قربانی کی حقیقی روح اور الخدمت قربانی پروجیکٹ

عیدالفطر کے گزرتے ہی تمام امت مسلمہ عید الضحیٰ کے استقبال کی منصوبہ بندی اورتیاریوں کے لیے کمر کس لیتی ہے۔عیدِ قرباں پر رسمِ قربانی جہاں رضائے الہیٰ کے حصول کا موجب بنتی ہے وہیں پر اُن کروڑوں غریب اور مستحق افراد کے لیے بھی مسرت کا باعث ثابت ہوتی ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قربانی کا دن وہ دن ہے جب حضرت ابراہیم علیہ سلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس خواب کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے لختِ جگر کے ذبح کا ارادہ کیا لیکن جیسے ہی گردن پر چھری چلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ ’’اے ابراہیم! آپ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا‘‘۔ اور پھر انعام کے طور پر قربانی کے لیے ایک دنبہ بھیجا گیا۔ قربانی کے اس جذبہ نے خدا وند کریم کے دربار میں وہ مقام پایا کہ جسے زندہ رکھنے کے لیے تاقیامت قربانی ہر صاحب ِ استطاعت مرد و زن پر فرض کردی گئی۔
قربانی فی سبیل اللہ کا مقصد نمود ونمائش کی بجائے خالصتاََ اللہ کی رضا اورمستحقین کی مدد ہونا چاہئے اور یہی اس کی اصل روح ہے۔ صدقہ و خیرات کے لیے تو کوئی دن مقرر نہیں ہے لیکن اس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے جسے یوم النحر یایوم الضحیٰ کہا جاتا ہے۔اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحاظ سے قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے،زکوۃ انسان کے مال و زر کی قربانی ہے اسی طرح حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت اور مال و دولت کی قربانی ہے۔قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر قربانی کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے:
ارشادباری تعالیٰ ہے کہ
’’تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘(سورہ کوثر)
’’اورہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں۔‘‘(سورۃ حج)
حدیث مبارکہ میں ہے کہ
’’جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 232)
’’جس نے خوشی اور اخلاص کے ساتھ قربانی کی وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ اور رکاوٹ بن گئی۔‘‘(طبرانی)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔‘‘(صحیح بخاری۔ 1707)
ایسا ملک جہاں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، ننھے ننھے کتنے ہی بچے بھوکے پیٹ سوتے ہوں، پینے کا صاف پانی بھی دسترس سے باہر ہو، الغرض کوئی پرسان حال نہ ہو، وہاں اسلام کے اس فلسفہئِ قربانی کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس موقع پردنیا بھر میں بھائی چارے اور غریب نوازی کا فقید المثال مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ افراد جو سال بھر دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں ان کو بھی اس مذہبی تہوار پر پیٹ بھر کر گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے۔ یہ تہوار حقیقی معنوں میں ان پسے ہوئے افراد کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔
انفرادی طور پر صاحبانِ استطاعت قربانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک غربا و مساکین کے لیے مختص کیا جاتا ہے جبکہ اس مقصد کے لیے اب بھی ایسے بہت سے رفاہی ادارے موجود ہیں جو کسی بھی ذاتی مفاد کو پسِ پشت ڈالے خالصتاََ رضائے الہیٰ کے حصو ل کے لیے میدانِ عمل میں کوشاں ہیں۔ یہ ادارے بڑے پیمانے پر بہت منظم انداز میں قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کرتے ہیں۔انہی میں سے ایک ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان بلا تفریق رنگ و نسل،ذات پات اور مذہب کے غریب اور بے سہارا افراد کی خدمت کے لیے ہر دم کوشاں اداروں میں ایک نمایاں نام ہے۔ الخدمت کے تحت عید الضحیٰ کے موقع پر ملک کی سب سے بڑی قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دورِ حاضر کے رجحانات کے پیش نظر اب ملک گیر جانوروں کی قربانی کرنے اور اس کے بعدان کا گوشت ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں مستحق افراد تک پہنچانے کے لیے جدید طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں۔