حقیقی ایمان

ایک نو مسلم کی کہانی جو دین کو سمجھنے کے لئے پاکستان آیا تھا
عزیمت کی یہ کہانی ماہنامہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ لاہور میں شائع ہوئی تھی‘ جس کو میں نے اشاعتِ مکرر کے لیے ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور کو ارسال کیا، ایشیا نے کمالِ مہربانی اسے نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس کہانی سے سید مودودیؒ کے لٹریچر کی اثر انگیزی ثابت ہوتی ہے۔ اس کا پہلا حصہ آپ گزشتہ ہفتے ملاحظہ کرچکے ہیں اب دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے۔
…٭…
میں نے ایک بات تمام مذاہب میں دیکھی ہے کہ یہاں لوگ اللہ یا بھگوان یا یسوع مسیح کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ ان کے اللہ کے پاس جنت ہے، سورگ، پیراڈائز، جہنم ہے، نرکھ ہے، ہیل ہے، حوریں ہیں، اپسرائیں ہیں۔ گویا یہ سارے اللہ کے نہیں بلکہ اللہ کی مٹھی میں موجود جنت کے متلاشی ہیں۔ جو جتنا بوڑھا ہوتا ہے وہ اتنی زیادہ تفصیل سے حوروں سے ملاقات کی کیفیات بیان کرتا ہے۔ بعض دفعہ مجھے تصور میں ان کے چہروں پر رال ٹپکتی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے گوردوارے میں، چرچ میں، سینگاگ میں اور پھر جہاں جس طرح یہ تذکرے سنے، مجھے مذہب سے گھن آنے لگی۔ سارے عیاش اور سیکس کے دیوانے۔ آج اللہ جنت دینے سے انکار کردے تو ان میں سے کوئی پلٹ کر اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔میرے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی۔ میرے اللہ تیری تلاش کسی کو نہیں؟ سب کی نظریں تیری جنت کی طرف ہیں، تیرے چہرۂ اقدس کا خیال کسی کو نہیں؟ مجھے اپنا اندرون اور خدا دونوں افسردہ سے لگے، جیسے جس چیز کو میں روتا ہوں، خدا کو بھی اسی کا شکوہ ہے۔
میں جب پاکستان آیا تھا تو اسلام اور اللہ کے بارے میں قرآن کے حوالے سے ایک واضح تصور لے کر آیا تھا۔ اللہ پاک نے انسان کو محبت سے بنایا ہے اور محبت کی خاطر بنایا ہے۔ وہ انسان سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے، اور نماز کو محبوب سے ملاقات کے پس منظر میں دیکھا جائے اور اسی شوق و ذوق سے بن سنور کر جایا جائے، اور رب سے مکالمہ کرکے جانے کے بعد نہ صرف انسان کی ہستی کے اندر، باہر اور قول و فعل میں اس ملاقات کی چاشنی پورا محلہ محسوس کرے بلکہ ان کے چہروں پر نظر پڑے تو سجدوںکا نور و سرور دیکھنے والے کو اپنی جھلک دکھا دے۔ گھر جاکر بھی دل میں پروگرام بن رہا ہو کہ اگلی ملاقات میں کیا کیا بات کرنی ہے، کیسے راضی کرنا ہے، کیسے سوری کرنا ہے۔ کیا یہی وہ لوگ نہیں جن کو عرش کے سائے تلے جگہ دی جائے گی؟ اللہ نے انسان کو اس کی دنیا کی زندگی میں ہر سہولت فراہم کی ہے۔ اگر انسان کے اندر اس کی فطرت میں کوئی پیاس رکھی ہے تو دنیا میں اسے بجھانے کا سامان بھی رکھا ہے۔ وہی اللہ جب اپنی رضا کے لیے کچھ قربان کرنے کو کہتا ہے یا اپنی محبت میں کچھ چھوڑنے کو کہتا ہے تو ساتھ گارنٹی دیتا ہے کہ جس اللہ نے تمہاری دنیا کی ضرورتوں کی کفالت کی ہے وہی آخرت میں بھی تمہیں سامانِِ زیست فراہم کرے گا، بیویاں بھی دے گا، گھر بھی دے گا، دنیا میں دنیا کی زندگی کی نسبت سے، اور آخرت میں آخرت کی زندگی کی نسبت سے عطا فرمائے گا، فانی اس کی خاطر چھوڑو گے تو ابدی و باقی عطا کرے گا۔
