حج بیت اللہ

10معنی/تعریف/اصطلاح
’’حج‘‘ کے لفظی‘ لغوی معنی قصدو ارادہ ہیں لیکن اصطلاح شریعت میں حج نام ہے۔ (بیت اللہ کی زیارت کے لیے احرام باندھ کر) 9 ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور (اس کے بعد) کعبۃ اللہ کا طواف (زیارت) کرنے کا۔
نوعیت و اہمیت:
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اور (عظیم الشان بدنی و مالی و روحانی) عبادت ہے جسے ہر صاحب استطاعت کو تمام عمر میں ایک بار ادا کرنا فرض ہے۔ (یہ قرآن و سنت‘ نصع و اجماع‘ عقل ہر لحاظ سے ثابت ہے اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔)
کسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں کہ اس کی ادائگی میں (فرض ہونے پر) تاخیر کرے۔
ازورائے حدیث جس نے محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے حج کیا اور اس میں جماع‘ فحش باتوں اور گناہوں سے بچتا رہا تو وہ (حج کرکے) ایسا پاک و صاف لوٹتا ہے جیسا کہ وہ پیدا ہو کر بے گناہ تھا۔
حج میں خرچ کرنے کا ثواب جہاد میں خرچ کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔
حج اسلام میں 9 ہجری کو فرض ہوا تھا۔
فرضیت حج کی شرائط:
اسلام/مسلمان ہو/بلوغ/بالغ‘ سلامتی عقل و حواس/عاقل ہو‘ حریت/آزاد ہو‘ استطاعت (بیت اللہ تک جانے نے کی مع خرچ‘ دوران اہل و عیال‘ گھر بار کے اخراجات کا انتظام)‘ حج کے مہینے (شوال‘ ذی قعدہ‘ ذی الحجہ) حج کا زمانہ پائے‘ صحت و سلامتی جسمانی حاصل ہو۔
حج ادا کرنے کے طریقے (اقسامِ حج):
-1 حج افراد: عازمِ سفر صرف حج کی نیت سے احرام باندھے اور 10 ذی الحجہ تک اسی احرام میں رہے۔ (حج افراد کرنے والے کو ’’مفرد‘‘ کہتے ہیں۔ مفرد پر قربانی واجب نہیں‘ اختیاری اور مستحب ہے۔)
-2 حج قرآن: عازم سفر حج اور عمرہ دونوں کے لیے (بیک وقت) ایک ہی احرام باندھے اور 10 ذی الحجہ تک قربانی کے بعد حلق یا قصر تک اسی احرام میں رہے۔ (ایسے حاجی کو قارن کہتے ہیں۔)
-3 حج تمتع: عازمِ حج‘ حج کے مہینوں میں میقات پر یا اس سے پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف‘ صفا و مروہ کی سعی اور حلق یا قصر کے بعد احرام کھول دے اور پھر حج کا وقت آنے پر 8 ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھے اور حج کے تمام اعمال و مناسک انجامدے۔ (قیام منیٰ‘ وقوف عرفہ و مزدلفہ‘ رمی جمار‘ قربانی‘ حلق یا قصر‘ طواف زیارت وغیرہ۔) اس قسم کے حج کرنے والے کو متمتع کہتے ہیں۔
پاکستانی عازمین حج کے لیے حج تمتع ہی موزوں‘ سل و آسان اور عملاً صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ پہلے مرحلہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوں مسنون طریقہ بھی یہ ہے کہ اگر باہر سے آنے والا (آفاقی) اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا ہے تو وہ حج تمتع کرے۔ (بخاری‘ مسلم‘ مشکوٰۃ)
حج کے ارکان/فرائض/لازمی امور:
ان میں سے کوئی ایک بھی کسی حال میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے بغیر حج نہ ہوگا۔
