پرائیڈ مہینہ اور سوشل میڈیا

1671

فارن فنڈڈفتنہ، باجوہ استعفیٰ دو، این آر او کی قیمت، ٹوچہ خانہ،نکلو خوددار پاکستان کے لیے۔آزادی کا ایساتصور ، ایسی رعایت پہلے کبھی نہیں تھی۔اِن ہیش ٹیگ کے ذیل میں جو کچھ ہو رہاہوتا ہے وہ ہم شائع نہیں کر سکتے ۔کینیڈین پارلیمنٹ کے رکن کے جنرل باجوہ سے متعلق بیان کو کسی خاص منصوبہ بندی کے ساتھ سامنے لایا گیاتھا، یہ ٹوئٹر مہم سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔مہنگائی نا منظور کا ٹرینڈ بھی مستقل شامل رہا ، اب یہ بات کون سمجھائے لوگوں کو کہ ملک کے سارے ایئر پورٹس، موٹر وے سب گروی رکھی جا چکی ہیں،آئی ایم ایف کے چنگل میں آنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب عوام مہنگائی ہی جھیلتے رہیں گے، کیونکہ عوام citizen ہونے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے جو خواص یا حکمرانوں کے لیے قربانی دیتا دیتا مر جائے ۔دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو آئی ایم ایف کے سودی چکر میں پھنس کر نکل سکا ہو۔غیر ملکی شہری معین قریشی کو جس مقصد کے لیے پاکستان لایا گیا تھا وہ کام پورا کرکے چلاگیا، اس لیے اَب صرف سوشل میڈیا پر لکیر پیٹی جا سکتی ہےتاکہ احساس غلامی زندہ رہے۔
اِس دوران کراچی میں کوئی 40منٹ کی بارش 5 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات کے ساتھ ہوئی، ان میں 3بچے بھی شامل تھے۔اِس بارش کا کئی دنوں سے انتظار ہو رہاتھا،کیونکہ ہر سال شہر اپنےتباہ شدہ بنیادی ڈھانچےکی وجہ سے تباہی کا جومنظر پیش کرتا ہے وہ عوام کو مجبور کر دیتا ہے ، اس غیر معمولی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے۔پھر یہ بارش تیز آندھی کے ساتھ آئی تھی، شہر میں کئی جگہ سیوریج لائنیں و دیگر تعمیراتی و ترقیاتی کام جاری تھے جن کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔دسیوں موٹر سائیکل سواروں کی برسات میں سلپ ہونے کی وڈیو بھی ان میں نیا اضافہ تھی۔اب چلتے ہیں کارٹون نیٹ ورک کی طرف، جی ہاں ۔یہ بھی ٹرینڈنگ میں نکل آیا۔2 ماہ قبل والٹ ڈزنی کا ایشو آیا تھا، جس میں والٹ ڈزنی نے اپنے کرداروں کو بچوں میں
ہم جنس پرستی کی ترویج کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کارٹون نیٹ ورک امسال زیادہ قوت سے کود پڑا ۔ نے جون کا مکمل مہینہ ہم جنس پرستوں کی عالمی تحریک کے لیے وقف کر دیاہے اور نام دیا ہے Pridemonth۔فخرکا مہینہ۔ مطلب اس معاملے کو چھپانے ، شرمانے کی ضرورت نہیں ہے، عالمی (شیطانی) قوتیں آپ کے ساتھ ہیں۔ کھل کر ، فخر سے سامنے آئیںاور اپنی شناخت کرائیں۔پاکستان میں موبائل کمپنی کا اشتہار ، اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جو بتا رہی ہے کہ فکر نہ کرو ہم آرہے ہیں۔کارٹون نیٹ ورک جو امریکی ٹی وی چینل ہے اور نام سے ظاہر ہے کہ بچوں کے کارٹون کا ہے ، جسے مکمل نیوٹرل ہونا چاہیے تھا مگرایسا ہے نہیں۔