اس پس منظر میں جب حوروں کا ذکر آتا ہے تو وہ ایک فطری بات لگتی ہے، مگر جب ساری نیکی حوروں، کھانوں اور سامانِ عیاشی کے گرد گھومتی ہو تو پھر اللہ کہیں دور پس منظر میں چلا جاتا ہے، بلکہ اللہ کا امیج مسخ ہوجاتا ہے، شیطان بھی ضرورت کے ذریعے اپنی طرف مائل کرتا ہے، اور ان ناسمجھوں کی عقل کے مطابق نعوذباللہ، اللہ بھی انسان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مرد کی جنسی بھوک کو استعمال کرتا ہے، پھر موبائل کمپنیوں کے پروموشن اشتہاروں اور جنت کے ان مناظر میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ ایسا سوچنا سراسر حماقت ہے۔
قرآن حکیم نے جہاں بھی اور وہ بھی گنتی کے چند مواقع پر استعمال کیا ہے، وہاں دو مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا وجود فزیکلی (طبعی) موجود ہوگا، تبھی وہ صوفوں پر بیٹھے گا اور ٹیک لگائے گا۔ چونکہ روح ٹیک نہیں لگا سکتی، روح فروٹ نہیں کھا سکتی، شہد اور دودھ نہیں پی سکتی اور سیکس نہیں کرسکتی، لہٰذا ایک تو وجود کی دلیل میں ان چیزوں کو پیش کیا ہے، نہ کہ اپنی طرف مائل کرنے کے لیے۔ دوسرا وہاں کسی نہ کسی قربانی کا ذکر ہے، کچھ کھونے کا حوالہ ہے۔ مگر جس بے دردی سے بے موقع حوروں کی تفصیلات بیان کرتے میں نے سنا ہے اُس سے تو پھر عورت پیش کرکے کام کرانے کا تصور بھی ابھرتا ہے، اور یہی وہ تصور ہے جس سے میں یہودی سے عیسائی، پھر سکھ اور پھر اسلام میں آیا تھا، مگر پاکستان نے میرے سارے تصورات دھندلا کر رکھ دیے اور مجھے الحاد کی منزل پر لا کھڑا کیا، مگر”Towards Understanding Islam” نے مجھے عین وقت پر اس مخمصے سے نکالا، اور یوں اللہ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا کہ جو ہماری راہ پر چل نکلتا ہے ہم اسے اپنی راہ سمجھا دیتے ہیں۔ وہ اسٹال والا لڑکا میرے لیے ایک فرشتہ ہی ثابت ہوا جسے خاص اسی کام کے لیے بھیجا گیا تھا، اور جب وہ کام ہوگیا تو اس بے چارے کا اسٹال بھی اٹھوا دیا گیا۔
میں نے جب بعد میں برطانیہ جاکر اپنا مذہب اور نام سرکاری طور پر تبدیل کیا، چونکہ حج پر جانے کے لیے یہودی نام اور مذہب کی وجہ سے مجھے ویزا نہیں مل رہا تھا تو میں نے اپنا نام اسی لڑکے کے نام پر ’’ناصر محمود‘‘ رکھا۔ میرا ارادہ تھا کہ براستہ ایران، عراق اور اردن، یروشلم سے ہوتا ہوا جائوں اور اپنے عزیز و اقارب سے بھی ملتا جائوں۔ میں جب ٹرین پر زاہدان جارہا تھا تو میرے ساتھ ایک ایرانی نوجوان بھی اسی بوگی میں تھا جو ملحد ہوچکا تھا۔ وہ برطانیہ کا پڑھا ہوا ایک ذہین، بہت نفیس اور سادہ سا نوجوان تھا۔ باتوں باتوں میں جب اسے پتا چلا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں تو کہنے لگا ’’میں نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور تم اسلام میں آگئے ہو!‘‘ پھر مزاح کے انداز میں کہنے لگا ’’گویا اللہ کا سپاہی اور اللہ کا باغی ایک ہی بوگی میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔‘‘
