وہ پاگل سی

196

سرخ اور سنہرے گتے کا شادی کارڈ دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرادی۔ ’’رضیہ باجی کی بیٹی کی شادی کا کارڈ ، کون لایا؟‘‘ اس نے ساس سے پوچھا۔
’’تمہارے ابا لائے تھے، بڑی جلدی میں تھے میں نے بہت روکا کہ تم آتی ہوگی‘ کہنے لگے بہت جگہ کارڈ دینے ہیں اور بہت سے کام ہیں رضیہ اتنی دور بیٹھی کیا کیا کرے گی۔‘‘
’’چلیں گے اماں۔‘‘ کارڈ پر نظر جمائے اس نے ساس سے کہا۔
’’میں کہاں جاؤں گی، تم لوگ چلے جانا۔‘‘
’’نہیں اماں! آپ بھی چلیے گا۔ آپ اکیلی کہاں رہیں گی، بہت مزا آئے گا۔‘‘ خوشی کے آثار اس کے کھلے کھلے چہرے پر تھے۔
وہ سوچوں میں گم ہنس دی۔ ماضی کی کتاب کے ورق پھڑ پھڑائے اور نہ جانے کیا کچھ یاد آتا چلا گیا۔
ابا کو بچوں کو خاص طور پر بیٹیوں کو‘ پڑھانے کا شوق تھا اور اماں کو ان کی شادی کی فکر کھائے جاتی تھی۔ رضیہ باجی نے میٹرک کا امتحان کیا دیا اماں تو ابا کے پیچھے ہی پڑ گئیں ’’بس اب شادی کردیں رضیہ نے بہت پڑھ لیا۔‘‘
’’بہت پڑھ لیا…‘‘ ابا ہنسے ’’اری نیک بخت! میٹرک کچھ بھی نہیں آج کے زمانے میں، رضیہ کو ایک دو سال کالج میں گزارنے دے۔ شادی بھی ہو جائے گی۔‘‘ ’‘مجھے بھی احساس ہے… ایک نہیں ، آگے پیچھے کی تین ہیں۔ کالج بھیجنے کی کیا ضرورت ہے‘ رضیہ کو سارے کام آتے ہیں… کھانا پکانا‘ سینا پرونا ایک سے ایک کپڑے سیتی ہے اچھے سے اچھا کھانا پکاتی ہے۔ بس رشتہ ڈھونڈیئے… شادی ہوتے ہوتے سال تو لگ ہی جائے گا۔‘‘ اماں اپنی سی کہے جارہی تھیں۔
ادھر رضیہ باجی کالج گئیں، اُدھر ملتان سے نگار پھپھو امتیاز بھائی کا رشتہ لیے آموجود ہوئیں۔ اماں تو جیسے خوشی سے نہال ہو گئیں۔
’’نگار کے شوہر کا اپنا میڈیکل اسٹور بھی ہے اور جنرل اسٹور بھی۔ اپنا گھر ہے، جما جمایا کاروبار۔ دیکھے بھالے شریف لوگ اور کیا چاہیے۔‘‘ رات ہوتے ہی اماں ابا کو سمجھانے لگیں۔
’’ہاں بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو، منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘ ابا کے لہجے میں اطمینان تھا۔
اگلے دن ابا کے ہاں کہتے ہی ہنگامہ شروع ہو گیا۔ پھپھو تو منگنی کا جوڑا اور انگوٹھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔ قریب کے رشتے دار جمع ہوئے اور نگار پھپھو نے گلابی جوڑے میں شرماتی لجاتی رضیہ باجی کو سونے کی خوب صورت انگوٹھی پہنادی۔ انٹر کے امتحان کے فوراً بعد رضیہ باجی دلہن بن کر ملتان کو سدھاریں۔ نگار پھپھو ہفتہ پہلے آگئی تھیں امتیاز بھائی کسی اور رشتے دار کے ہاں ٹھیرے تھے۔ اماں نے ایک ہفتہ خوب خوشیاں منائیں… سارے رشتے داروں کو ضد کرکے روکا، کھلایا پلایا۔ رات کھلے آنگن میں ساری کزنز نے شادی کے گیت گائے‘ عابدہ کہیں سے ڈبہ لے آئی کیوں کہ ڈھولک ابا نے منع کی ہوئی تھی مگر عابدہ نے ڈبے کو ہی ڈھولک بنا دیا۔ اماں اور پھپھو نے مل کر شادی کے سرخ دوپٹے پر گوٹا لگایا اور چوڑی سی کرن ٹانکی۔ شادی والے دن کرن لگ دوپٹے میں رضیہ باجی کا سانولہ چہرہ لشکارے مار رہا تھا اور ان کی پیشانی پہ ٹیکا چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔
رضیہ باجی کی رخصتی بھی کیا خوب ہوئی۔ دلہن کے ساتھ سارے رشتے دار ملتان روانہ ہوئے۔ اماں نے قورمے کی دیگ اور نان بنوائے تھے‘ جو ٹرین میں بھی کھائے گئے اور ملتان پہنچ کر ان کا ناشتا بھی ہوا۔ نگار پھپھو نے مہمان داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ تو بچھے جارہی تھیں‘ رضیہ باجی پر صدقے واری تھیں۔
رضیہ باجی کے شاندار مگر سادہ ولیمے سے واپس آکر اماں پیر کہیں رکھتیں، پڑتا کہیں اور تھا۔ ’’بیٹیوں کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے۔‘‘ وہ ابا سے کہتیں ’’بچیاں وقت پر اپنے گھر کی ہوجائیں یہ ماں باپ کا فرض ہے۔‘‘
’’جتنی آسانی سے رضیہ کی شادی ہوئی اور اللہ نے جتنی خوشیاں نصیب کیں، اللہ باقی دونوں کی بھی ایسی قسمت بنائے۔‘‘ اماں کہتیں ’’اور سنیں صفیہ اور رابعہ بھی کوئی بہت چھوٹی نہیں ، بے فکر مت ہو جائیے گا۔‘‘
’’ارے نیک بخت سانس تو لینے دے۔‘‘ ابا ہنستے۔
صفیہ کا میڈیکل میں نام آگیا۔ ابا چاہتے تھے وہ پڑھے۔ اماں نے دھیرے سے بس اتنا کہا ’’اور شادی؟‘‘
’’تم بھی کتنی سیدھی ہو، بھئی اللہ جیسے ہی مناسب رشتہ بھیجے گا شادی بھی کر دیں گے۔‘‘
میڈیکل کے چوتھے سال میں اس کی دوست کے بھائی کا رشتہ آیا، وہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جا رہا تھا۔ لڑکے والے چاہتے تھے نکاح ہو جائے اور پھر فائنل کے بعد صفیہ بھی ان کے پاس چلی جائے۔کوئی اماں کے دل پر ہاتھ رکھتا۔ ان کی تو دھڑکنیں ہی قابو میں نہیں آرہی تھیں۔ کبھی اندر جاتیں، کبھی باہر آتیں۔
’’کون سا وظیفہ پڑھتی ہو؟‘‘ ابا نے اماں کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
’’ہٹیں بھی کون سا وظیفہ پڑھوں گی… بس دعا کرتی ہوں کہ وقت پر بچے اپنے گھر کے ہو جائیں۔‘‘
’‘بات تو تم صحیح کہتی ہو‘ بچے بچیاں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں، اپنے گھروں میں ہنسیں بولیں اور ماں باپ کو کیا چاہیے۔‘‘
صفیہ کے نکاح پر ایک بار گھر خوشیوں اور رشتے داروں سے بھر گیا۔
’’صفیہ کی رخصتی کے بعد ہم کامران اور رابعہ کی شادی ایک ساتھ کردیں گے۔‘‘ مہمانوں کے جانے کے بعد اماں ابا سے کہہ رہی تھیں۔
’’تمہیں چین نہیں آئے گا، ابھی دو چار سال آرام سے بیٹھو۔‘‘
’’آرام سے تو اب بھی ہوں‘ بس بچے اپنے گھروں کے ہو جائیں۔‘‘
رابعہ بی اے میں تھی اور اماں کی نیندیں اُڑی ہوئی تھیں۔ اب تک کوئی رشتہ نہیں آیا۔ کسی نے دستک نہیں دی، نہ رشتہ دار نہ اجنبی۔
’’سنیں اپنے کسی دوست سے بات کریں۔‘‘ اماں نے ابا کو راستہ دکھایا۔ مگر ابا کی خودداری آڑے آگئی۔
’’لو بھلا اس میں کون سی بری بات ہے۔ ایک دوسرے سے کہنے ہی سے بات بنتی ہے اور ہمارے اصحاب نے بھی تو اپنی بیٹیوں کے لیے خود کہا تھا۔‘‘
’’اچھا… اچھا سوچوں گا‘سائرہ رابعہ پڑھ رہی ہے، پڑھنے دو‘ کامران کے لیے جب تک لڑکی دیکھ لو۔‘‘
’’یں نے بات کی تھی۔ اس نے فائنل تک رکنے کا کہا ہے۔ شاید کوئی لڑکی ہے اس کے ذہن میں۔‘‘
’’اچھا تو ماں بیٹے میں بات ہو چکی ہے۔‘‘ ابا ہنستے ہوئے بولے۔ ’’چلو بھئی ٹھیک ہے، بس صاحبزادے کی پسند بھی ڈھنگ کی ہو‘ ساس بہو میں بھی نبھ جائے۔‘‘