-1 حرامِ حج:
(8 ذی الحجہ کو باندھنا) احرام کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں -1نیت (الفاظ سے بھی مثلاً للھمہ انی اریدالحج فیسرولی و تقبلہ منی)‘ -2 لباس احرام (مردوں کے لیے 2 عدد بے سلی چادروں یا 2 بڑے تولیے پر مشتمل ہوں‘ ایک کرتہ بند کی طرح باندھا جائے اور ایک اوڑھ لی جائے۔ عورتوں کا اپنا روز مرہ کا لباس‘ (سلے ہوئے کپڑے خوا رنگین ہو مگر ایسے بھڑکیلے‘ شوک و شنک نہ ہوں کہ نگاہیں ملتفت ہوں اور فتنہ پیدا ہو۔) احرام کے لیے ایک رومال سر پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ سر نہ کھلے لیکن چہرہ پیشانی تک کھلا رہنا چاہیے کسی حال میں اسے ڈھکا نہ جائے۔ -3 تلبیہ (جو 4 جزو پر مشتمل ہے اس میں نہ کمی ہو نہ زیادتی یعنی لبیک اللھمہ لبیک‘ لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد و النعمتہ لک و الملک لا شریک لک‘ احرام کی نیت سے دو رکعت نفل جس میں پہلی رکعت میں قل یا ایھالکافرون اور دوسری میں قل ھو اللہ احد پڑھیں۔ وقت مکروہ نہ ہو‘ سلام پھیر کر قبلہ رخ رہتے ہوئے سر کھول کر نیت کے بعد تلبیہ تین مرتبہ پڑھا جائے۔ احرام باندھنے سے پہلے جسم صاف ستھرا کرلیں۔ حجامت‘ بدن کے غیر ضروری بال صاف کریں‘ ناخن کاٹ لیں‘ نیل پالش وغیرہ صاف کرلیں‘ غسل کر لیں‘ کوئی عذر ہو تو وضو کر لیں‘ سلے ہوئے کپڑے اتار کر (مرد) احرام باندھ لیں اور عورتیں صفائی ستھرائی کے بعد سلے ہوئے کپڑے معمول کے مطابق پہنیں‘ رومال سر پر باندھیں چہرہ کھلا رکھیں۔ احرام کی حالت میں ان تمام باتوں (ممنوعاتِ احرام) سے بچنا ضروری ہے (جن کی تفصیل کتابوں میں ہے۔) خصوصاً بنائو سنگھار‘ خوشبو کا استعمال‘ سلاہوا کپڑا (مردوں کے لیے) یا چہرہ ڈھکنا (عورتوں کے لیے) بال توڑنا‘ منڈانا‘ ناخن کاٹنا‘ فحش باتوں کی قطعی ممانعت ہے۔ سر ڈھانپنا (مردوں کے لیے) یسی چپل کا استعمال جس سے پیر کی پشت پر ابھری ہڈی چھپ جائے‘ جوئیں مارنا‘ شکا رکرنا بالکل منع ہے‘ فسق‘ فجور‘ جماع حرام ہے۔
-2 وقوف عرفات:
9 ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد 10 ذی الحجہ کے طلوع فجر کے دوران۔ ساری زمین عرفات موقف ہے سوائے بطن عرفہ۔
-3 طوافِ زیارت:
و قوف عرہ و مزدلفہ‘ جمرۂ عقبہ‘ قربانی حلق یا قصر کے بعد 10 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ غروب آفتاب تک۔
حج کے واجبات:
-1 صفا و مروہ کے درمیان سعی‘ -2 وقوف مزدلفہ (عرفات سے واپسی پر 10 ذی الحجہ کو طلوع فجر سے طلوع آفتاب سے ذرا پہلے تک کے دوران)‘ -3 رمی جمار (شیطانوں کو کنکریاں مارنا)‘ -4 قربانی‘ -5 حلق (سر منڈانا یا قصر (بال کتروانا‘ کم کرانا)‘ -6 طوافِ وداع۔
کوئی ایک واجب بھی ترک ہو جائے گا (چاہے بھول سے‘ چاہے غلطی سے‘ چاہے لاعلمی سے‘ چاہے قصد و ارادہ سے یا بلا قصد) تاخیر ہوگی تو دم دینا ہوگا۔
حج کے سنن:
جان بوجھ کر چھوڑنا برا ہے۔ ادائیگی باعث ثواب‘ گرک کرنے پر کوئی جزا لازم نہیں۔
