دیوبند کا تاریخی آل انڈیا مشاعرہ

210

(چوتھی قسط)
الحاصل نشور صاحب نے خوب پڑھا۔ پیٹ بھر کے داد وصول کی۔ ایک مطلع تو بڑا برمحل قسم کا تھا:
اک کشمکش غم ہے اورشوق کی منزل ہے
دامن بھی بچانا ہے، شعلہ بھی مقابل ہے
شعلے کالفظ سنتے ہی ذہن شبنم پر جست کر جائے تو قصور اس میں جوش ملیح آبادی کے سوا کس کا ہوسکتا ہے جو اپنے مجموعے کا نام ’’شعلہ و شبنم‘‘ رکھ کرپاکستان رفوچکر ہو گئے۔ یہ الفاظ معنوی اعتبار سے کتنے متضادہیں مگر چہرے مہرے کے لحاظ سے کس قدر یکساں، بالکل جڑواں بھائی۔ دفعتاً وہی بزرگ جنھوں نے عمر رفتہ کو آواز دی تھی، تڑپ کر بولے:
’’ہائے نشور صاحب نے یہ کیا کہہ دیا ہے۔ شعلہ بھی مقابل ہے۔ شو۔۔۔ شا۔۔۔ شب۔۔۔‘‘۔
’’سنبھل کر مولانا۔ شب نہیں شو۔‘‘ میں نے فوراً ٹوکا۔ مگر وہ تقریباً عالمِ وجدمیں تھے۔ شین جیسے ان کی زبان سے چپک کر رہ گیا تھا۔ مجھے مشہورماہر نفسیات کا گانوف چیاؤں کا وہ ناول یاد آیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ عورت ایک برمے کی مانند ہے جوسو سال پرانی کھوپڑی میں بھی بڑی آسانی سے سوراخ کر سکتی ہے۔
چیاؤں کے بڑے بھائی بھاگانوف میاؤں نے بھی یہی بات دوسرے الفاظ میں کہی ہے کہ موت اورعشق کا کوئی وقت نہیں، بوڑھاپے کو دور رکھنا چاہتے ہو تو ڈٹ کر عشق کرو۔
دفعتاً موصوف نے اپنا ہاتھ اپنی ہی ران پر زور سے مارا اور نعرے کے انداز میں لب کشا ہوئے:
’’ہائے ہائے۔ شعلہ بھی مقابل ہے برعکس نہند نام زنگی کافور‘‘۔
میں نے پھر ٹوکا ’’یہ فارسی کا مشاعرہ نہیں ہے جناب۔ آپ اردو میں داد دیجیے۔‘‘
انھیں جھٹکاسا لگا۔ بھویں تان کر بولے ’’آپ عجیب قسم کے آدمی ہیں‘‘۔
’’جی نہیں میں شاعر قسم کا آدمی ہوں۔ ابھی دیکھیے گا میرا بھی نمبر آئے گا۔ دھویں اٹھ جائیں گے۔‘‘
’’اوہو۔ شاید آپ کا نمبر صدر صاحب کے بعد آئے گا۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ اررر۔۔۔‘‘
میرے سامنے سے پردہ سا ہٹ گیا۔ واقعی آل انڈیا شاعروں تک نوبت آ چکی تو مجھے اب گھاس کون ڈالے گا‘ ہو سکتا ہے مجھے سب سے آخر میں حرف آخر کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔
صفحات اتنے سیاہ ہو گئے مگر ابھی درجنوں شاعروں کا تذکرہ باقی ہے۔ کاش کبھی یوں بھی ہوتا کہ ایڈیٹر تجلّی میری نکیل ڈھیلی چھوڑ کر فرما دیتے کہ لکھو ملادل کھول کر۔ ایک شمارہ تمھاری ہی نذر ہے۔ مگر آہ:
