بچپن کی یادگار عید

433

اسلامی تہوار ہوں یا قومی‘ میں ان مواقع پر اکثر بہت پیچھے اپنے بچپن کی طرف پلٹ جاتی ہوں خصوصاً عیدین جو ہمارے مذہبی تہوار ہیں‘ جو تمام عالم اسلام میں خصوصی طور پر بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں اور منانے بھی چاہئیں۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دن بہ دن ان تہواروں پر وہ جوش و خروش اور روایتی انداز کم ہوتا جا رہا ہے۔ الحمدللہ ہم اب بھی ان تہواروں پر خصوصی اہتمام کرتے ہیں لیکن وہ بات‘ وہ انداز کہیں مدھم پڑ گئے ہیں۔ آج ہم اتنے زیادہ مصروف ہو گئے ہیں کہ وہ چیز کم ہی نظر آرہی ہے۔
ذوالحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی جانوروں کی منڈیاں لگ جاتی تھیں بلکہ جگہ جگہ‘ شہر اور چوراہوں پر جانور نظر آتے تھے۔ میرے دونوں چھوٹے بھائی جانور بیچنے والوں کو بابا کے پاس لے کر آتے کہ آپ ہمیں بکرے خرید کر دیں۔ گویا بکرے نہ ہوئے ان کے کھلونے ہوگئے اور بابا آخر ان کی ضد کے آگے ہار جاتے اور عید سے دس پندرہ دن پہلے ہمارے ہاں بکرے آجاتے۔ اُس وقت رہائشی عمارتیں اس طرح ہوتی تھیں کہ ایک گلی میں پندرہ سے بیس‘ تین چار منزلہ عمارتیں ہوتی تھیں لوگ قربانی کے جانور گلی میں سیڑھیوں کے پاس باندھ دیتے۔ دن میں رات کو گیارہ‘ بارہ بجے تک تو محلے کے تمام بچے ان کی ’’دیکھ بھال‘‘ کرتے‘ ان کا حلیہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی کہ یہ خود بھی بکرے ہی لگ رہے ہیں۔ اماں ان کو زبردستی رات میں نہلا دھلا کر کھانا کھلا کر سلاتیں۔
یہ دس بارہ دن بچوں کی موج مستیاں عروج پر ہوتیں۔ چاند رات کو بابا اعلان کرتے کہ کل یہ جانور ذبح کیے جائیں گے‘ تو دونوں بھائی اداس ہو جاتے جیسے ان کے بہترین دوست اُن سے بچھڑ رہے ہیں۔ میں اپنی بارہ سالہ پوتی اور نواسی کو یہ بتا رہی تھی تو دونوں حیران ہو گئیں کہ اس طرح ساری رات گلی میں چوکیداروں کے بغیر جانور رہتے کوئی چوری نہیں کر جاتا تھا۔
ان بچیوں کی حیرانی بجا ہے۔ آج رہائشی علاقوں کی سوسائٹیاں بنی ہوئی ہیں‘ چاروں طرف آہنی دروازوں پر چوکیدار موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ خیر جی جانوروں کی قربانی ہو جاتی لیکن بچوں کی ان جانوروں سے محبت و الفت کا یہ حال ہوتا کہ ان کا گوشت نہ کھاتے۔ اماں انہیں بہلا پھسلا کر آخر انہیں راضی کرتیں۔
…٭…
اماں عید کی رات کو ہی اگلے دن کے انتظامات میں لگ جاتیں‘ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ عید کے کپڑے وغیرہ کا انتظام… جی وہ بھی اور اگلے دن کے دوپہر کے کھانے کے انتظامات اپنے گھر کے افراد کے لیے نہیں بلکہ آنے والے مہمانوں کے لیے کیوں کہ دادا اس خاندان کی سب سے بڑے بزرگ تھے جن کا سارا خاندان احترام کرتا تھا‘ وہ اکثر و بیشتر اپنے آبائی شہر شکارپور میں ہوتے جہاں ان کے ساتھ ان کا خیال رکھنے کے لیے ایک آدھ خدمت گار ساتھ ہوتا تھا لیکن عیدیں وہ ضرور کراچی میں ہمارے ساتھ مناتے۔ یہ لمحے جو وہ ہمارے ساتھ گزارتے تھے ہم سب کے لیے زندگی کے بہترین لمحے ہوتے گھر میں ایک رونق ہو جاتی۔