-1 حج افراد یا حج قرآن والے کے لیے طواف قدوم (جو آفاقی ہو)‘ -2 رمل (ابتدائی تین چکروں میں) طواف قدوم میں۔ -3 مکہ منیٰ عرفات میں امام کے خطبے سننا‘ -4 9 ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں قیام‘ -5 9 ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے عرفات جانا‘ -6 عرفات میں غسل کرنا‘ -7 قیامِ مزدلفہ (عرفات سے واپسی پر رات کا اکثر حصہ مزدلفہ میں ذکر و عبادت میں گزارنا‘ -8 ایام منیٰ کے دوران منیٰ میں شب گزارنا‘ -9 منیٰ سے (مکہ واپسی پر) وادی محصب میں ٹھہرنا (چاہے ایک لحظہ)
عمرہ:
پاکستان سے آنے والے عازمین حج (حج تمتع) کے پہلے مرحلے میں مکہ مکرمہ پہنچتے ہی عمرہ ادا کریں گے۔ عمرہ میں دو فرض ہیں -1 احرام‘ -2 خانہ کعبہ کا طواف اور دو واجب ہیں -1 صفاء و مروہ کے درمیان سعی‘ -2 سر کے بال منڈانا (حلق) یا بال کتروانا (قصر)۔
احرام:
پاکستان آ نے والے زائرین حالتِ احرام میں ہوں گے اور اپنے شہر/ائرپورٹ/میقات سے پہلے احرام بہ نیت عمرہ باندھ کر آئیں گے‘ تلبیہ وردِ زبان ہوگا اور اب دخولِ حرم (خانہ کعبہ) کے بعد طواف کریں گے۔
طوافِ کعبہ:
بیت اللہ شریف اور حطیم کے گرد چکر/پھیرے لگانے کو طواف کہتے ہیں۔ ایک طواف میں سات پھیرے/چکر (شُوط) ہوتے ہیں‘ طواف کا چکر حجراسود کے استلام (حجر اسود کو بو سہ دینے‘ چھونے‘ چومنے یا بھیڑ بھاڑ میں ہاتھ یا چھڑی کے اشارہ کے بعد چوم لینا) سے شروع ہوتا ہے اور وہیں پہن چکر ختم ہوتا۔ طواف کی نیت ضروری ہے بغیر نیت (دل سے‘ زبان سے) کے طواف نہ ہوگا۔
نیت طواف:
اللھم ان ارید طواف بیتک الحرام فیسرہ لی و تقبلہ منی سعبۃ اشواط ﷲ تعالیٰ طواف حجر اسود کے استلام سے بسم اﷲ و الحمدﷲ و ﷲ اکبر والصلوٰۃ و السلام علیٰ رسول اﷲ پڑھ کر دائیں طرف چلنے سے شروع ہوگا اور دروازہ بیت اللہ رکن عراقی‘ عطیم رکن شامی‘ رکن یمانی کو شامل کرتے ہوئے حجر اسود پر مکمل ہوگا۔ ہر چکر کی الگ دعا اگرچہ کتابوں میں کھی ہے لیکن کوئی خاص دعا مسنون نہیں۔ تیسرے کلمہ کی کثرت رکھنا چاہیے۔ سبحان اﷲ و الحمدﷲ و لا الٰہ الا اﷲ و اﷲ اکبر و لاحول والا قوۃ الا باﷲ اور جو دعائیں چاہے مانگیں تکبیر تہلیل درود‘ تلاوت کر سکتا ہے۔ رکن یمانی سے حجر اسود تک پہنچنے کے دوران یہ دعا خاص ہے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃحسنۃ و قنا عذاب النار۔ وادخلنا الجتمع الا برار یا عزیز یا غفار یا رب العالمین۔
طواف کے سات چکروں میں یہ خیال رہے کہ ہر حال میں سینہ بیت اللہ کے مقابل نہ آنے پائے بلکہ بایاں شانہ مقابل رہے۔ اس طواف میں مردوںکے لیے پہلے تین چکروں میں رمل (قدم قدرے تیزی سے اٹھاتے ہوئے مونڈھوں کو ہلا کر پہلوانوں کی طرح چلنا) اور اضطباع (احرام کی چادر کواس طرح اوڑھنا کہ دایاں کندھا کھلا رہے یعنی چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لینا۔) بھی کرنا ہوگا طواف مکمل کرکے۔
ملتزم:
