حقیقی ایمان

ایک نو مسلم کی کہانی جو دین کو سمجھنے کیلئے پاکستان آیا تھا
عزیمت کی یہ کہانی ماہنامہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ لاہور میں شائع ہوئی تھی‘ جس کو میں نے اشاعتِ مکرر کے لیے ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور کو ارسال کیا، ایشیا نے کمالِ مہربانی اسے نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس کہانی سے سید مودودیؒ کے لٹریچر کی اثر انگیزی ثابت ہوتی ہے۔
…٭…
’’میں یہودی سے عیسائی، پھر سکھ ہوا، اور پھر اسلام میں آیا تھا، مگر پاکستان نے میری سارے تصور (Concept) دھندلا کر رکھ دیے اور مجھے الحاد کی منزل پر لا کھڑا کیا۔ مگر “Towards Understanding Islam” (سید مودودیؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’دینیات‘‘ کا پروفیسر خورشید احمد کے قلم سے انگریزی ترجمہ) نے مجھے عین وقت پر اس مخمصے سے نکالا، اور یوں اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا کہ جو ہماری راہ پر چل نکلتا ہے ہم اُسے اپنی راہ سمجھا دیتے ہیں۔
میں برطانیہ میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جو اسرائیل سے ہجرت کرکے وہاں پہنچا تھا۔ بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا اور آخری تھا، یوں کچھ لاڈلا بھی تھا۔
یہودی مذہب میں بھی دیگر مذاہب کی طرح سوال کرنے کو بہت برا جانا جاتا ہے اور سوال کو مذہب یا خدا کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے، ادھر میں تھا کہ سوال نہ کروں تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ والدین میری اس عادت سے بہت تنگ تھے، وہ حتی الامکان میرے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے اور آخرکار وہی امرت دھارا استعمال کرتے جو ساری دنیا کے والدین کرتے ہیں، یعنی پٹائی۔ میرے بہن بھائیوں کو جب بھی اور جو بھی ملتا اُن کی سب سے پہلی ترجیح اسے کھانا ہوتی تھی، جب کہ میں جب تک پوچھ نہ لوں کہ کس نے دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ اور کتنا دیا ہے؟ کھاتا نہیں تھا۔ والدہ اکثر جب مجھے کوئی چیز دیتیں تو سوال سے پہلے ہی کہتیں ’’تیری خالہ نے دیا ہے، ان کی بیٹی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے رشتے داروں کو دیا ہے، اور اب مر، کھا لے۔‘‘
مذہب کے معاملے میں ان کو کوئی خاص علم نہیں تھا، وہ ہوں ہاں کرکے چپ ہوجاتے، یا جو کہانی سنی ہوتی، سنا دیتے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ میں مطمئن ہوا یا نہیں۔ البتہ یہودیت میں اسلام کی طرح ذرا ذرا سی بات پر کان پکڑ کر نکال نہیں دیا جاتا کہ یہ کافر ہوگیا، بلکہ آپ یہودی ہیں اور عمل کریں یا نہ کریں آپ کی یہودیت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسرائیل میں حکومت ہمیشہ سے بے عمل یہودیوں کی رہی ہے اور یہ مسئلہ میں نے جتنے مذاہب تبدیل کیے سب میں دیکھا کہ ہر مذہب میں حکومت بے عمل لوگوں کی ہے، باعمل لوگ صرف جلنے کڑھنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں، عوام میں ان کی پذیرائی نہیں اور حکومت چلانے کی ان میں صلاحیت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے جس وسعتِ قلب و نظر کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں ہے، لہٰذا ان کے مقدر میں ہی لوگوں کو کوسنا اور خود بھی جلنا کڑھنا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا کہ یوسفؑ نے تن تنہا کس طرح کافروں سے بھرے ملک میں حکومت کرلی، کس طرح پورے ملک کو اپنے ذاتی محاسن اور نظم و ضبط، عدل و انصاف سے حکومت کرکے مسلمان کردیا… کہاں وہ پیغمبر اور کہاں آج کے ان کے نام لیوا؟
