ادھورے رشتے

230

’’عثمان! آیئے بیٹا… اندر آجایئے۔‘‘ رضوان نے عثمان کو بلایا‘ پر وہ جھجھکتے ہوئے دروازے پر ہی کھڑا رہا۔رضوان صاحب نے کمرے سے باہر آ کر عثمان کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے گئے۔
’’یہ ہیں آپ کی نئی مما۔‘‘ انہوں نے ایک سجی سنوری خاتون سے عثمان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
’’السلام علیکم، کیسے ہیں آپ؟‘‘ جویریہ نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
عثمان نے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھا اور اس کا دل کچھ بجھ سا گیا۔ جویریہ نے رسماً اُسے گلے لگایا اور وہ خدا حافظ کہتا ہوا باہر نکل آیا۔
ماں کی یاد کی شدت نے آج اسے پھر تکیہ بھگونے پر مجبور کر دیا تھا۔ رات کو اس کی مما تو بیٹھی اس وقت تک اس کا سر سہلاتی رہتی تھیں جب تک وہ نیند کی آغوش میں نہ چلا جاتا، پر اتنے دنوں بعد جب کہ اس نے ماں کے بغیر سونا سیکھ لیا تھا، نہ جانے آ ج نیند اس سے کیوں روٹھی روٹھی تھی اور اسے بھلا روٹھوں کو منانا کب آتا تھا۔
…٭…
پہلی بیوی کے انتقال کے کافی عرصے تک تذبذب کا شکار رہنے کے بعد رضوان صاحب نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا۔ بے انتہا حساس، دس سالہ عثمان اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ گھر کو گھر بنانے کے لیے جہاں ایک عورت کی ضرورت تھی، وہیں بیٹے کو ماں کی۔ پر نہ جانے عثمان اس رشتے کو قبول کر پائے گا بھی یا نہیں۔ بہرحال بہت سوچ بچار کے بعد جویریہ ان کی بیوی بن کر ان کی زندگی میں داخل ہو گئی۔ عورت کے وجود سے گھر میں تو مثبت تبدیلی نظر آئی پر عثمان کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہ آسکی۔ روز صبح اٹھ کر، بوا کا تیار کیا ہوا ناشتہ، پھر اسکول روانگی۔ واپسی پر وہ اکثر اکیلا ہی کھانا کھاتا۔ جویریہ کے کھانے کا وقت اس کی مصروفیات کے حساب سے ہوتا۔ رات کا کھانا البتہ سب ساتھ کھاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ جویریہ کا رویہ عثمان کے ساتھ خراب تھا یا عثمان کو اپنی نئی ماں سے امیدیں وابستہ تھیں پر ممتا بھری نگاہوں کا متلاشی عثمان کبھی جویریہ سے قریب نہ ہو سکا۔ بعض مرتبہ تو جویریہ کو اس کی کھوجتی نگاہوں سے کوفت ہونے لگتی۔
…٭…
’’بیٹا! اتنی دیر ہو گئی… کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ آپ آتے کیوں نہیں؟‘‘ رضوان صاحب نے آواز لگائی۔
عثمان نے آ کر کھانا نکالا اور خاموشی سے کھانے لگا۔
’’کیا بات ہے بیٹا!‘‘ رضوان صاحب نے پوچھا۔
’’بابا کل کا پیپر مشکل ہے، بس اس کی تیاری میں ہی دیر ہو گئی۔‘‘
’’ارے اس کے امتحان ہو رہے ہیں، مجھے پتا بھی نہیں چلا۔‘‘ جویریہ نے دل میں سوچا کہ وہ بھی کس قدر غافل ہے۔ ان چند مہینوں میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ عثمان ایک خاموش طبع، فرماں بردار بچہ ہے جس نے اتنے عرصے میں اسے شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ شاید ٹینشن میں وہ ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھارہا تھا۔ جلد ہی وہ پڑھائی کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اتنے عرصے میں جویریہ نے رضوان اور گھر کا تو بہت دھیان کیا پر عثمان کو قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھا۔ جویریہ کو اپنے رویے پر ندامت سی ہوئی۔ وہ بھی تو ایک جیتا جاگتا انسان تھا جسے اپنائیت کا احساس دلانے کی ضرورت تھی۔ کھانا سمیٹ کر وہ خود دودھ کی پیالی لے کر اس کے کمرے میں پہنچی تو وہ میز پر سر رکھے سو رہا تھا۔ اس نے شاید پہلی بار اس معصوم چہرے کو بغور دیکھا۔
’’بیٹا! اپنے بستر پر جا کر سویئے۔‘‘ عثمان کو سہارا دیتے ہوئے بستر پر لٹا کر جویریہ نے اسے کمبل اڑھایا اور بتی بند کر کے باہر آگئی۔
…٭…
جویریہ کو عثمان اچھا لگنے لگا تھا۔ بھولا بھالا، سادہ سا معصوم بچہ۔ وہ اکثر اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھنے لگی تھی۔ عثمان تو محبت کا بھوکا تھا۔ وہ بھی جویریہ سے مانوس ہونے لگا تھا اور اسے بلا جھجھک ’’مما‘‘ کہ کر پکارنے لگا تھا۔
…٭…
’’بابا! کل 15 تاریخ ہے ناں؟ آپ کی ویڈنگ انیورسری؟‘‘ عثمان نے رضوان سے پوچھا۔