میں نے اُس سے الحاد کی وجہ پوچھی تو اُس نے جو تفصیلات بتائیں اُن سے میں سکتے میں آگیا۔ کیا کوئی عقل مند انسان اس صدی میں بھی ایسے عقائد رکھ سکتا ہے؟ پہلی بات یہ کہ یہ قرآن اصلی قرآن نہیں بلکہ حقیقی قرآن کا صرف فٹ نوٹ ہے۔ وہ حقیقی قرآن ایک امام کے پاس ہے جو اسے لیے غار میں چھپا بیٹھا ہے۔ دنیا ہدایت کے بغیر مر رہی ہے، اتمام حجت کا رب کا وعدہ کہاں گیا؟
جوان کہنے لگا ’’بس یہ سب کچھ دیکھ کر، ہمارے علامہ حضرات کے رویّے دیکھ کر میں نے دین سے جان چھڑا لی ہے۔ دین اس لیے ہوتا ہے کہ انسان سکون اور اطمینان حاصل کرے۔ مگر جب دین الٹا رات کی نیندیں اڑا دے، کسی سوچ کا جواب نہ دے، صرف سوال پیدا کرتا چلا جائے تو بہتر ہے خوامخواہ اور روز کی خواری اور آہ و زاری سے ایک دفعہ رو کر جان چھڑا لی جائے۔‘‘ پھر اُس نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں اسلام کے عشق میں کس چیز نے مبتلا کردیا ہے؟ میں نے کتاب اُس کے حوالے کردی۔ وہ سارے راستے اس کتاب کو رو رو کر پڑھتا رہا، کبھی کبھار سوال و جواب ہوتے اور بحث بھی ہوتی، مگر الحمدللہ وہ جوان زاہدان پہنچنے تک دوبارہ مسلمان ہوچکا تھا، اور جہاں کہیں موقع ملتا ہم نماز اکٹھے پڑھتے، میں اسے امامت کے لیے آگے کرتا، اور لوگ بھی کھڑے ہوجاتے۔ اب نماز میں پتا نہیں اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا کہ جب وہ تلاوت کرتا تو اس کی گھگھی بندھ جاتی جیسے سامنے رب کھڑا ہے۔ اس کے رونے سے مجھ سمیت کئی لوگوں کی سسکیاں بھی نکل جاتیں۔ ڈبے والوں نے اسے پکا پیر مان لیا، اس کے ہاتھ چومتے اور کھانے پینے کی چیزیں لا کر ڈبے میں ڈھیر کرتے جاتے۔ میرا ڈبہ ایک دفعہ پھر منگھوپیر کی درگاہ بن چکا تھا۔
حقیقت میں یہ کتاب انسان کو اللہ سے ملا دیتی ہے۔ میں پیدائشی مسلمانوں سے بھی درخواست کروںگا کہ وہ اس کتاب کے انگلش ایڈیشن کو ضرور پڑھیں۔ لکھنے والے نے کمال کردیا ہے، خود کو بالکل ایک غیر جانب دار شخص بناکر دلائل سے اسلام کے تقاضوں کو ثابت کیا گیا ہے، کسی بھی غیر مسلم یا نومسلم کے لیے اس کتاب سے بڑھ کر بہترین کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا۔ یزدانی نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کے 7 مقالوں پر مبنی کتاب ’’مین اینڈ سی اسلام‘‘ دی۔ اس کتاب نے انسانی تخلیق کے ربانی پروگرام، انسان کی اہمیت اور رب کے ساتھ اُس کے تعلق کو اس طرح واضح کیا ہے کہ کئی دفعہ آبدیدہ ہوگیا۔ یہ دو کتابیں پڑھنے کی ہیں۔ ایران سے رخصتی کے وقت یزدانی نے مجھے یہ کتاب گفٹ کردی، مگر میں اسے اپنی کتاب گفٹ کرنے کا حوصلہ نہ کرسکا۔ شاید اس کتاب کو ابھی میرے والدین کو مسلمان کرنا تھا۔
ایران میں یزدانی کے توسط سے مجھے تین ملاقاتیں نصیب ہوئیں۔ پہلی تہران میں ایک یہودی ربی کے ساتھ، جسے آگاہ کیے بغیر کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں، یہودی عقائد پر خاصی تفصیلی اور لمبی چوڑی گفتگو کی۔ یہودیت کا دفاع آج کے دور میں کیسے کیا جائے، اس لیے کہ یہودیت نسلی مذہب ہے نظریاتی نہیں، یعنی کوئی شخص یہودی نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہودی پیدا نہ ہو، اس لیے اس کی تبلیغ کی بھی کوئی ضرورت نہیں، جب کوئی چیز سیل پر ہی نہ لگے تو اس کی کوالٹی کی فکر بھی کسی کو نہیں ہوتی۔ یہودیت کا مسئلہ ہے کہ وہ سکڑتی جارہی ہے۔ معاشی حالت نے اسے اولاد کو محدود رکھنے پر مجبور کر دیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ یہودیت کرپٹ بھی ہو گئی ہے، کرخت اور لامحدود بھی۔ یہودی کسی مذہب میں بھی چلا جائے اس کے جینز تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ جینز جن کو اللہ نے دنیا کی آگ سے بچایا ان کو آخرت کی آگ میں کیسے جلائے گا؟