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
مجبوراً شارٹ ہینڈ میں دی اینڈ کی طرف آتا ہوں:
عالم فتح پوری کے کیاکہنے۔ جگر صاحب پر ان کی نظم زلفِ دوتا کی طرح طویل تھی۔ مگر بڑی دل چسپ۔ بڑی خوبصورت بڑی رواں۔ پڑھنے میں بھی انھوں نے کمال کر دیا۔ جیسے فرنٹیر میل دھویں اڑاتا، اسٹیشن پر اسٹیشن چھوڑتا چلا جا رہا ہو۔ مجازاً نہیں بلکہ حقیقتاً وہ خون جگر میں قلم ڈبو کر لکھتے ہیں، شاید اسی لیے ان کے چہرے کی ہڈیاں ابھر آئی ہیں اور لب و عارض کی ویرانی نچوڑے ہوئے سنگترے کی یاد دلاتی ہے، کاش وہ داڑھی رکھ لیں تو میرا دعویٰ ہے کہ برنارڈشا سے زیادہ جچیں گے۔
ایک شاعر جن کا نام یا تو بلبل فدائی تھا یا سنبل قدوائی۔ یا شاید دلدل بقائی۔ تینوں نام یادداشت کے خانے میں ایسے گڈمڈ ہوئے ہیں کہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال وہ اوسطاً دو شاعروں کے برابر تھے، بلکہ عامر عثمانی، نشور واحدی اور روش صدیقی تینوں کی ایک ساتھ مشقیں کس دی جائیں تو گولائی ان سے زیادہ نہیں بنے گی۔ رنگ پکا جامنی، آنکھیں گول جن کا قطر نئے پیسے سے زیادہ نہ ہو گا۔ دہانہ کم و بیش نصف بالشت چوڑا۔ انھیں دیکھ کر میں نے میر حیرت علی سے پوچھا تھا:
’’کیوں میر صاحب کیا آپ کو یقین ہے کہ ان کا اور شبنم اٹاوی کا خالق ایک ہی ہے؟‘‘
’’اماں کیوں کفر بکتے ہو‘‘ وہ آنکھیں پھڑپھڑا کر بولے تھے۔
زنانی آواز والے مرد شاعر:
مگر ان کی آواز ایک کرشمہ ثابت ہوئی۔ بڑی باریک اور دوشیزہ، جب وہ نکلی تو میرے آس پاس والے چونک گئے۔ میں تو سمجھا شبنم کے علاوہ کوئی اور خاتون بھی آگے موجود ہیں اور موصوف کو روک کر انھی کو نمبر دے دیا گیا ہے۔ عمر رفتہ والے بزرگ بھی یہی سمجھے تھے۔ ان سے رہا نہ گیا۔ دبی زبان میں مجھ سے پوچھنے لگے:
’’کیوں جناب یہ کون صاحبہ ہیں؟‘‘
’’یہ میری عمر رفتہ ہیں۔ اب کیا آپ ان پر بھی دانت رکھیں گے۔‘‘
میں نے تشویش کا اظہار کیا، وہ بگڑ کر بولے:
’’آپ بڑے واہیات آدمی ہیں۔ لاحول ولا قوۃ الّا باللہ‘‘۔
مجمع کروٹیں سی بدل رہا تھا۔ میں نے گھٹنوں کے بل اچک کر دیکھا تو یہ دیکھ کر سنّاٹے میں آ گیا کہ آواز اسی نصف بالشت چوڑے دہانے سے نکل رہی تھی۔ حیرت ہی حیرت، پھر اشعار بھی عجیب و غریب تھے۔ اپنے انداز کے بالکل یکتا اتنے ہلکے پھلکے کہ شاید نائلون کا دوپٹہ بھی ان سے زیادہ ہی وزن رکھتا ہو۔ وہ دراصل قطعات تھے جن میں ہر ایک کا مستقل عنوان بھی تھا۔ جناب شاعر پہلے عنوان بتاتے پھر قطعہ عرض کرتے۔