’’جی بیٹا! آپ کو یاد ہے؟‘‘ رضوان صاحب نے خوش گوار حیرت سے پوچھا۔
’’جی بابا! مجھے مما کے لیے سرپرائز گفٹ لینا ہے۔‘‘ عثمان کی آنکھوں میں چمک ہی انھیں سرشار کر دینے کے لیے کافی تھی۔
’’ضرور… پر آپ کیا گفٹ دیں گے؟‘‘ رضوان کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
’’بابا! مما کو انگوٹھی بہت پسند ہیں‘ مجھے اچھی سی ایک رِنگ دلوا دیں۔‘‘
’’ضرور… چلو ابھی چلتے ہیں۔‘‘ رضوان صاحب نے فوراً رضامندی ظاہر کرتے ہوئے گاڑی کی چابی اٹھائی تو عثمان بھی خوشی خوشی ان کے ساتھ چل پڑا۔
’’پیاری مما کے لیے۔‘‘ عثمان نے کارڈ پر لکھ کر اسے گفٹ باکس پر لگایا اور اپنی دراز میں رکھ کر بستر پر لیٹ گیا۔
’’کل شام میں مما کو سرپرائز دوں گا تو وہ کتناخوش ہوں گی۔‘‘ اس کے لے یہ خیال ہی بہت خوش کن تھا۔
…٭…
وین کا ہارن بجنے پر عثمان نے بیگ اٹھایا۔
’’اوہ! گھڑی تو دراز میں ہی رہ گئی۔‘‘ اُس نے پریشان ہوتے ہوئے جویریہ سے کہا۔
’’آپ چلیں میں ابھی لا دیتی ہوں۔‘‘ جویریہ کہتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف لپکی۔ اس نے دراز کھولی تو اسے گفٹ نظر آیا۔ ’’پیاری مما کے لیے۔‘‘ وہ مسکرائی اور گھڑی نکال کر عثمان کو دینے چلی گئی۔ عثمان نے اس کی طرف دیکھا۔ جویریہ کی آنکھوں میں ممتا جھلک رہی تھی۔
’’آپ اسکول سے آ جائیں تو آ پ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ جویریہ نے اپنے اور رضوان کا شام کا پلان ملتوی کرنے اور عثمان کی پسند کا پروگرام بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے عثمان سے کہا تو وہ خوشی سے نہال باہر کی دوڑ گیا۔
…٭…
’’یار اسفند! آج کا دن بہت لمبا نہیں ہے؟ ابھی تو چار پیریڈز اور باقی ہیں۔‘‘ عثمان نے بریک میں اپنی دونوں ٹانگوں کو پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں آج گھڑی بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔‘‘ گھر میں پکی بریانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے تاب اسفند نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
عثمان جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ بریک ختم ہونے کی گھنٹی پر سب اپنی کلاسوں کو لوٹ گئے لیکن عثمان کا دل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار اس کا دھیان جویریہ اور اس کے لیے گئے تحفے اور سرپرائز کے وعدے کی طرف چلا جاتا۔ ایک مرتبہ ٹوکا گیا، پھر دوسری بار تو مس عطیہ نے اسے سزا کے طور پر کھڑا بھی کر دیا۔ خدا خدا کر کے چھٹی کی بیل بجی۔ عام دنوں میں عثمان کلاس سے باہر نکلنے والوں میں سب سے آخر میں ہوتا پر آج وہ سب سے آگے آگے تھا۔ وین میں بھی خاموشی سے بیٹھنے والا آج سارے رستے چہکتا رہا۔
’’انکل! آ گے بہت ٹریفک جام ہے، آ پ مجھے یہیں اتار دیں، میں روڈ کراس کر کے چلا جاؤں گا۔‘‘ عثمان کے کہنے پر گرمی اور رش سے پریشان ڈرائیور نے بھی ایک لمحے سوچتے ہوئے وین روک دی۔
’‘جائیے دھیان سے کراس کیجیے گا۔‘‘ ڈرائیور نے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔
عثمان نے دائیں، بائیں دیکھ کر اطمینان کر کے قدم آگے بڑھانے۔ وہ ابھی بیچ سڑک پر پہنچا ہی تھا کہ اچانک ایک نہایت تیز رفتار گاڑی باقی گاڑیوں کو اوورٹیک کرتی اس کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ اس سے پہلے کے وہ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے رکتا یا قدم بڑھاتا، گاڑی اسے کچلتی ہوئی آگے نکلتی چلی گئی۔خون میں لت پت عثمان کی چیخ بھی نہ نکل سکی۔ پل بھر میں ہنستا کھیلتا بچہ سڑک کے بیچوں بیچ ساکت پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا۔
’’آجا میرے لعل، میرے بیٹے، میری جان۔‘‘ محبت بھری نگاہوں سے دونوں ہاتھ پھیلائے اس کی اس کی اپنی مما اسے اپنی آغوش میں لینے کے لیے بیتاب تھیں۔
دوسری جانب جویریہ کی شبیہ تھی جو بانہیں پھیلائے اس کو زندگی کی طرف بلاتے ہوئے منت کر رہی تھی۔
’’عثمان آجاؤ، میرے بچے میرے پاس آجاو۔‘‘
عثمان کا ذہن اندھیرے میں ڈوب رہا تھا۔ کس کا ہاتھ تھامے۔
’’مما!‘‘ اس نے آخری ہچکی لی اور بے قرار ممتا کی آغوش میں جا سویا۔

حصہ