بزم ادب برلن کے زیر اہتمام مشاعرہ

210

مورخہ 19 جون 2022 کو برلن شہر کی وہ دوپہر بہت خوب صورت تھی، درجہ حرارت کا پارہ اپنی پُرکیف اور مستانہ حالت میں چالیس درجے کے آس پاس محو رقص تھا۔ ہم نے، یعنی میں اور علی حیدر بھائی نے برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر ٹورنٹو کینیڈا سے تشریف لائے ڈاکٹر سید تقی عابدی کو خوش آمدید کہا اور گھر کو چلے۔ دوپہر کے کھانے پر بیگم نے لذیذ ڈشیں تیار رکھی تھیں۔ مانچسٹر سے نغمانہ کنول شیخ اور ان کے شریک زندگی امتیاز اقبال شیخ، اوسلو سے فیصل نواز چودھری اور ٹیلٹو جرمنی سے انور ظہیر رہبر اور ان کی بیگم پہلے سے ہی موجود تھیں۔ ماحاضر تناول فرمانے کے بعد ہمارے گھر کے بالکل سامنے واقع اولوف پالمے سینٹر چل پڑے۔
اولوف پالمے سینٹر والوں نے میرے بیٹے سید کاشان اور ان کے دوست ابراہیم کے ساتھ مل کر ہال کو خوب صورتی سے سجایا دیا تھا۔ بزمِ ادب برلن کا بڑا سا بینرجس پر تقی عابدی کی تصویر لگی تھی اس کے علاوہ ڈائس پر بھی ان کی تصویر لگی تھی۔ ہال تین بجے سے ہی بھرنے لگا اور پروگرام کے دوران تو اس قدر بھر چکا تھا کہ لوگ کوریڈور میں کھڑے رہے۔
اس پروگرام میں شرکت کے لیے انور محمود، میاں مبین اختر، قیصر ملک، منظور اعوان ، ملک ایوب اعوان اور شیخ صلاح الدین اور فاروق شاہ اور انصر بٹ خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔
تقی عابدی نے جب ’’غالب اوّلین ترقی پسند شاعر‘‘ کے عنوان سے تقریر شروع کی تو لوگ اَش اَش کر اٹھے۔ وہ ایک زبردست مقرر اور معلومات کے خزانے سے لیس اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فارسی اور اردو کے اشعار سناتے رہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے غالب کی اردو اور فارسی شاعری کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اُن اشعار کا تجزیہ کیا جو غالبؔ کی ترقی پسند شاعری کی تصدیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے فرمایا کہ غالب کے دور میں مغلیہ حکومت زوال کے دہانے پر کھڑی تھی اور ایک نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔ غالب ایک روشن خیال اور ترقی پسند شاعر تھا۔ اس کی بینائی نظر‘ ایک نئی تہذیب کو آتے دیکھ رہی تھی۔ غالب کی ترقی پسندی اردو کی بہ نسبت اس کے فارسی اشعار سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ غالب کے تقریباً 16000 اشعار کا انکشاف ہوا ہے لیکن اردو کی بہ نسبت ان کی فارسی شاعری میں ترقی پسندی کا رحجان زیادہ ہے۔ انہوں نے غالب کے چند فارسی اشعار پیش کیے جن سے غالب کی بصیرت انگیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنے اشعار میں غالب نے بتایا ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں ہے اگر اس کے پاس ہمت نہ ہو۔ مخلوق کیا ہے اگر روم فتح کر لے لیکن یہ سب کچھ بھی نہیں اگر اس کے پاس ذاتی صلاحیت نہ ہو۔ جو کوئی اس پردہ دنیا میں قابل جہاد ہے وہ صرف اپنی ہمت عالی کی بدولت۔جب خدا لکھنے کی توفیق دیتا ہے تو سوائے خدا کے تمام دوسرے نام کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اگر تمہاری ہمت اپنے پروں کو کھولے تو تمہیں ہما کا مقام مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی کا کہنا ہے کہ غالب کے دور میں نہ تو ترقی پسندی کا کوئی معیار تھا اور نہ ہی اب تک کسی کی سوچ وہاں تک پہنچی تھی۔ غالب کے اردو اشعار کا مجموعہ تقریباً 16000 اشعار پر مبنی ہے۔ غالب ایک ایسے موڑ پر کھڑا تھا جہاں پرانی تہذیب شکستہ حالت میں تھی اور ایک نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔ اس وقت کے موجود شعرا ذوق، شیفتہ، مومن وغیرہ کو لیں تو نہ اُن کے پاس پرانی تہذیب کے لٹنے کا غم تھااور نہ ایک نئی تہذیب کا کوئی خاکہ تھا جسے ’’فرہنگ جدید‘‘ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی مقالے کے اختتام پر سوالات کے وقفے میں مدلل جوابات دیتے رہے۔ سوالات کے وقفے میں پہلا سوال تاجر اور سیاست دان انصر بٹ کی طرف سے تھا۔
تقریب کے اگلے حصے میں مشاعرہ رکھا گیا تھا۔ جس میں سید علی حیدر عابدی، سید تقی عابدی(ٹورنٹو)، سرور غزالی، نغمانہ کنول(مانچسٹر)، عشرت معین سیما، انور ظہیر رہبر، آصف اقبال (پراگ) بسمہ بی بی، مایا حیدر، میاں مزمل لطیف، کوثر محمود رامے، طاہرہ رباب، حسنین بخاری نے اپنا کلام پیش کیا۔
انور ظہیر رہبر کا یہ شعر خوب پسند کیا گیا:
اک شمع کے گرد ہیں پروانے بے شمار
کیوں روشنی کہ ہیں یہ دیوانے بے شمار
کوثر محمود رامے کا یہ شعر بہت پسند کیا گیا :
لکھ نہ پایا ہوں جو زندگی کا الم
اس لیے کر دیا سر قلم کا قلم
کاشف کاظمی یوں نغمہ سرا تھے:
گردشِ ایام سے گھبرا سے گئے ہیں عقل و دل
کاشف اب کہ لازم ہے کہ عشق کو اپنا امام کریں
آصف اقبال پراگ سے تشریف لائے تھے اور ان اشعار کا تحفہ لائے
دلوں میں درد رگوں میں یہ جان کافی ہے
ستم ظریف تیرا یہ نشان کافی ہے
٭
فرشتوں نامئے عمال کی ضرورت کیا
غم حیات کی داستان کافی ہے

حصہ