شعرو شاعری

262

علامہ اقبال
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

فراق گورکھپوری
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجشِ بے جا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطرِ بیمارِ شکیبا بھی نہیں
بات یہ ہے کہ سکونِ دلِ وحشی کا مقام
کنجِ زنداں بھی نہیں وسعتِ صحرا بھی نہیں
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں
آہ یہ مجمعِ احباب یہ بزمِ خاموش
آج محفل میں فراقِؔ سخن آرا بھی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں
یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں
فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم
چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں
منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

احمد فراز
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
غم بھی نشہ ہے اسے اور فزوں ہونے دے
جاں پگھلتی ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

شاعر لکھنوی
ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا
لٹ گئی دولتِ احساس تو پھر کیا ہوگا
کون تا صبح جلائے گا تمنا کے چراغ
شام سے ٹوٹ گئی آس تو پھر کیا ہوگا
جن کی دُوری میں وہ لذت ہے کہ بیتاب ہے دل
آ گئے وہ جو کہیں پاس تو پھر کیا ہوگا
ہم پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشاں ہوں گے
تم کو آئی نہ خوشی راس تو پھر کیا ہوگا

مظہر امام
پھر آپ نے دیکھا ہے محبت کی نظر سے
گزرے نہ کہیں گردشِ دوراں بھی اِدھر سے
پوچھیں تو ذرا پیچ و خمِ راہ کی باتیں
کچھ لوگ ابھی لوٹ کے آئے ہیں سفر سے
شاید کہیں سورج کی کرن شام کو پھوٹے
ہم شمع جلائے ہوئے بیٹھے ہیں سحر سے
لوگو! مری آشفتہ سری، پر نہ کرو طنز
الزام اتارو کوئی اس زلف کے سر سے
تارے تو چمک اپنی دکھاتے ہیں سحر تک
دل ڈوبنے لگتا ہے مگر پچھلے پہر سے
غیروں کے جہاں تیری عنایت سے ہیں سیراب
اے کاش! یہ بادل مری دنیا پہ بھی برسے

عبدالمجید حیرت
مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے
آؤ، کچھ ان سے بھی دیکھیں کہہ کے
اس تغافل پہ بھی اللہ اللہ
یاد آتا ہے کوئی رہ رہ کے
ہے روانی کی بھی حد اک آخر
موج جائے گی کہاں تک بہہ کے
کوئی طالب ہی نہیں تھا، ورنہ
پھول تو باغ میں اکثر مہکے
سچ تو یہ ہے کہ ندامت ہی ہوئی
راز کی بات کسی سے کہہ کے

حسن نعیم
پاگئے جب رازِ غم تو سر جھکا کر کھو گئے
آتشِ قربت کی لَو سے دور گویا ہوگئے
مصلحت ہوگی مگر غیروں نے پھینکے برگِ گل
راہِ غم میں جس جگہ احباب کانٹے بو گئے
ہم تو کیا کہتے کسی سے اپنی تنہائی کا حال
جن کو ہونا تھا رفیقِ جاں وہ خود ہی ہوگئے
دل کے کام آئی دعائے شب نہ شمعِ آگہی
حادثے جتنے بھی ہونے تھے وہ آخر ہوگئے
کتنے رہبر سمتِ نقشِ کارواں واپس ہوئے
تھک کے کتنے قافلے منزل سے پہلے سو گئے
ہم تمہیں ڈھونڈا کیے وادی و صحرا میں نعیمؔ
تم نہ جانے کون سی راہوں میں جاکر کھو گئے

زہرہ بانو نگاہ
خوش جو آئے تھے پشیمان گئے
اے تغافل تجھے پہچان گئے
خوب ہے صاحبِ محفل کی ادا
کوئی بولا تو برا مان گئے
کوئی دھڑکن ہے نہ آنسو نہ اُمنگ
وقت کے ساتھ یہ طوفان گئے
اس کو سمجھے کہ نہ سمجھے لیکن
گردشِ دہر تجھے جان گئے
اس جگہ عقل نے دھوکا کھایا
جس جگہ دل ترے فرمان گئے

اے ما و صد چو ما ز پئے تو خراب و مست
ما بے تو خستہ ایم، تو بے ما چگونہ ای

مولانا رومیؒ
شعر کاترجمہ
اے کہ ہم اور ہمارے جیسے سینکڑوں تیرے لیے اور تیرے عشق میں خراب اور مست ہیں، ہم تو تیرے بغیر خستہ حال ہیں، تُو بتا تُو ہمارے بغیر کیسا ہے؟

حصہ