پہلا قطعہ تھا ’’وصل سے محرومی‘‘
فرمایا ’’حضرات احقر کی شاعری واقعات پر مبنی ہے۔ قطعہ ملاحظہ فرمائیے اور ذرا قافیے پر بھی نظر رکھیے گا‘‘۔
علی گڑھ ہوتا تو ضرور کوئی سخن فہم چیخ پڑتا کہ بھائی جان نظر تو آپ ہی کو دیکھ کر خیرہ ہو چکی ہے۔ قافیہ کس سے دیکھا جائے گا تشریف لے جائیے۔ مگر یہ دیوبند تھا۔ بچارے نیک قسم کے لوگ صرف ہنس رہے تھے یا پھرآنکھیں گھما گھما کر تقابلی مطالعہ کر رہے تھے۔ لیجیے وہ قطعہ شروع ہوا:
میں انھیں یاد کیا کرتا ہوں
وہ مجھے یاد نہیں کرتے ہیں
میری تجویزِ وصل پر افسوس
وہ کبھی صاد نہیں کرتے ہیں
مجمع لہرا اٹھا۔ اسٹیج والے بھی کلبلائے۔ میں اس کشمکش میں تھا کہ داد دوں یا عش عش کروں۔ قطعہ ہر آئینہ عش عش کا مستحق تھا۔ ایک تو ’’صاد‘‘ کا قافیہ پھر شاعر کا حسن طلب دیکھیے کہ محبوب کے آگے خودکشی کی ایک نئی تکنیک رکھتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ وہ الو کا پٹھا یا الو کی پٹھی اس پر صاد بھی کر دے۔ اگر مدیر تجلّی موجود نہ ہوتے تو میں یقیناکھڑے ہو کر کہتا:
’’بڑے بھائی! محبوبہ اگر خودکشی ہی پر مجبور ہو گی تو زہر کھا لے گی، ریل کے آگے لیٹ جائے گی، بجلی کا تار پکڑ لے گی، مگر سڑک کوٹنے کے انجن کا انتخاب ہرگز نہ کرے گی‘‘۔
اتنے میں دوسراقطعہ آیا۔ عنوان تھا: ’’یک طرفہ محبت‘‘
میری طرف دیکھ کے وہ ہنس دیے
ان کی طرف دیکھ کے میں رو دیا
میری محبت انھیں بالکل نہیں
ان کی محبت نے مجھے کھو دیا
’’کیا ریختی ہے‘‘ میں نے عمر رفتہ والے بزرگ کی طرف دیکھ کرمشورہ طلب انداز میں کہا۔ ان کے دونوں ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔ تیوری پربل تھے۔وہ ابھی تک یقین نہیں کر پائے تھے کہ آواز مرد ہی کی ہے۔ میری داد کو نظر اندازکرتے ہوئے بولے:
’’یہ آواز مرد کی کیسے ہو سکتی ہے‘‘۔
’’میں نے کب کہا کہ مرد کی ہے۔ مگر نکل مرد ہی کے منہ سے رہی ہے‘‘۔
’’کیابات ہوئی‘‘۔ وہ غْرّائے۔
’’جنس کی تبدیلی اب کوئی عجوبہ نہیں رہی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے معاملہ میں ابتدا گلے سے ہورہی ہو۔‘‘
وہ لحظہ بھر غور کرتے رہے پھر سر ہلا کر بولے ’’نہیں یہ بات دل کو نہیں لگی‘‘ تو پھر ایک اور بات ہو گی ‘‘
’’کیا؟‘‘ انھوں نے ناخوش گوار لہجے میں سوال کیا۔
