اسلام بھائی لاہور والے

301

یہ بات ہے 1993 کی۔ دہلی کالونی میں قاضی حسین احمد کا دورہ تھا۔ ایسے میں دورے سے عین ایک رات قبل مرکزی دیوار پر بنے اسلامی فرنٹ کے جھنڈے پر ایم کیو ایم نے اپنی چاکنگ کر ڈالی۔ اس وقت کراچی کے ماحول میں یہ ایک عام سی بات تھی۔ ایم کیو ایم کا مخالف بس خون کے گھونٹ ہی پی سکتا تھا۔ لیکن یہاں ناظم اسلم الیاس تھے _
وہ دو افراد کو ساتھ لے کر سیکٹر آفس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر وہاں ہر ایک ہکا بکا رہ گیا۔ ان کا پُر اعتماد لہجہ، ان کا بھرم، ان کے دلائل، پر جوش گفتگو… وہ سیکٹر آفس میں چھاگئے۔ وہ چاکنگ تو صبح سے پہلے مٹادی گئی لیکن شاید اس رات کی جرأت رندانہ کی وجہ سے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
پُرعزم، ہنس مکھ ، وضع دار، جارحانہ مزاج، دوستوں اور دشمنوں ونوں کے دوست، گرم دم جستجو، کھانے اور کھلانے کے شوقین، ہر ایک کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضر، ووکل، اپنی بات پر اصرار کرنے والے اور آخر تک قائم رہنے والے۔ یہ تھے ہمارے اسلم بھائی جن کو ہم ’’اسلم الیاس لاہور والے‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے … ایک شرارتی لڑکا‘ جس کی شرارتوں سے عاجز آکر اُسے گھر سے دور جامعہ ملیہ ملیر کے بورڈنگ میں داخل کرایا گیا۔ ایک شان دار اسپورٹس مین‘ جو اپنے علاقے کی سب سے مستند ٹیم کا فعال ممبر رہا۔ ایک پرجوش سماجی کارکن‘ جو ہر محلے میں ہونے والی اجتماعی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتا۔ ہر ایک کے لیے مددگار اور بڑا بھائی‘ جو مشکل ترین وقت میں بھی دل کشادہ کیے ساتھ کھڑا ہوتا۔ لیکن ان سب حیثیتوں پر ان کی سیاسی کارکن کی حیثیت ہمیشہ غالب رہی۔ انہوں نے 1984 میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے کام شروع کیا اور پھر پیچھے مڑکر نہ دیکھا۔
وہ ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کر چلو‘‘ کے قائل تھے۔ مسجد سے بازار تک ہر جگہ لوگوں کے جلو میں چلنا ان کو پسند تھا۔ اپنی انہی ’’حرکتوں‘‘ کی وجہ سے وہ دوست اور دشمن سب میں موضوعِ گفتگو رہتے۔
’’بھائی لوگوں‘‘ نے خاص طور پر انہیں اپنے ہدف پر رکھا تھا۔ گالی، گولی‘ گھر پر حملے، مقدمہ، تھانہ، تشدد، ہسپتال‘ جیل، کچہری سب انہیں سہنے پڑے اور وہ بھی اپنے سامنے کے بچوں کے ہاتھوں۔
ان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب چاروں طرف ایم کیو ایم کا ڈنکا بج رہا تھا تو وہ سو فیصد مہاجر آبادی پر مشتمل علاقے سے ایم کیو ایم کے امیدوار کو دھول چٹا کر کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ میں ایم کیو ایم کے ایسے فعال ترین کارکنان سے واقف ہوں جنہوں نے خاموشی سے ووٹ اسلم الیاس کو دیا ۔
میں ان کا نائب ناظم بھی رہا اس دوران ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو سامنے آیا انہوں نے ایک ہنگامی سفر پر جاتے ہوئے چند مستحقین کو دینے کے لیے کچھ رقم میرے حوالے کی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس میں ایسی فیملیز کے لیے بھی امداد موجود تھی جن کے بچے انہیں دیکھ کر سر عام ’’جماعتی ٹھاہ‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے اور ان پر حملے اور تشدد میں شامل تھے۔ اسلم صاحب انتہائی خاموشی سے یہ امداد گھروں پر پہنچایا کرتے تھے بقول شاعر
’’وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے‘‘
ان کا تحرک، جنون اور فعالیت شدید بیماری کے باوجود آخری دَم تک قائم رہے۔ 2018 میں عین بیماری کے دوران ان کی فرمائش پر انہیں مرکزی الیکشن آفس کا مہتم مقرر کیا گیا تو انہوں نے انتہائی جانفشانی سے آخر تک اس ذمے داری کو نبھایا۔ الیکشن والی رات وہ سب سے آخر میں جانے والے کارکنان میں سے تھے۔ وفات سے اگلے دن ان کے چھوٹے بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ کے لیے ایک امانت رکھی ہے۔ معلوم ہوا انتقال سے صرف چند گھنٹے قبل اسلم بھائی نے ان سے جماعت کو زکوٰۃ دینے کی اپیل کی تھی۔
ان کی فعالیت کا سوچ کر مجھے عجیب سا خیال آتا ہے کہ وہ شاید جنت میں بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے اور کوئی نہ کوئی مصروفیت نکال ہی لیں گے جس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہوگا۔

حصہ