بیت اللہ کے دروازے اور حجراسود کے درمیان ی دیوار/حصہ/چوکھٹ سے لپٹ کر بھرپور دعائیں مانگیں‘ روئیں‘ گڑگڑائیں‘ التجا کریں۔
دوگانہ:
(واجب طواف) مقام ابراہیم پر یا جہاں جگہ ملے ادا کریں۔دعا سے فارغ ہو کر آبِ زم زم پیٹ بھر کر پئیں اور استلام کرکے سعی کریں۔
سعی:
(صفا مروہ کے مابین) آغاز صفا سے ہوگا۔ پہاڑی پر کھرے ہو کر قبلہ رخ ہو کر دعا کریں اور سعی کی نیت کریں۔ نیت سعی اللھم انی ارید السعی بین الصفا و المرو سبعۃ اشواط لوجہک الکریم فیسرہ لی و تقبلہ منی۔ ہاتھ اٹھا کر تکبیر و تہلیل کریں اور سعی شروع کر دیں صفا سے مروہ تک جانا ایک چکر اور مروہ سے صفا تک واپس آنا دوسرا چکر ہوگا۔ اس طرح ساتواں چکر مروہ پر مکمل ہوگا۔ سعی کے لیے بھی دعائیں مخصوص نہیں کتابوں میں درج شدہ دعائوں کے علاوہ بھی ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔ مرد سبز ستونوں میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلیں۔سعی کے دوران یہ دعا مختصر اور مسنون ہے رب اغفر و ارحم انت الا عزالا کرم۔
حلق یا قصر:
سعی سے فارغ ہو کر مرد حلق یا قصر کرائیں اور عورتیں بال کی نوکیں ایک پور کٹوائیں۔ اور نہا دھو کر فارغ ہو جائیں۔ عمرہ مکمل ہو گیا۔ احرام کھول دیں‘ عامِ لباس پہن لیں۔
اب عبادت و ریاضت میں مشغول رہ کر حج 8 ذی الحجہ کا انتظار کریں۔
حج کی ادائیگی اور عبادت کی تکمیل اور
مناسک و ارکان حج کے 5 کا خلاصہ
پہلا دن: 8 زی الحجہ یوم الترویہ:
-1 غسل یا وضو کے بعد احرام باندھنا۔ (لباس احرام‘ نیت‘ تلبیہ‘ دوگانہ۔)
حج کے احرام کی نیت اللھم انی ارید الحج فیسرہ لی و تقبلہ منی۔
احرام باندھ کر دو رکعت نفل سر ڈھک کر پڑھیں‘ سلام پھیر کر سر کھول دیں‘ نیت کریں اس کے بعد مرد بلند آواز سے عورتیں آہستہ آہستہ تین مرتبہ تبلیہ پڑھیں۔
-2 احرام باندھ کر (ظہر سے پہلے) منیٰ کو روانگی راستے میں تلبیہ ذکر۔
-3 منیٰ میں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشا کی نمازیں۔
-4 منیٰ میں قیامِ شب (سنت) 8 ذی الحجہ کی رات۔
دوسرا دن: 9 ذی الحجہ یومِ عرفہ:
نمازِفکر منیٰ میں ہی ادا کریں (نماز کے بعد تکبیر مستحب جو 13 ذی الحجہ کی عصر تک پڑھی جائے گی۔ تلبیہ بھی پڑھیں 10 ذی الحجہ کو تلبیہ رمی جمرۂ عقبہ کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔)
طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کے لیے روانگی راستے میں تکبیر‘ تہلیل‘ تلبیہ کا ورد‘ پیدل جانا مستحب ہے۔ اگر ممکن ہو تو ظہر اور عصر کی نمازیں مسجد نمرہ میں امام کے ساتھ پڑھیںاور خطبہ سنیں۔ (حرم کی حد مسجد نمرہ کے پاس ختم ہو جاتی ہے۔)
مسجد نمرہ نہ جاسکیں تو اپنے اپنے خیموں یا قیام گاہوں میں ظہر کے وقت ظہر کی نماز اور عصر کے وقت عصر کی نمازبا جماعت ادا کریں۔ (جبل رحمت کے پاس ٹھہرنا افضل ہے۔)
وقوفِ عرفات حج کا رکنِ اعظم اور فرض ہے وقوف بہتر ہے کھڑے ہو کر کریں تھکن ہو تو بیٹھ سکتے ہیں اس دوران تلبیہ تکبیر تہلیل درود‘ دعا توبہ استغفار کی کثرت اور مناجات میں مشغول رہنا چاہیے۔ (بطن عرفہ میں وقوف منع ہے۔)