ماشاء اللہ گھر میں ہم پندرہ‘ سولہ افراد تھے۔ چچا چچی‘ ان کے بچے بھی ساتھ رہتے تھے۔ سارے رشتے دار اور خاندان کے لوگوں کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح اپنے گھروں سے ناشتا کرکے دادا سے ملنے ہمارے گھر آتے۔ ایک تانتا بندھاہوتا تھا اسی لیے اماں رات سے ہی مسالحے وغیرہ تیار کرکے رکھتیں اور جیسے ہی پہلا بکرا قربان ہوتا چھ سات کلو گوشت چولھے پر چڑھا دیتیں۔ یہ اماں کے ہاتھ کا بُھنا ہوا گوشت اور دیسی گھی میں نان بائی سے بنوائے تندوری نان اماں ہر آنے والے کے سامنے فراخ دلی سے پیش کرتیں۔ شام تک اماں کا یہ ’’دستر خوان‘‘ سجا ہوتا۔ اماں کے اس دستر خوان کی تعریف سارا سال رشتے دار کرتے۔
اماں اُن آنے والوں کے ہاتھ میں قربانی کے گوشت کا حصہ نہیں تھماتی بلکہ شام کو بڑے بھائیوں کے حوالے گوشت کے پیکٹ کرتیں کہ رشتے داروں کے گھروں میں دے کر آئو۔ حالانکہ یہ رشتے دار ہمارے گھر سے کافی فاصلے پر رہتے تھے لیکن اماں اور بابا کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان رشتے داروں کو اپنی گھر میں ہی گوشت کا حصہ تھما دیں کیوں کہ اس وقت یہ چیزیں اور یہ باتیں عزت کا معیار سمجھی جاتی تھیں۔
شام کو دادا ہم سب بہن بھائیوں اور بھابھی‘ چچی سب کو اپنے پاس بلا کر آپی (بڑی بہن) کے ہاتھ میں ہماری عیدی کے پیسے تھماتے جو ہر ایک کے حصے میں ایک ایک روپیہ آتا۔ لیکن اس ایک روپے کی ہمارے دلوں میں بڑی اہمیت تھی جو اماں نے ہمارے دلوں میں بٹھائی تھی کہ بیٹا! یہ آپ کے دادا کی دی ہوئی عیدی ہے‘ اس کو اپنے پاس سنبھال کر رکھو۔ آپ لوگ خوش نصیب ہیں کہ آپ کے دادا آپ کے ساتھ عید پر آپ کی خوشیوں میں شامل ہیں۔
اماں کے ان جملوں سے ہمیں اپنے بزرگوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ بے شک یہ بزرگ گھر کے مضبوط سائبان ہیں ان کے بغیر ہماری خوشیاں ادھوری ہیں۔ دادا کا دیا ہوا ایک روپیہ ہم سارا سال سنبھال کر رکھتے۔
عید کے چار‘ پانچ دن بڑی رونق رہتی‘ عید کے دوسرے یا تیسرے دن بابا ہمیں کسی پارک یا کلفٹن کی سیر کروانے لے جاتے۔ بابا کے دوست بھی اپنے بچوں کو ساتھ لے کر چلتے۔ ان کی فیملی کے ساتھ پورا دن کھیلنا کودنا‘ کھانا پینا آج بھی یاد آتے ہیں۔
…٭…
آج ہر بندہ مصروف ہے‘ بچے اپنا زیادہ وقت موبائل میں گزار دیتے ہیں‘ ایک دو‘ دن پہلے قربانی کے جانور لاتے جاتے ہیں جنہیں سنبھالنا الگ مسئلہ ہے۔ بے شک بچے خوش ہوتے ہیں‘ ان کا ان جانوروں کے ساتھ دل بھی لگا رہتا ہے لیکن بڑوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایک آدھ دن پہلے ہی جانور لائے جائیں۔ میری پوتی کی فرمائش پر اس کے چاچو دو یا تین دن پہلے جانور لاتے ہیں تاکہ مشکل نہ ہو۔
