قیصروکسریٰ قسط(56)

208

جاہلی غرور انہیں دین اسلام کے متعلق کھلے بندوں اُس خوف و اضطراب کے اظہار کی اجازت نہ دیتا تھا جو اُن کے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں تھا اور وہ اسے کھوکھلے قہقہوں اور اداس مسکراہٹوں میں چھپانے کی کوشش کررہے تھے لیکن اس ظاہری احتیاط کے باوجود کسی نہ کسی کی زبان پر کوئی ایسی بات آجاتی کہ اُن کے قہقہے حلق میں اٹک کر رہ جاتے۔
ولید بن مغیرہ کہہ رہا تھا۔ ’’اگر یہ بات درست ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے چند سال کے اندر اندر رومیوں کی فتح کے متعلق پیش گوئی کی ہے تو مجھے یقین ہے کہ اُس کا جادو دیر تک نہیں چلے گا۔ اب تک ہم نے اپنے معبودوں کے خلاف عبدالمطلب کے پوتے کی باتیں برداشت کی ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب اُن پر ایمان لانے والے مکہ کے چوراہوں میں کھڑے ہو کر اُسے جھٹلائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ایرانی، اہل روم کو صفحہ ہستی سے نابود کیے بغیر دم نہیں لیں گے۔ شام کے حالات سے مکہ کا کوئی اور آدمی ابوسفیان سے زیادہ باخبر نہیں۔ تم انطاکیہ، حلب، دمشق اور یروشلم کی تباہی کا حال سن چکے ہو۔ روم کے عیسائی بھیڑوں کا ریوڑ ہیں جنہیں ایران کے شیروں نے سمندر کی طرف ہانک دیا ہے۔ اور تم عنقریب سن لو گے کہ انہوں نے شام کی طرح مصر میں بھی رومیوں کے اقتدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہمارے قریب وہ ملک جہاں رومیوں کو مغلوب ہونے کے بعد غلب آنے کی بشارت دی گئی ہے شام کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا لیکن یہ پیش گوئی کرتے کرتے وقت محمد (سلی اللہ علیہ وسلم) کو شاید اِس حقیقت کا علم نہ تھا کہ کسریٰ کا لشکر شام پر مکمل فتح حاصل کرچکا ہے اور رومی صدیوں تک دوبارہ اِس طرف دیکھنے کی جرأت نہ کریں گے۔ لیکن کاش! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ پیش گوئی کی ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ جب چند سال بعد رومی مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گے اور وہ یہ دیکھے گا کہ اب اُن کے دوبارہ اُٹھنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہی تو وہ اس پیش گوئی سے صاف انکار کردے گا‘‘۔
ابوجہل نے کہا۔ ’’چچا! میں بذاتِ خود اِس بات کی تصدیق کرچکا ہوں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے واقعی یہ پیش گوئی کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں لیکن میں کم و بیش دس مسلمانوں سے اس کی تصدیق کرچکا ہوں۔ مجھے اس بات پر تعجب نہیں کہ عبدالمطلب کے پوتے نے ایک انہونی بات کہی ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ مجھے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ملا جسے اس پیش گوئی کی صداقت میں ذرّہ بھر شبہ ہو۔ وہ سب یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے اُن کے نبیؐ کو قرآن کی آیات میں یہ بشارت دی ہے اور قرآن کی کوئی آیت غلط نہیں ہوسکتی۔ اُبیّ بن خلف نے ابوبکرؓ کے سامنے اِس آیت کا مذاق اُڑایا تھا اور اُسے شرط بدلنے کی دعوت دی تھی۔ چناں چہ ابوبکرؓ نے یہ شرط مان لی ہے کہ اگر تین سال کے اندر اندر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو وہ اُسے دس اونٹ دے گا ورنہ اُبیّ بن خلف کو دس اونٹ دینے پڑیں گے‘‘۔
عتبہ بن ربیعہ نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ دُنیا کی کوئی طاقت اب ایران کی فتح کو شکست میں تبدیل نہیں کرسکتی لیکن میں حیران ہوں کہ مسلمان ایرانیوں کی شکست کی پیش گوئی سے کیوں مسرور ہیں۔ انہیں اِس سے کیا تعلق ہے کہ شام میں کون ہارتا ہے اور کون جیتتا ہے‘‘۔
ابوجہل نے جواب دیا۔ ’’اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کئی باتیں مشترک ہیں اور جب سے ہم نے انہیں یہ طعنے دینے شروع کیے ہیں کہ جس طرح شام کے عیسائی ایرانیوں کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کررہے ہیں اِسی طرح ہم بھی تمہیں صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔ اس وقت سے انہیں ہماری طرح ایرانیوں سے بھی دشمنی ہوگئی ہے۔ مکہ میں جب ایرانیوں کی کسی نئی فتح کی خبر آتی تھی تو مسلمانوں کا ردّعمل دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اِسے اپنی شکست محسوس کرتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُن کے حوصلے قائم رکھنے کے لیے یہ پیش گوئی کی ہے۔ لیکن آپ سب اس بات پر حیران ہوں گے کہ اس پیش گوئی کے بعد مسلمان صرف رومیوں کے دوبارہ غالب آنے پر ہی نہیں بلکہ اپنی فتح کے متعلق بھی پُرامید ہوگئے ہیں۔ قرآن کی جو آیات میں نے سُنی ہیں اُن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رومیوں کے فتح کے دن مسلمان بھی اپنی فتح پر خوشیاں منائیں گے۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیرو جس دشمن پر فتح حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ کون ہے۔ ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ روم و ایران کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے لیکن ہمیں اپنے مستقبل کے اُن خطرات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کے باعث پیش آسکتے ہیں‘‘۔