یہ یہودی نفسیات ہے جس کا بھانڈا اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ پھوڑا ہے اور اس پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ سورۃ المائدہ اور البقرہ اس میں پیش پیش ہیں۔ ایک ہمدردانہ ڈسکشن کے بعد اب میرے سوالات ذرا تیکھے ہونا شروع ہوئے اور میں نے اپنے اشکال پیش کرنا شروع کیے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہودی عالم ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کی مذہبی قیادت ایک جیسی ہی سوچ کی حامل ہوتی ہے۔ آپ کے سوال کا ایک ہی جیسا رٹا رٹایا جواب دیا جائے گا، جواب دینے میں کبھی آپ کے کیلپبر آئی کیو کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا۔ میں نے قرآن کی طرف سے دیا گیا جواب ’’ماکان ابراہیم یہود یاولا نصرانیا ولکن کانا حنیفا مسلماً‘‘ (آل عمران 3:27)ان چیف ربی صاحب کے سامنے رکھا کہ آگ ہمیں نہیں چھوئے گی، عذابِ آخرت ہمیں نہیں ہوگا، پر قرآن کا جواب قل فلم یعذبکم یذنوبکم (المائدہ 18:5) پھر وہ دنیا میں تمہیں بار بار عذابِ عظیم میں مبتلا کیوں کرتا رہا؟ لوگوں کو عذابِ آخرت پر مؤخر کردیتا ہے، تمہیں نقد کیوں دیتا رہا؟ کہنے لگے: ہمیں دنیا میں دے دیتا ہے اس لیے آخرت میں نہیں دے گا۔ میں نے کہا: مگر اللہ تو کہہ رہا ہے ’’ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم‘‘ (البقرہ 114:2)۔ اس پر انہیں شک ہونا شروع ہوا کہ شاید میں مسلمان ہوچکا ہوں، کیوں کہ عام یہودی نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ ان باتوں کا اسے علم ہوتا ہے، اور نہ قرآن کی بات کو سچ سمجھتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ مسلم ہوچکے ہیں؟ میں نے اعتراف کیا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ کہنے لگے: یہ خیانت ہے کہ آپ نے یہودی بن کر اپنا تعارف کروایا۔ میں نے کہا :جناب آپ نے خود تسلیم کیا کہ یہودی کے جینز تبدیل نہیں ہوتے، چاہے کسی مذہب میں چلا جائے، میں نے اپنا جینٹیکل تعارف کرایا تھا نظریاتی نہیں۔
اگلی ملاقات قم کے منتظری صاحب سے ہوئی جن سے میں نے اُن شیعہ عقائد پر بات کی جن کے بارے میں مجھے یزدانی نے بتایا تھا۔ منتظری صاحب سے وقت لینا بھی ایک مسئلہ تھا، وہ اُن دنوں حکومت کے زیر عتاب تھے، کبھی ہائوس اریسٹ تو کبھی جیل۔ خمینی صاحب سے ان کی کھٹ پٹ چل رہی تھی۔ آدھا ایران خمینی صاحب کے پچھے تھا تو آدھا منتظری صاحب کے ساتھ۔
