ڈاکٹر مختار حیات کے گھر مشاعرہ

190

گزشتہ اتوار کو ڈاکٹر مختار حیات کے گھر ایک مشاعرہ ہوا جس میں کینیڈا سے تشریف لائے سلمان اطہر مہمان خصوصی تھے جب کہ ڈاکٹر جاوید منظر نے صدارت کی۔ ڈاکٹر مختار حیات نے نظامت کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی میں ادبی محافل بڑے تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ امن وامان کی بہتر صورت حال نے ہماری زندگی پر اچھے اثرات مرتب کیے ہیں کہ مشاعرے میں ہم اپنے سامعین کے لیے نئے نئے خیالات و نظریات پیش کرتے ہیں‘ اب گل و بلبل کے قصے شاعری سے خارج ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں شعرائے کرام اور شاعری پر کھل کر بات کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شاعر کو شاعری ودیعت ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ شاعر کے دماغ میں شاعری نازل کرتا ہے جس کو ہم ’’آمد‘‘ کہتے ہیں۔ ’’آورد‘‘ کے اشعار اتنے اچھے نہیں ہوتے جتنے آمد کے اشعار میں مضامین ہوتے ہیں۔ اچھی شاعری کے فروغ کے لیے مطالعہ بھی ضروری ہے اور مجلس علم بھی۔ آج بہت عمدہ شاعری پیش کی گئی‘ میں ڈاکٹر مختار حیات کو کامیاب مشاعرے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سلمان اطہر نے کہا کہ کینیڈا میں اردو کے لیے ہم مشاعرے کراتے ہیں اور بہت سی ادبی مذاکرے بھی وہاں ہوتے ہیں لیکن پاکستان اور کینیڈین شاعری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہاں پر لوگوں کو کسب معاش سے فرصت نہیں ملتی لیکن پھر بھی وہ مشاعروں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں یہاں بہت اچھی شاعری سن رہا ہوں۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کہا کہ شاعری میں عروض کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاہم عروض کے بغیر بھی شاعری ہو سکتی ہے اس وقت کراچی کے اہم ادارے اردو مشاعرے تو کراتے ہیں لیکن عروض پر کوئی نشست نہیں ہوتی اسی طرح تنقیدی نشستوں کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے میں اس محفل کے لوگوں سے عرض کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور مکالماتی نشستوں کا اہتمام کریں۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ علی اوسط جعفری‘ شجاع الزماں شجاع‘ کشور عدیل جعفری‘ حامد علی سید اور تبسم صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