کراچی، لاہور سمیت چند دیگر شہروں میں جدید سلاٹر ہاؤسزکی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جہاں جانوروں کی قربانی، چرم قربانی الگ کرنے اور گوشت کو پیکٹوں میں پیک کرنے تک کا عمل نہایت منظم اور حفظانِ صحت کے تمام تر اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے۔اس گوشت کوبحفاظت دور درازعلاقوں تک منتقل کرنے کے لیے چلر ٹرکوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
الخدمت کو ملنے والی قربانیوں کا ایک بڑا حصہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں اور تنظیموں کی بھیجی گئی قربانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔پاکستا ن اور تیسری دنیا کے ممالک کے برعکس یورپ، امریکہ اور ایسے ممالک جہاں جانور خریدنا، اس کی دیکھ بھال کرنا،قربانی کرنا اور اس کا گوشت تقسیم کرنا قدرے مشکل ہے یا قربانی کی سہولیات میسر نہیں اور وہاں کے قوانین بھی اس حوالے سے سخت ہیں تو وہاں کے مسلمان قربانی کی رقم پاکستان یا دیگر ایسے ممالک بھجوا دیتے ہیں جہاں الخدمت ایسی تنظیمیں ان کی قربانی مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں۔کچھ ایسے صاحبانِ استطاعت بھی موجود ہیں جو اپنی قربانی آفت زدگان کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں یا ایک سے زائد قربانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی اس سلسلے میں الخدمت فاؤنڈ یشن سے رجوع کرتے ہیں۔گزشتہ سالوں میں بھی الخدمت فاؤنڈیشن نے سیلاب، زلزلے، تھرپارکر اور فاٹا کے بے گھر افراد سمیت گلگت بلتستان، آزادکشمیر، خیبر پختونخوا،پنجاب، سندھ، بلوچستان سمیت ملک بھر میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا جس سے مجموعی طور پر 2لاکھ 19ہزار سے زائد خاندان مستفید ہوئے۔
شام میں خانہ جنگی اورمیانمار میں حکومتی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم کی وجہ سے ہجرت پر مجبور لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین ترکی اور بنگلہ دیش میں قائم عارضی کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے شب وروز بسر کررہے ہیں۔اسی طرح خانہ جنگی سیمتاثرہ فلسطینی اور افغان بہن بھائی بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ایسی صورت میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اِن بہن بھائیوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔ اس سال الخدمت فاؤنڈیشن شامی اور روہنگیا مہاجرین کے ساتھ ساتھ فلسطینی اور افغان بہن بھائیوں کے لیے بھی قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کررہی ہے۔ گذشتہ سال ترک بارڈر پرمقیم شامی اوربنگلہ دیش بارڈر پر مقیم روہنگیا مہاجرین کے لیے مجموعی طور پر 605جانوروں کی قربانی کی گئی۔
ان رفاہی اداروں کی مسلمہ حقیقت اور اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی معاشرہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں ان کا قیام عمل میں نہ لایاگیا ہو۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں معاشی و معاشرتی مسائل بھی گمبھیر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ان تمام مسائل کا حل سرکاری طور پر کرسکیں لہٰذا ایسے میں اگر کچھ ادارے فلاحِ عامہ کے لیے نیک نیت کے ساتھ اس کام کو مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں تو اس سے بہتر اور کوئی خدمت ہو ہی نہیں سکتی۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسروں کے حقوق کیلیے لڑنا اور دکھی انسانیت کی خدمت یقیناً اولین انسانی فریضہ اور شیوہِ پیغمبری ہے۔ لہٰذا ہمارا اولین فرض ہے کہ ایسے اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھیں۔ رمضان میں زکوٰۃ و فطرانہ، عید الضحیٰ پر قربانی فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سال بھر اپنے صدقات و عطیات دیتے ہوئے ایسے انھیں ضرور یاد رکھیں۔

حصہ