اگلے دن والد صاحب کا پیغام ملا کہ فوراً واپس پلٹو، ایمرجنسی ہے۔ جھٹ پٹ ٹکٹ لیا اور تہران سے دبئی اور پھر لندن کو واپسی ہوئی۔ سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماحول میں اداسی کا احساس ہوا۔ پتا چلا والدہ صاحبہ کو جگر کا کینسر تشخیص ہوا ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر۔ والدہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ میں جس طرح چھوڑ کر گیا تھا وزن اُس سے آدھا ہوچکا تھا۔ رہ رہ کے خیال آتا شاید میرا اس طرح گھر سے چلے جانا اس داغِِ جگر کا سبب بنا ہو۔ میرا دل چاہتا تھا کہ والدہ مسلمان ہوجائیں اور اسلام ہمارے خاندان کو ٹیک اوور کرلے، مگر والدہ کی تمنا ایک روایتی ماں والی تھی، یعنی مرنے سے پہلے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی۔ لڑکی ہمارے خاندان سے ہی تھی اور مذہب کے معاملے میں کسی حد تک میری ہم خیال بھی تھی، کیوں کہ ہم دونوں کلاس فیلو بھی تھے۔ مجھے امید تھی وہ بھی مسلمان ہوجائے گی، رہیں والدہ، تو ان کے اسلام کی راہ میں میرے والد صاحب کا پہاڑ کھڑا تھا۔ وہ ایک روایتی گھریلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ذات کو شوہر میں گم کردیا تھا۔ میں نے جب ان سے اسلام کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مرتے مرتے تیرے باپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی۔ آخرکار میں نے اللہ کا نام لے کر اس پہاڑ کو خود سر کرنے یعنی والد صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ والدین ہماری نفسیات کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ کے بعد ہماری ذات سے سب سے زیادہ واقف ہمارے والدین ہوتے ہیں، اِدھر ہمیں کوئی خیال آیا، اُدھر ان کی چھٹی حس نے ان کو بتایا۔ آپ کے دکھ درد اور بے چینی کو محسوس کرنے کے لیے انہیں آپ کے بتانے یا الفاظ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ ہماری ذات کی مین برانچ ہوتے ہیں، ہماری ساری ٹرانزیکشن انہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ جونہی میں والد صاحب کے پاس جا کر بیٹھا انہوں نے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور جان لیا کہ میں ان سے کوئی اہم بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار تھے اور انسانی کیمسٹری سے آگاہ۔ فرمانے لگے: کیا کچھ سیکھا ہے؟ میں نے کہا: وہ سب کچھ جس کے لیے آپ نے میرے لیے پاکستان تجویز کیا تھا، البتہ میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ امی جان مرنے سے پہلے مسلمان ہوجائیں، مگر وہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ کام نہیں کر پائیں گی، وہ مرتے مرتے آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتیں، اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو اپنے ساتھ دوسری جان کا بوجھ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا۔ میں نے زندگی بھر آپ سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا، مگر اب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اسلام کو اسٹڈی کریں اور دو، چار دن میں کوئی فیصلہ کرلیں۔ اس سلسلے میں جو بھی وضاحت طلب باتیں ہوں وہ آپ مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہیں، مگر مجھے امید ہے کہ یہ دو کتابیں پڑھ لینے کے بعد آپ کو اسلام کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔
اور یوں سید مودودیؒ کی کتاب ایک پورے یہودی خاندان کے مسلمان ہونے کا سبب بن گئی۔

حصہ