا برج بنانے کی ضرورت بتائی جس کی ایک سڑک سے ہم اُن کے پاس روحانیت ، ایمانیات ، اخلاقیات بھیجیں گے تو اس کی دوسری روڈ سے مادی ترقی لیں گے ، مگر صدی بھر کی تاریخ گواہ ہے کہ سب مادی ترقی والی سڑک کے چکر میں ہی لگے ہوئے ہیں دوسری والی تو بن ہی نہیں پا رہی ۔ اس لیے سب کہتے ہیں کہ مغرب بڑا ایماندار ہے، مغرب میں بڑی دیانتداری ہے، کیا صفائی ہے، گھر بیٹھے بے روزگار الاؤنس مل جاتا ہے، واہ کیا صاف سڑکیں ہیں، کیا قانون پر عمل درآمد ہے ۔ واہ۔ یہ واہ نہیں ہوتی ۔ یہ درحقیقت ایمان کی آہ ہوتی ہے۔ عالم اسلام کے ایک مفکر نے مغرب کے بارے میں کامل فتویٰ دیا جسے حیرت انگیز طور پر مسلم امہ میں عالمگیر پذیرائی ملی کہ ’مغرب مکمل جاہلیت خالصہ اور تخم خبیث ہے ‘ ۔
پاکستان میں اس ہفتہ لیک آڈیو سمیت ، عمران ریاض کی گرفتاری ، پریڈ گراؤنڈ جلسہ، دعا زہرہ بدستور ٹاپ ٹرینڈ پر نظر آئیں۔ مغرب کی لبرل اقدار جس طرح معاشرے کو خراب کر رہی ہیں ایسے واقعات بڑھتے ہی جائیں گے ۔کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو رہی ہے، ایم کیو ایم کے مفرور کارکن سابق وفاقی وزیر بابر غوری کی اچانک
پاکستا ن آمداور فوری گرفتاری نے کئی سوال کھڑےکیے تھے جو مختلف انداز سے سوشل میڈیا کی زینت بنے ۔ مہنگائی کا جن بدستور قابو سے باہر رہا، مسلم لیگ ن کی جانب سے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں تھا ماسوائے عمران خان پر الزام دھرنے کے ،مگر وہ ساتھ ساتھ یہ بات بھی عوام کو بتا رہی تھیں کہ عمران خان آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مان رہا تھا اور ہمیں مجبوری میں ماننا پڑا اس لیے مہنگائی ہوئی ہے ۔ اب بھلا ان کو کون سمجھائے کہ عمران خان یہی تو بیانیہ لیے ہوئے ہے ۔لیک وڈیوز اور آڈیوز کا مستقل سلسلہ آگے چل کر غیر اہم ہونے جا رہا ہے ، کیونکہ یکے بعد دیگرے سرکاری سطح پر ایسی آڈیوز کا لیک ہونا سیاسی دکان داری کی علامت بن گیا ہے۔اس میں کیا شک ہے کہ حمام میں سب ہی ۔۔۔ ہیں مگر ظاہری بھرم رکھنا پڑتاہے ۔کراچی میں برسات نےدوبارہ شہر کو ادھیڑ کر رکھ دیا، پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ عوامی ردعمل کی زد میں رہی۔عید الاضحیٰ کے موقع پر بارشیںبہرحال مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔
ایک اور بات جس کا ذکر میں نےپہلے بھی کیا تھا ، اور وہ یہ تھا کہ دو تین سال قبل تک میں تواتر سے دینی موضوعات کو لازمی کسی نہ کسی شکل میں ٹرینڈ لسٹ میں دیکھتا تھا۔ چاہے جمعہ ہو یا کوئی خاص شب، خاص یوم وفات یا پیدائش ، اب مستقل یہ سلسلہ کم ہوتا دیکھ رہاہوں۔ ذی الحجہ کے دس ایام سال کے اہم ترین ایام ہیں ،انکی فضیلت ہمیشہ سوشل میڈیا پر لوگ دینی جذبے سے ڈالتے تھے ۔حج اور عید الاضحیٰ کے بارے میں تو ٹرینڈ بن ہی جاتا ہے مگر یہ دس دن میں جھلک رہتی تھی جو اب بہر حال کم ہوتی جا رہی ہے۔

حصہ