الحمدللہ آج بھی کچھ گھرانوں میں تھوڑا بہت پرانا طرز نظر آتا ہے لیکن وہ بات نہیں جو ہم نے اپنے بچپن میں دیکھی۔ میرے بچے حیران ہوتے ہیں کہ نانو (میری والدہ) چھ‘ سات کلو گوشت بن بلائے مہمانوں کے لیے تیار رکھتی تھیں جب کہ یہ حقیقت تھی کہ اماں اپنے لیے اعزاز سمجھتی تھیں کہ ان کے گھر میں دادا موجود ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے گھر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں سلام کرنے سب ہمارے گھر آتے ہیں۔ ایک اپنائیت اور محبتوں بھرا ماحول ہوتا تھا۔ آج یہ چیز بہت کم نظر آتی ہے بلکہ اکثر گھرانوں میں تو بزرگوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کے سامنے بزرگوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر بچے بھی اپنے بزرگوں سے نالاں رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اپنے بزرگوں کے لیے وہ احترام نہیں رہتا ہے۔ والدین بچوں کے دلوں میں رشتوں کا احترام بٹھانے کے لیے خاص طریقہ اپنائیں۔ بچپن میں عید کی رات ہم بہنیں اپنے چچا کے ساتھ بازار جاتے اور چچا ہمیں عید کی چوڑیاں پہنواتے۔ آج میری یہ کوشش ہوتی ہے اور الحمدللہ ایسا ہو رہا ہے کہ میری پوتی کو اس کے دونوں چاچو عید کی رات میں ہی خصوصی تحفے دیتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جن کی خوب صورت یادیں آگے چل کر ہمیں مسحور کر دیتی ہیں۔
آج بھی چاند رات کو مہندی اور چوڑیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ بازاروں میں رونق نظر آتی ہے لیکن وہ جوش و خروش مانند پڑ گیا ہے۔ عید کی نماز کے بعد ہر ایک اپنے اپنے آشیانے میں موبائل اور ٹی وی کے آگے بیٹھا نظر آتا ہے۔ پڑوس میں اگر کوئی خاندان کا بزرگ رہتا ہے اسے بھی جا کر سلام کرنے اور عید مبارک کہنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
اللہ کا شکر ہے کہ فون پر ایک دوسرے کو مبارک باد دے دی جاتی ہے جس کا سلسلہ بھی اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ چند دہائیاں پیچھے کی طرف نظر دوڑائیں تو آس پڑوس والے عید کے دن صبح ہی صبح شیر خورما وغیرہ بھجواتے‘ مرد حضرات دروازے پر دستک دے کر گھر کے سرپرست کو عید مبارک ضرور کہتے اور یہ بہت دور کی بات نہیں صرف دو‘ تین دہائی پیچھے کی بات ہے۔ آج اگر کسی گھر میں اس قسم کا سلسلہ شروع کیا جائے تو سب کہتے ہیں رہنے دیں ہر گھر میں آج سوئیاں اور شیر خورما بنا ہوگا۔ اس قسم کی منفی سوچ اور عمل نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ اس سال عیدالفطر پر میں نے اپنے تمام رشتے داروں کو فون پر مبارک باد دی‘ حال احوال پوچھا۔ ایک عزیزہ نے نہایت حیرانی کا اظہار کیا کہ ’’اچھا عید پر ایک دوسرے کو فون کیا جاتا ہے‘ مجھے معلوم نہیں تھا۔‘‘
بے شک یہ دور نہایت مصروفیات کا ہے‘ لیکن ہم چند لمحے ’’اپنوں‘‘ کو دے سکتے ہیں یقینا ہمارے یہ چند لمحے ’’ہمیں‘‘ اور ’’انہیں‘‘بھی اپنائیت کا احساس دلائیں گے کہ ہم تنہا نہیںہیں خصوصاً ایسے موقعوں پر اپنے بزرگوں کو جنہوں نے شان دار ماضی گزارا ہوگا‘ تھوڑی سی خوشی اور تسکین دے سکتے ہیں اور یقینا میری طرح آپ کو بھی بزرگوں کے ساتھ بچپن کے گزارے ہوئے یہ لمحے تمام زندگی یاد رہیں گے۔

حصہ