یہودیت کے تالاب سے نکل کر میں نے عیسائیت کے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ اس سے کوئی خاص طوفان تو برپا نہ ہوا، کیوں کہ یہودی سے عیسائی ہونا، یا عیسائی سے یہودی ہونا ایک عمومی تبدیلی سمجھا جاتا ہے‘ جس طرح مسلمانوں میں فقہ کی تبدیلی ہوتی ہے‘ بندہ کسی بھی امام کی پیروی کرے‘ رہتا مسلمان ہی ہے۔ مگر میرے سوالوں کا جواب عیسائیت کے پاس بھی نہیں تھا اور میں زیادہ دیر وہاں بھی ٹک نہ پایا۔ ایک سکھ دوست کی دوستی نے جو کہ میرا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا، مجھے سکھ بنا لیا۔ میرے سوالات نے اُسے بھی سکھ مذہب سے فارغ کردیا اور میں گیا تو اکیلا تھا مگر سکھ ازم سے نکلنے والے دو تھے۔ اب دو آدمیوں کو مذہب کی تلاش تھی۔
میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا، اگرچہ نسلی تعصب کی وجہ سے جو کہ مسلمانوںکے خلاف ہمارے خون میں شامل ہے، قرآن کو پڑھنا میرے لیے ایک قیامت سے گزرنا تھا، لیکن میں جوں جوں قرآن کو پڑھتا گیا، میرے اندر کا میل اور میرے سوالوں کی کاٹ کم ہوتی چلی گئی۔ قرآن تو بھرا ہی جوابوں سے ہے، وہ سوال بھی خود کرتا ہے اور جواب بھی خود دیتا ہے۔ انسانی ذہن آج بھی جن سوالوں تک پہنچتا ہے، قرآن نے صدیوں پہلے ان سوالوں کو اٹھا کر ان کا تسلی بخش جواب دے دیا ہے۔ مگر میرا مسئلہ مسلمان ہونے کے بعد شروع ہوا۔
میں مسلمان تو برطانیہ میں ہی ہوگیا، اور میں یہ چاہتا تھا کہ کسی مسلمان ملک میں جا کر اسلام کو عملی طور پر دیکھوں۔ میرے والد صاحب نے جو دس سال پہلے 1977ء میں پاکستان میں برطانوی سفارت خانے میں اتاشی کے طور پر کام کرچکے تھے، جب سنا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور سعودی عرب جانے کا سوچ رہا ہوں تو انہوں نے مجھے بلا کر کہا: ’’اگر تم مسلم ملک میں جانا چاہتے ہو تو پھر پہلے پاکستان جائو۔ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور تمہیں اسلام کو سمجھنے میں جتنی مدد اس ملک سے ملے گی، کہیں اور ممکن نہیں ہے۔‘‘ اب اللہ جانتا ہے اس مشورے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے، مگر میں اُن کے مشورے پر پاکستان کی طرف چل نکلا۔
کراچی پہنچ کر میں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک سروس بوائے سے میں نے اپنا مقصد بیان کیا کہ میں اس نیت سے پاکستان آیا ہوں اور کسی اچھے سے ادارے کی تلاش میں ہوں جو مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دے، اگر تم مجھے گائیڈ کرسکتے ہو تو تمہاری مہربانی ہوگی، اور اگر ایک دو چھٹیاں لے لو گے تو میں ان کے پیسے بھی تمہیں دے دوں گا۔ سروس بوائے نے میرا انٹرویو شروع کیا اور پوچھا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں تاکہ متعلقہ اسلام کے کسی ادارے کا وزٹ کیا جائے۔ میں، جس کی ساری زندگی سوال کرتے گزری تھی، اس سوال پر چکرا کر رہ گیا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں؟
میں نے اُسے بتایا کہ میں نے قرآن پڑھا ہے اور اس کے مطابق اللہ کو ایک مانا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانا ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حساب کتاب پر ایمان لایا ہوں۔ اللہ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے قرآن نازل کیا ہے جو اللہ کا کلام ہے، اب تم بتائو کہ یہ کون سا اسلام ہے؟ وہ بولا: اس سے کام نہیں چلے گا، اتنا سارا اسلام پاکستان میں نہیں چلتا۔ اس کے ساتھ کچھ اور ضروریات بھی ہیں جن کے لیے آپ کو ہمارے ایک عالم ہیں اُن سے ملنا ہوگا۔