’’ساس‘ بہو کیا؟ میاں بیوی خوش رہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ کسی اچھے گھر کی ہوگی تو ہمارا بھی خیال کر لے گی۔‘‘
’’صحیح کہتی ہو۔‘‘
رابعہ نے ایم اے کے بجائے ایم بی اے کا انتخاب کیا۔ رابعہ کا ایم بی اے کا دوسرا سال تھا جب ابا کے کسی دوست نے اپنے بیٹے کے لیے کسی لڑکی کا کہا۔ لڑکا کسی فرم میں منیجر تھا‘ پڑھی لکھی لڑکی چاہیے تھی۔ ابا اماں کی نصیحت کے زیر اثر تھے، جھٹ سے رابعہ کا ذکر کر دیا۔ ابا کے دوست تو بغیر دیکھے تیار ہو گئے‘ مگر ابا نے کہا نہیں گھر کی خواتین کو بھیجیں‘ باہم ملاقات کریں‘ دیکھیں بھالیں۔
اگلے ہی دن عامر کی والدہ اور دو شادی شدہ بہنیں آگئیں۔ انہیں رابعہ پسند آگئی اور ان کے ہاں کرتے ہی اماں سجدے میں جا پڑیں۔ چھ مہینے بعد ہی اماں کے گھر میں پھر رونق میلہ لگ گیا۔ گھر کی آخری شادی تھی۔ رضیہ بچوں سمیت ملتان اور صفیہ لندن سے آئی۔ کامران کی شادی کے اگلے دن ولیمہ میں رابعہ کی بارات آئی اور رابعہ رخصت ہوگئی‘ رخصت ہوتے وقت رابعہ صرف ماں کا پُر سکون چہرہ دیکھ رہی تھی۔
عامر کے گھر آکر اسے پتا چلا کہ فلیٹ کے واجبات باقی ہیں۔ چھوٹے عمیر کی انجینئرنگ کا آخری سال ہے وہ کافی حد تک ٹیوشنز سے اپنے خرچ پورا کر لیتا ہے، چھوٹی نند عالیہ کا رشتہ طے ہے اور سال دو سال میں اس کی شادی کرنی ہے۔ عامر کی جاب بڑی باعزت تھی لیکن تنخواہ بس مناسب تھی جس سے بڑی مشکل سے یہ سارے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔ عامر اپنی جاب میں بڑی محنت کر رہا تھا لیکن دامن کی تنگی اسے فکر مند کر دیتی۔ رابعہ کو اللہ نے ابھی اولاد کی مصروفیت سے فارغ رکھا تھا۔ سال گزرنے پر عامر کے مشورے سے اس نے ایک اچھی کمپنی میں مینجمنٹ کی جاب شروع کردی۔
جاب اچھی تھی، ماحول مناسب تھا۔ خاصی تعداد میں کمپنی میں مختلف شعبوں میں خواتین تھیں۔ اس کی اسسٹنٹ سحرش اچھی پیاری سی محنتی لڑکی تھی۔ کمپیوٹر کورس کیا ہوا تھا۔ گزشتہ پانچ سال میں مختلف جگہوں پر جاب کر چکی تھی۔ اس کی باتوں سے لگتا تھا اس کا اکلوتا بڑا بھائی خاصا غیر ذمے دار ہے اور ماں باپ بھی زیادہ زور نہیں دیتے۔ رابعہ فارغ ہوتی تو سحرش سے بات ہوجاتی۔ کبھی کبھی وہ چائے بھی ساتھ ہی پی لیتے۔ اتنی پیاری لڑکی ہے وہ سوچتی لیکن ایک سوالیہ نشان اسے تنگ کرتا رہتا کہ ’’یہ کب تک جاب کرے گی ؟ یہ عمر تو گزر جائے گی، وقت آگے بڑھ جائے گا۔‘‘
اور وہ سوال جو رابعہ کو بہت تنگ کر رہا تھا ایک دن رابعہ نے کر ہی ڈالا ’’سنو! کہیں بات طے ہوئی ہے تمہاری؟‘‘
’’نہیں میڈم!‘‘
’’تمہارے تایا کے بیٹے کیا کرتے ہیں؟ وہاں نہیں ہو سکتی؟‘‘
’’نہیں میم! وہاں تو امی ہرگز نہیں کریں گی۔‘‘
’’کوئی اور رشتہ ہے؟‘‘ اپنی بیتابی سے رابعہ خود پریشان تھی۔
’’نہیں… کوئی رشتہ نہیں‘ میڈم ابھی تو مجھے جاب کرنی ہے۔ شادی کے جھنجھٹ میں کون پڑے۔‘‘ اور قہقہہ لگاتی آفس سے نکل گئی۔
’’سحرش کب تک بے فکری سے ہنستی رہے گی؟ کما کر اپنے گھر والوں کی آسائشوں کا سامان مہیا کرتی رہے گی۔‘‘ رابعہ کی آنکھوں کے کناروں سے پانی بہے چلا جارہا تھا۔

حصہ