غروب آفتاب کا یقین ہو جائے تو مزدلفہ کے لیے روانگی (مغرب پڑھے بغیر) مزدلفہ چاہے جس وقت پہنچیں پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان‘ ایک اقامت کے ساتھ ادا کریں (پہلے فرض مغرب پھر فرض عشاء پھر سنتیں وتر وغیرہ) جماعت شرط نہیں۔رات مزدلفہ میں قیام (سب قدر سے افضل ہے۔)
رمی جمرات کے لیے 70 کنکریاں چن لیں۔ (کھجور کی گٹھلی یا مٹر کے برابر۔)
جس نے عرفات میں وقوف کر لیا اس نے حج پا لیا۔ (مسجد نمرہ موقف نہیں وہاں وقوف نہ کیا جائے۔) مغرب کی نماز نہ عرفات میں ادا کی جائے نہ مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت سے پہلے پڑھی جائے عشاء کا وقت ہونے پر مغرب پڑھیں۔
تیسرا دن: 10 ذی الحجہ (یومِ عید):
وقوف مزدلفہ (واجب) نماز فجر جلدی پڑھ کر طلوع آفتاب سے چار‘ پانچ منٹ پہلے تک وقوف کریں اور منیٰ کے لیے روانہ ہو جائیں۔
رمی جمرۂ عقبہ (واجب) طلوع آفتاب سے زوال تک مسنون‘ غروب آفتاب تک جائز‘ عورتوں اور ضعیفوں کے لیے بعد میں بھی مکروہ نہیں‘ تلبیہ بند کردیں۔
قربانی کریں پھر حلق یا قصر پھر طواف زیارت کے لیے مکہ مکرمہ جائیں (حلق یا قصر کے بعد عام لباس پہن سکتے ہیں اور اسی میں طوافِ زیارت بھی کر سکتے ہیں۔)
صفا مروہ کی سعی:
طوافِ زیارت کے بعد منیٰ واپس جائیں اور قیام کریں۔ (رات میں)
(طوافِ زیارت کا افضل وقت 10 ذی الحجہ ہے لیکن 12 ذی الحجہ کو مغرب تک کیا جاسکتا ہے۔)
مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے راستذے میں وادی محشر (جگہ جہاں اصحاب فیل پر عذاب ہوا تھا) ملے گی‘ یہاں سے بہت تیزی سے نکل جائیں اور یہ دعا پڑھیں اللھم لا تقتلنا بغضبک والا تھلکنا بعذابک و عافنا قبل ذلک۔
چوتھا دن: 11 ذی الحجہ ایام تشریق:
منی میں رمی (کنکریاں مارنا) جمرات (شیطانوں کو) پہلے چھوٹے شیطان (جمرہ اولیٰ) کی‘ پھر درمیانی شیطان (جمہ وسطیٰ) کی پھر بڑے شیطان جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد توقف کرکے قبلہ رو ہو کر دعا کریں۔ لیکن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد نہ ٹھہریں نہ دعا کریں۔ پھر قیام گاہ میں آجائیں۔
پانچواں دن: 12 ذی الحجہ ایامِ تشریق:
اگر قربانی یا طوافِ زیارت اب تک نہ کرسکے ہوں تو آج کرلیں۔ زوال آفتابن کے بعد تینوں شیطانوں (جمرات) کی رمی (11 ذی الحجہ کی ترتیب سے یعنی پہلے اولیٰ پھر وسطیٰ اور آخر میں عقبہ کی) کریں۔
مکہ مکرمہ کو واپسی:
اگر 13 ذی الحجہ کو منیٰ میںقیام کا ارادہ نہ ہو تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہو جائیں۔ اگر 12 ذی الحجہ کو آفتاب غروب ہو گیا تو مکہ نہیں جا سکتے‘ 13 ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام بھی کرنا ہوگا اور رمی بھی واجب ہوگی۔
وطن واپسی کے وقت (حج کا آخری واجب) طوافِ وداع کرنا ہوگا۔طوافِ وداع کو طواف صدر اور رخصتی طواف بھی کہتے ہیں۔

حصہ