اگلے دن وہ مجھے کراچی کی ایک جامعہ میں لے گیا جہاں ایک بہت بھاری بھرکم بزرگ بیٹھے تھے جو سبز پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور میرے علم میں یہ اضافہ کیا کہ چونکہ ہندوستان میں اسلام کچھ بزرگوں کے ذریعے آیا ہے، ان بزرگوں کے بارے میں تمہارا عقیدہ اگر خراب ہو تو تم مسلمان نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا انہوں نے مجھے ایک بندے کے سپرد کیا جو مجھے کسی درگاہ میں لے گیا، جہاں میرے نفس کا تزکیہ کرنا مقصود تھا، وہ غالباً منگھو پیر کی درگاہ تھی اور جامعہ کے مہتمم نے وہاں کے سجادہ نشین کے نام رقعہ دیا تھا، وہ میں نے اُن کے سپرد کردیا۔ مجھے غسل دلوایا گیا، سبز کپڑے پہنائے گئے اور میری انگلیوں میں چار انگوٹھیاں، جو مختلف رنگوں کے پتھروں سے مزین تھیں، پہناکر میری بیعت لی گئی، اور ایک ڈنڈا میرے ہاتھ میں پکڑایا گیا اور اسلام میں داخل کرلیا گیا۔
صبح صبح مجھے ناشتے کے بعد ریلوے اسٹیشن لے جایا جاتا جہاں آنے جانے والے مسافروں کو مجھے اسلام کی دعوت دینی تھی اور ساتھ بتانا تھا کہ میں کن کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں۔ یہ معمول کوئی دو ماہ رہا۔ اس دوران میں نے جب قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کرنے کی کوشش کی تو میرا انگلش ترجمے والا قرآن بڑے پیار اور ادب کے ساتھ میرے ہاتھ سے لے کر واپس میرے سامان میں رکھ دیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن کو جو کام کرنا تھا وہ کردیا، اب آپ کی تربیت کی ضرورت ہے، مطالعے کی نہیں۔ دو ماہ بعد کی بات ہے جب میں ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو وہاں ایک تبلیغی جماعت ریل گاڑی سے اتر رہی تھی، میں نے جب ان کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تو میرے گائیڈ نے میرا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا اور کہا کہ ان کے قریب مت جائو۔ یہ بات جماعت کے ایک ساتھی نے بھی محسوس کرلی اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر میری طرف لپکے۔ سلام کے بعد انہوں نے مصافحہ کیا اور بہت شستہ انگلش میں مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں اور کیا آپ مسلمان ہیں؟ بعد میں پتا چلا کہ وہ ڈاکٹر تھے۔ میرے جواب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا سامان کدھر ہے؟ میں نے بتایا کہ اس بھائی کو پتا ہے کس درگاہ پر ہے۔ اب باقی جماعت بھی اپنا سامان لیے ہمارے اردگرد کھڑی ہوگئی۔
میرے گائیڈ کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے تھے، وہ بار بار واپس چلنے کے لیے اصرار کررہے تھے، مگر اب واپسی پر ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے جو میرا سامان لے کر مجھے ساتھ لے جانے آئے تھے، کیوں کہ میں نے اُن کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔ وہاں سے سامان کس مشکل سے چھُوٹا یہ الگ داستان ہے، مگر وہاں مکالمے کے دوران مجھے پتا چلا کہ ایک دوسرے کی نظر میں یہ دونوں مسلمان نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک میں اب تک مشرکوں کے چنگل میں تھا، جبکہ سجادہ نشین مجھے بتا رہے تھے کہ تُو اب مرتد ہوگیا ہے اور اسلام سے خارج ہوکر جارہا ہے۔ مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ جب میں اسلام میں اپنی مرضی سے داخل ہوا ہوں تو میری اپنی مرضی اور نیت کے بغیر کوئی مجھے اسلام سے نکال کیسے سکتا ہے؟ جو مرضی سے آیا ہے مرضی سے جائے گا۔ اعلان کے ساتھ داخل ہوا ہے، اعلان کے ساتھ خارج ہوگا۔ خیر، سوالات کی چکی جو قرآن پڑھ کر بند ہوگئی تھی، مسلمانوں میں آخر بہت تیزی سے چل پڑی تھی۔ مجھے جماعت کے ساتھ فوراً رائے ونڈ روانہ کردیا گیا جہاں میں نے دو ماہ کے لگ بھگ تو رائے ونڈ میں گزارے جو مختلف ممالک سے آنے والی جماعتوں سے خصوصی ملاقاتوں اور باہم تبادلہ خیالات میں گزرے، جب کہ چالیس دن ایک جماعت کے ساتھ لگائے۔ وہاں کا ماحول بہت اچھا تھا۔ لوگ بہت ہی خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے اور ہر وقت اللہ، اللہ ہوتا تھا۔ ہر جمعرات کو مرکز کے باہر کتابوں کے اسٹال لگتے تھے جن پر خریداروں کا بہت رش رہتا تھا۔
