چاہِ پدر

181

سلمان احمد صدیقی (وصفیؔ)
جو خود پر گزرتی ہے‘ وہ ہم پر کھول نہیں سکتا
مشیتِ خدا ہے‘ میرا باپ بول نہیں سکتا
دیانت و شرافت سے عبارت ہے زندگی اُس کی
لالچِ زر سے اُس کا ایمان ڈول نہیں سکتا
تا عمر رُخِ روشن مسکراہٹوں سے سجا رہا
کوئی پیمانہ بھی اُس کی محبتوں کو تول نہیں سکتا
معذوری کو جس نے کبھی مجبوری نہ بنایا
پالا ہمیں جس شان سے کوئی مول نہیں سکتا
کر دیتا ہے نہال ہم کو اپنی پیار بھری نظر سے
وصفیؔ کیا غم ہے جو سماعت میں رَس گھول نہیں سکتا

حصہ