حاضرین اضطراب کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور محفل پر تھوڑی دیر کے لیے خاموشی طاری ہوگئی۔ بالآخر ولید بن مغیرہ نے کہا۔ ’’میرا دانشمند، دوراندیش اور بہادر بھتیجا مسلمانوں کے مسئلے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کا عادی ہوچکا ہے۔ اِس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہر بات سننا اور اُسے جھٹلانا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ دوسروں کے لیے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں سے دور رہیں اور ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کوئی بات نہ سنیں۔ لیکن اِس کی اپنی یہ حالت ہے کہ علی الصباح بستر سے اُٹھتے ہی اسے سب سے پہلے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ آج رات اُس پر کون سی آیت نازل ہوئی ہے۔ مجھے ہمیشہ اِس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں اس پر بھی اُس کا جادو اثر نہ کرجائے‘‘۔
ولید بن مغیرہ ہنس رہا تھا اور حاضرین شرارت آمیز مسکراہٹوں کے ساتھ اُس کے بھتیجے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ابوجہل پاس ادب سے کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا لیکن جب حاضرین کی مسکراہٹیں دبے دبے قہقہوں میں تبدیل ہونے لگیں تو وہ اچانک کھڑا ہوگیا۔ عرب کا سارا غرور اِس دراز قامت انسان کی نگاہوں میں آگیا تھا۔ اُس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’چچا! آپ میری باتیں مذاق نہ سمجھیں۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس کے ماننے والوں سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ آپ کی طرح میری رگوں میں بھی ولید کا خون ہے۔ عبدالمطلب کے پوتے کا جادو بنو ہاشم کے کمزور افراد پر چل سکتا ہے، مجھے متاثر نہیں کرسکتا۔ اگر قریش کے تمام خاندان، بلکہ پورے عرب کے قبائل بھی مسلمان ہوجائیں تو بھی میں تنہا اُس کا مقابلہ کرنے کی جرأت رکھتا ہوں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اسلام دشمنی میں سب سے آگے ہوں۔ مجھے اِس بات پر فخر ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُس پر ایمان لانے والوں کو سب سے زیادہ اذیتیں میں نے پہنچائی ہیں۔ مجھے اِس بات پر بھی فخر ہے کہ اِس نئے دین کے باعث عرب میں قریش کے مستقبل کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں اُن کی طرف سب سے پہلے میں نے توجہ دی ہے۔ آپ مجھے بے حمیت یا بے غیرت ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتے۔
لیکن آج سردرانِ قریش میری بات غور سے سن لیں۔ عرب میں ہماری اہمیت، ہمارا اقتدار اور ہماری عزت صرف اس لیے ہے کہ ہم کعبے کے متولّی ہیں۔ ہم کعبے کے اُن تین سو ساٹھ بتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں جن کے لیے دور دراز کے قبائل نذریں اور چڑھاوے لے کر آتے ہیں۔ یہ وہ معبود ہیں جن کی بدولت اِس بے آب و گیادلوی کے باشندوں کو ایسی دولت اور عزت نصیب ہوئی ہے جو عرب کے کسی قبیلے کے حصے میں نہیں آئی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے ان معبودوں کا دشمن ہے۔ اُس نے یہ کہا ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر جن کو پوجتے ہو وہ سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ اب قریش کے کسی فرد کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا بس چلا تو وہ ہمارے معبودوں پر ہاتھ ڈالنے سے دریغ کرے گا۔ اور تمہیں اس بارے میں بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جب اس نئے دین کے ہاتھوںہمارے معبود شکست کھا جائیں گے۔ جب کعبہ ہمارے بتوں سے خالی ہوجائے گا تو عرب کے اندر قریش کی کوئی اہمیت باقی رہ جائے گی۔ آج مکہ عرب کا مذہبی، تجارتی اور سیاسی مرکز ہے لیکن جس دن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارادے پورے ہوجائیں گے۔ یہ فاقہ کش چرواہوں کی ایک گمنام بستی ہوگی۔ پھر دور دراز کے لوگ یہاں حج کے لیے نہیں آیا کریں گے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین ہمارے سینے پر ایک خنجر ہے اور ہمیں اُس وقت کا انتظار کرنا چاہیے کہ یہ خبر ہمارے دل میں اُتر جائے۔ اُس نے صرف ہمارے اسلاف کے مذہب کے خلاف ہی بغاوت کا جھنڈا بلند نہیں کیا بلکہ عرب کی اُن تمام روایات کے خلاف آواز بلند کی ہے جو ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ اُس کے نزدیک قریش اور دوسرے عربوں کے رتبے میں کوئی فرق نہیں۔ وہ غلام اور آقا کو ایک ہی صف میں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے نزدیک حبشی گلام بھی ہماری ہمسری کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اُس کے نزدیک انسان کی برتری اور عظمت کا راز اُس کے حسب و نسب میں نہیں بلکہ اعمال میں ہے۔ اُس کی نگاہ میں قریش کے عالی نسب سرداروں کے مقابلے میں ہمارے وہ حقیر لونڈی، غلام افضل ہیں جو اُس کی صداقت پر ایمان لے آئے ہیں‘‘۔
امیہ بن خلف نے ولید بن مغیرہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’جناب! میں آپ کے بھتیجے کو قریش کی ننگی تلوار سمجھتا لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمانوں سے اس قدر خائف ہے۔ کیا اس مطمئن کرنے کے لیے یہ بات نہیں کہ اُن میں سے کئی مکہ چھوڑ کر حبشہ کی طرف بھاگ رہے ہیں؟ کیا یہ ہمیں اتنا کمزور سمجھتا ہے کہ باقی چند آدمی میں بھاگنے کی بھی سکت نہیں ہمیں نگل جائیں گے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا کوئی جاسوس موجود نہیں ورنہ ایسی باتیں سن کر وہ شیر ہوجاتا‘‘۔ ابوجہل نے غصے سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اُمیہ! جب کسی میدان میں ان لوگوں کا سامنا کرنے کا وقت آئے گا تو تم مجھے بزدلی کا طعنہ نہیں دے سکو گے۔ لیکن دور اندیشی تمہارے نزدیک بزدلی کے مترادف ہے تو مین تمہارے منہ پر ہاتھ نہیں رکھ سکتا۔ میری بات غور سے سنو! ہمارا مقابلہ صرف گوشت خون اور ہڈیوں سے بنے ہوئے انسانوں کے ساتھ نہیں اگر یہ بات ہوتی تو تمہارا غلام بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جسے دہشت زدہ کرنے کے لیے تمہاری پیشانی کی ایک ہلکی سی شکن ہونی چاہیے تھی اس جرأت کا مظاہرہ نہ کرتا۔ تم اُسے اسلام سے منحرف کرنے کے لیے سارے جتن کرچکے ہو۔ تم اُسے جلتے ہوئے پتھروں اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر دیکھ چکے ہو۔ تم نے کوڑے مار مار کر اُس کا چمڑا اُدھیڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جب تمہارے ہاتھ تھک جاتے تھے تو تم اُسے مارنے پیٹنے اور گھسیٹنے کے لیے مکہ کے لڑکوں کے حوالے کردیتے تھے۔ جسم کی وہ کون سی اذیت ہے جو تم نے اُسے نہیں دی‘‘۔
اُمیہ بن خلف نے کہا۔ ’’یہ میرا فرض ہے اور جب تک وہ ہار نہیں مانتا میں اُس کے ساتھ یہ سلوک جاری رکھوں گا۔ تمہیں میرے غلام کی حمایت میں زبان کھولنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
ابوجہل نے جواب دیا۔ ’’تمہیں یہ کیسے خیال آیا کہ میں ایک مسلمان کی حمایت کرسکتا ہوں اور وہ بھی ایک غلام کی؟‘‘۔
’’توپھر تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘۔
ابوجہل نے جواب دیا۔ ’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مکہ کے اندر کوئی ایسا انقلاب آچکا ہے جو میری اور تمہاری نہیں، بلکہ ہم سب کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر بنو ہاشم کا کوئی معزز آدمی اپنی خاندانی حمیت سے مجبور ہو کر عبدالمطلب کے پوتے کی حمایت پر اُتر آئے تو یہ بات میری سمجھ میں آسکتی ہے۔ لیکن اگر وہ ضعیف عورتیں وہ کمزور اور بے بس غلام جنہیں کبھی ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا تھا ہمارے سامنے تن کر کھڑے ہوجائیں تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ میں نے عمارؓ کی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا لیکن جب میری برچھی اُس کے سینے کے پار ہوگئی تھی تو بھی وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلمہ پڑھ رہی تھی۔ میں اُس کی نگاہوں میں موت کا خوف دیکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے ناکامی ہوئی۔ میں نے زنبیرہؓ کو مار مار کر اندھا کردیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں اُس کی کھال اُدھیڑ ڈالوں تو بھی وہ اسلام سے تائب نہیں ہوگی۔ تم خباب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر دیکھ چکے ہو اور دوسرے مسلمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچانے میں بھی تم نے کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کیا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم کسی انتہائی کمزور اور بے بس مسلمان کو بھی اپنے اسلاف کے دین پر واپس نہیں لاسکے۔
(جاری ہے)

حصہ