پھر سالانہ اجتماع شروع ہوگیا۔ اسٹالوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور خریداروں کا رش بھی بہت زیادہ ہوگیا۔ عصر کی نماز کے لیے وضو کرکے آرہا تھا کہ میری نظر ایک اسٹال پر کھڑے نوجوان پر پڑی جو سب سے الگ تھلگ نظر آرہا تھا، مجھے دیکھتے ہی اُس نے سلام دعا کی اور پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ نومسلم ہیں؟ میں نے مسکرا کر اثبات میں جواب دیا اور ایک کتاب، جو انگلش میں تھی، اٹھا لی۔ کتاب کا ٹائٹل تھا “Towards Understanding Islam” (سید مودودیؒ کی کتاب ’’دینیات‘‘ کا انگریزی ترجمہ)۔ جونہی میں نے کتاب پر قیمت دیکھی اور اسے پیسے دینے کے لیے بٹوا کھولا، جھٹ پٹ کہیں سے ڈنڈا بردار جوان نمودار ہوئے اور اس جوان کو اسٹال ہٹانے کا حکم دیا۔ اُس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر جوانوں نے اُس کا اسٹال الٹ دینے کی دھمکی دی، جس پر اُس نے بے چارگی سے اسٹال سمیٹنا شروع کردیا۔ میں نے اُسے پیسے دینے کی کوشش کی مگر اُس نے لینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ اسے آپ میری طرف سے گفٹ سمجھیں… اور کتاب کی قیمت اپنی جیب سے نکال کر اُس نے پیسوں والے لفافے میں ڈال دی۔ میں زندگی بھر اس جوان کو نہیں بھول سکا جو شاید میری طرح اب بوڑھا ہوچکا ہوگا، یا پھر اللہ کو پیارا ہوچکا ہوگا۔ مگر میں نے ہمیشہ اُسے اپنی دعائوں میں یاد رکھا ہے۔ اُسے اللہ نے میرے لیے ہی بھیجا تھا، اب جب کام ہوگیا تو ہٹانے والے بھی پہنچ گئے۔
میں نے ڈنڈا بردار محافظوں سے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں بھگایا؟ کہنے لگے: یہ ہمارا ایریا ہے اور یہاں کوئی اسٹال ہماری مرضی کے بغیر نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کے لیے انتظامیہ کی اجازت ضروری ہے، نیز یہ گمراہ لوگ ہوتے ہیں جن کا نشانہ آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں، جن کو اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا، اس لیے اجتماع والے کبھی ایسے اسٹال کو گھاس نہیں ڈالتے۔
اب اس کتاب کا مطالعہ ایک مسئلہ بن گیا۔ میں نے اندازہ کیا کہ ان حضرات کا جاسوسی نظام بہت تیز ہے، آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے، اور رہنما کے طور پر ایک بندہ ہمیشہ آپ کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ انہیں اطلاع مل گئی تھی کہ میں نے کون سی کتاب خریدی ہے۔ اب پہلے تو مجھے صاحبِ کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلام کے بارے میں ان کے خیالات کس قسم کے تھے اور وہ کوئی عالم بھی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ یہ وقت آپ نے امانت کے طور پر اللہ کو دیا ہوا ہے، اس لیے صرف وہی کتاب پڑھی جا سکتی ہیں جو بزرگ تجویز کریں، یعنی فضائل اعمال، فضائل صدقات، حیات الصحابہ اور ریاض الصالحین۔ مجھے کتاب خطرے میں نظر آئی، پڑھنا تو دور کی بات، اس کی حفاظت اب میرے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔ مگر اس کے دیباچے نے ہی مجھے بتا دیا تھا کہ میرے سوالوں کا جواب شاید اسی کتاب میں ملے گا۔
(جاری ہے)

حصہ