اکتوبر1992میں یہ چینل قائم ہوا اور دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بچوں میں انتہائی مقبول اس لیے ہے کہ والدین اس چینل کو لگا کر بچوں کو باآسانی پرسکون کردیتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ کارٹون سے کیا کام لیا جا رہا ہے۔والٹ ڈزنی کا میں نے اوپر بتا دیا اور اپریل میں پوری تحریر لکھی تھی۔2018سے ایک کارٹون سیریز Craig of the Creek کے نام سے جاری ہے ،اس سیریز میں باقاعدہ ہم جنس پرست کرداروں کو ڈالا گیا ہے۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ خصوصاً فیس بک جس پر کوئی پونے4 کروڑ لوگ موجود ہیں، ان کے لیے مکمل ذہن سازی کا کام کیا گیا ہے۔سب سے پہلے کور پیج کو بدلا گیا۔پھر اپنے کرداروں یعنی پہلے ’بگس بنی ‘ خرگوش کے مشہور کردار کو اس مہینے کے تعارف کے طور پر ڈالا گیا ہے۔پھر بچوں کی شمولیت کے لیے ٹیرٹ کارڈز ، جنہیں شیطانی کارڈ کہنا غلط نہ ہوگاوہ ڈالے گئے ہیں۔یہ شیطانی کارڈکوئی مثال نہیں ،بلکہ حقیقت میں ہے۔اسکے بعد ایسی پوسٹیں ڈالی گئی ہیں جن میں مکمل تصور ات منتقل کیے گئےہیں ۔ جیسے ایک جملہ Love is Love۔ اب اس میں دو کارٹون لڑکیوںکی تصویرڈال دی گئی ہے۔ یہ بنانے والے جانتے ہیں کہ اس پوسٹ سے کیا نفسیاتی اثرات انہیں ناظرین میں پید اکرنے ہیں ۔امریکا میں اس مہینے کے انعقاد کے خلاف بہرحال سخت رد عمل بھی نظر آیا اور بقول واشنگٹن پوسٹ وہاں کے شدت پسندوں نے اِن ہم جنس پرستوں کے اجتماعات پر حملے کیے ۔
with high-profile attacks this month casting fear over Pride celebrations throughout the country.
یہ جملہ کافی ہے بات سمجھانے کو کہ اس معاملے پر انصاف پسند ، امن پسند امریکی بھی شدید متشدد ہوگئے ہیں، انہوں نے اس شیطانی تحریک کی سرپرستی کو ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ ‘قرار دیا ہے۔(بحوالہ واشنگٹن پوسٹ17جون)۔ ٹائم کی رپورٹ ہے کہ کم از کم 11 ایسی تقریبات امریکا میں رپورٹ ہوئی ہیں جنہیں ختم کرا دیا گیا۔
At least 11 different LGBTQ Pride events across the United States have been disrupted by right-wing protesters
اب میں زیادہ کیا کہوں ، یہ کافی ہے سمجھانے کو کہ امریکا جیسا آزاد خیال ، لبرل معاشرےمیں اب بھی یہ سکت موجود ہے کہ وہاں ایک ماہ میں 11 پروگرامات لوگ ختم کر ادیں ، مگر پاکستان میں کھلے عام بورڈ لگ جائیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ سوشل میڈیاپر آنے والے اُن ایشوز کی جانب متوجہ کروں جو ہماری نظریاتی بنیادوں پر حملہ آور ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس ہفتہ پاکستان سے انجینئر محمد علی مرزا نے بی جے پی کی نوپور شرما کی حمایت میں لا علمی پر مبنی موقف داغ دیا۔انجینئر مرزا کے مطابق عورت کے جواب سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ کسی بات کا رد عمل دے رہی ہے۔، کیونکہ جب مسلمان نے وہ بات کہی تو اس نے کہاکہ اگر آپ اس طرح کی باتیں کرو گے تو ہم بھی یہ کہیں گے ، تو پہلا مجرم وہ مسلمان ہے جو کسی اور مذہب کے بارے میں اس طریقے سے لائیو ٹی وی میں آکربات کرے۔ یہ بالکل قرآن و سنت کی تعلیمات نہیں ہیں کہ آپ کسی کے مذہب کا مذاق اڑائیں۔انجینئر مرزا نے نوپور شرما کے کیس میں پورا مقدمہ اپنی لاعلمی اور عدم تحقیق کی بنیاد پر قرآن مجید سورۃ انعام آیت 108 کا حوالہ دے کر کھڑا کردیا۔اب یہ ایک زبردست مثال سامنے آئی ہے لا علمی وجہل پھیلانے کی۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر عالمی شہرت پانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ بہرحال عوام الناس بلکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کیس کی حقیقت سے ناواقف تھی۔بھارتی میڈیا و سوشل میڈیا اور کٹر ہندوخوب مرزا جہلمی کی وڈیوز کو مثال بنا بناکر شیئر کرتے رہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ اپنی اس وڈیو میں انہوں نے بلاشبہ ہندویا دیگر کافر معترضین کے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی دیئے۔ مگر اس بات کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے کہ اعتراضات کا جواب کوئی مانگ بھی رہا ہے کہ نہیں۔
بات شروع ہوئی تھی اپریل 2022 سے، جب وراناسی کورٹ نےایک پٹیشن پر وشواناتھ مندر اور گیان واپی مسجد کی عمارتوں کے وڈیو گرافک سروے کا حکم دیا۔دونوں عمارتیں ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ وراناسی، شمالی ہندوستان میں دریائے گنگا کے ساتھ آباد شہر ہےاور سیکولر بھارت کا روحانی مرکز قرار دیا جاتا ہے، اپنے ایک خدا shivکی جائے پیدائش کی وجہ سے۔اس سروے میں مسجد کے اندر سے ایک فوارے کی بنیاد کو مخصوص ہندو لابی نے اپنے کسی بھگوان شو shiv کے جسم کے خاص حصے کو منسلک کیا ہے۔۔دوسری جانب 17ویں صدی کی تعمیر شدہ اس مسجد میں نصب اس فوارے کو مسلمانوں نے بالاتفاق فوارہ ہی قراردیاہو اہے۔پہلی بار چند ہندو پنڈتوں نے اس بات کی کوئی تحقیق نہیں کی گئی بس مخصوص ہندو گروہ نے اس پر بے بنیاد شور مچا دیا۔اس کے نتیجے میںبھارت میں خاصا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا گیا ، ان لوگوں کا جو ہر ملتی جلتی چیز کو’شیو لنگ‘قرار دیتے ہیں۔اس پر بھارت میں مذہبی امو رمیں آزادی اظہار کی بحث چھڑ گئی۔بھارت میں دلتوں سے تعلق رکھنے والے، دہلی یونیورسٹی کالج میں تاریخ کے پروفیسر رتن لعل، شیو لنگ کے حق میں17 مئی کو فیس بک پر اپنی متعصبانہ پوسٹ کی وجہ سے پہلا نشانہ بنے، ردعمل آیا اور وہ گرفتار ہوئے، اس وقت ضمانت پر باہرہیں، کورٹ میں ٹرائل جاری ہیں۔یاد رہے کہ وہاں بھی دفعہ 295اے ، اور 153اے ، جیسی دفعات شامل ہیں،جو مذہبی بنیادوں پر جان بوجھ کر نفرت پیدا کرنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ایسے میں 26 مئی کو بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی ٹی وی شو ز میں انٹری ہوتی ہے۔ پہلے نیوز 24 چینل میں آکر وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتی ہے، پروگرام اینکر اسکو منع بھی کرتا ہے کہ آپ نے یہ غلط کیاتو وہ پروگرام سے اٹھ کر چکی جاتی ہے اور ٹوئیٹ کرتی ہےکہ ’بیکار چینل ہے، دوبارہ نہیں جانے والی۔