’’تجویز وصل پر صاد نہ کرنے والی محبوبہ کو ہو سکتا ہے انھوں نے تاؤ میں آ کر سموچا نگل لیا ہو۔ اب وہ اندر ہی سے چیخ پکار کررہی ہے۔ دہانہ تو آپ نے ملاحظہ فرما ہی لیا ہو گا؟‘‘
’’آپ فضول باتیں کرتے ہیں ، ہٹائیے شعر سننے دیجیے‘‘۔
مائیک میں پپیہا بولا:
’’سنیے حضرات و خواتین ایک قطعہ اور حاضر ہے۔ اس کا عنوان باندھا ہے ’’صاف انکار‘‘ دور سے کسی نے چیخ کر پوچھا ’’آپ کتنے قطعے پڑھیں گے بڑے بھائی۔‘‘
’’اس کاپی میں بس دس ہیں‘‘۔ انھوں نے نوٹ بک کو فضا میں لہرایا۔
’’بہت کم ہیں‘‘ کوئی بولا کیا اور بھی کوئی کاپی ہے‘‘۔
’’جی ہاں بڑی بیاض سوٹ کیس میں رکھی ہے۔ آپ لوگ اصرار کریں گے تو دوسرے نمبر تک وہ بھی اٹھا لائیں گے۔‘‘۔
قریب ہی سے کسی نے کہا۔ ’’پہلے نمبر پر اٹھا لائیں تو بہتر ہو گا بڑے بھائی۔ فقط دس قطعوں میں ہمارا کیا بھلا ہو گا۔‘‘
’’خاموشی سے سنئے حضرات‘‘ سکریٹری صاحب نے جلدی سے اٹھ کر مائک میں کہا ’’بلبل فدائی صاحب بہت دور سے آئے ہیں۔‘‘
یا شاید انھوں نے سنبل فدائی کہا تھا یا دلدل بقائی، بہرحال اب محترم شاعر پھر گویا ہوئے:
’’تو حضرات و خواتین، قطعہ کا عنوان تھا ’’صاف انکار‘‘۔
’’تھا سے کیا مطلب ہے، بڑے بھائی‘‘ کسی نے بات کاٹی۔ ’’اب جو عنوان ہے وہ فرمائیے‘‘۔
اب اور تب کیا کہتے ہو بھئی، وہ خفا ہو کر بولے۔ ’’عنوان کوئی روز بروز بدلتا ہے‘‘۔
’’آپ قطعہ پڑھیے حضرت‘‘ سیکرٹری صاحب نے اکتا کرکہا۔
’’جی ہاں تو خواتین و حضرات ‘‘
’’خواتین بار بار آپ کو کہاں نظر آ رہی ہیں‘‘۔ ایک بھاری آواز غراہٹ کا انداز لیے ہوئے بلند ہوئی۔
’’جی۔۔۔ جی‘‘ موصوف نے گھبرا کر اسٹیج پر دائیں بائیں دیکھا۔ چشم بد دور۔ اسٹیج پر اکیلی شبنم صاحبہ ہی نہیں تھیں نیلی چھتری والے کی قدرت سے کئی اور خواتین بھی بحیثیت سامعین کے موجود تھیں۔ ایک تقریباً تیس بتیس سال کی محترمہ تو شبنم صاحبہ کے قریب ہی تشریف فرما تھیں۔ ان کے جسم پر ساری اور بلاؤزر تھا۔ یقیناوہ ہندو یا کرسچین رہی ہوں گی، ورنہ دیوبند کی رجعت پسند عورتیں ابھی کلچرل ترقی میں اتنی آگے نہیں بڑھ سکی ہیں کہ مردوں کے اعصاب کو اتنا کھلا چیلنج کر سکیں۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سہارن پور یا مظفر نگر کی کوئی مس نرگس یا مسز جمال ہوں۔ ضلع قسم کا اب کوئی بھی شہر اتنا پس ماندہ نہیں رہا ہے کہ وہاں ہر فرقے میں دس بیس سوسائٹی گرل قسم کی الٹرا ماڈرن خواتین دستیاب نہ ہو سکیں۔
(جاری ہے)

حصہ