‘اس کے بعد ریپبلک بھارت چینل میں شام ۷ بجے وہ دوبارہ یہی حرکت کرتی ہے، یہاں بھی چینل اینکر اسکو مستقل روکتا ہے کہ ایسے الفاظ نہ بولیں، مگر وہ نہیں رُکتی۔ نوپور شرما زبردستی کہتی ہے کہ میں نے اُن کے مذہب کا مذاق تو نہیں اڑایا تو کیا میں بھی بولوں؟۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ، رات 9بجے ایک اور چینل ٹائمز کے ٹی وی شو میں وہ گئیں اوروہاں تیسری بار یہی حرکت دہرائی۔ مطلب تین الگ الگ بار ایک ہی حرکت دہرانا، کبھی بھی Slip of Tongue نہیں کہلایا جائیگا۔
وہ خود کہتی ہوئی پائی گئی کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا کہ کوئی ’شیو لنگ‘ کو ’فوراہ‘کہے ،مطلب میری رائے میں میرے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اس لیے میں بھی یہی کروںگی۔یہ کسی طور غصہ اور جذبات نہیں کہے جا سکتے۔ یہ میرا نہیں خود کئی سینئر بھارتی ہندوصحافیوں کا بھی موقف ہے۔بھارت کی عدالت آگے چل کر اس قانون کے مطابق جو ہوگا وہ دیکھا جائیگا، ایف آئی آر کٹ چکی ہے، احتجاج کا زور بھرپور رہاتھا۔اب سوال یہ ہےکہ انجینئر مرزا نے اس پوری حقیقت سے منہ موڑ کر بی جے رہنما کی عجیب وغریب قسم کی حمایت کر کے اُن شوزمیں شریک مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرایا۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو برصغیر میںمسلم دور حکومت میں قائم تمام مساجد اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ شہید کر دی جائیں گی ۔ بابری مسجد و دیگر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ بات بار بار نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ متعصب ہندو ؤں کو آج بھی مسلم دور حکومت کی یادیں مستقل تکلیف میں رکھتی ہیں، اس کو دور کرنے کے لیے وہ ہر حد تک جائیں گے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے مولانا شبیر عثمانی سے پوچھا تھا کہ ’آپ کا پاکستان تو مسلم اکثریتی علاقوں میں بن جائےگاجہاں ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے،تو یہاں باقی ہندوستان میں جو مسلمان تحریک چلا رہے ہیں قیام پاکستان کے بعد وہ یہاں مزید کمزور اقلیت بن جائیں گے۔‘یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان مستقل ہندو دباؤ کی وجہ سے اور 25 کروڑ ہونے کے باوجود ایک ایسے نفسیاتی پریشر کا شکار ہوگئے ،کہ ہند وآج بھی اُن کی تمام تر وفاداریاں چیک کرنے کے باوجود اُسی ’متعصب‘نظر سے ہی دیکھتا ہے ۔ایسے میں جب کسی ہندوستانی متعصب رویے
کی وجہ سے امت مسلمہ کو کسی ایشو پرایک ہونے کا موقع ملتا ہے تو پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو اپنے فولڈ میں لے۔مگر افسوس کہ انجینئر مرزا جیسے لوگ ریٹنگ کے چکر میں پورے ایشو کو روندڈالتے ہیں۔کوئی ہے جو اس سے سوال کرے کہ بتاؤ، لگاتار 3 شوز میں ایک ہی بات کیسے دُہرادی گئی ، جب پورا بھارت ، وہاں کے مسلمان ایک آواز ہیں ، تو کیوں امت سے الگ لائن اختیارکرنا؟؟بہر حال سوشل میڈیا کا مسئلہ ہی یہی ہےکہ توجہ لینا، چاہے کسی قیمت پر۔

حصہ