زندگی دھوپ ،تم گھنا سایہ

454

ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے
والدین دنیا کا مضبوط ترین رشتہ اور حوالہ ہیں۔ جہاں ماں کے قدم جنت کی نوید سناتے ہیں وہیں وادیٔ جنت کی کنجی باپ کی رضا میں پوشیدہ ہے۔ یہ باپ ہی ہے جو زمانے کی تند و تیز ہوائیں خود سہہ کر اپنے گھونسلے کو تنکا تنکا ہونے سے بچاتا ہے، یہ باپ ہی تو ہے جس کی ڈانٹ کا خوف بچوں کو بے جا ضد کرنے سے باز رکھتی ہے، جس کے گھر میں داخل ہوتے ہی بپا شور و فساد یکدم سکوت میں بدل جاتا ہے، جس کی ایک آواز ہی دَم سادھے جانے کے لیے کافی ہے، جس کی ذات بظاہر خول نما سخت مگر درحقیقت بے لوث ، اَن مول، بے غرض، الفت و قربانی کا پیکر ، دسترخوان پر موجود ہو تو تمام بے جا نخرے بھی دب جاتے ہیں، جس کا ذکر بچوں کی لڑائی ختم کرتی ہے ’’بابا آجائیں‘ سب بتاؤں گا…‘‘ یہ باپ ہی تو ہے جو اپنے جگر گوشوں کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہے، جسے ان کی ذرا سی تکلیف بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے، جو بوجھل حالات میں بھی اپنی تڑپ کو یکسر بھلائے آشیانے کو سمیٹنے کا فن جانتا ہے، جو سونے کے نوالے کی جدوجہد میں شیر کی نگاہ رکھنا نہیں بھولتا اور اکثر یہ الفاظ گونجتے ہیں ’’خبردار جو آئندہ فلاں جگہ پر دوبارہ نظر آئے۔‘‘ یہ باپ ہی ہے جس کا سمجھایا سبق زندگی بھر یاد رہ جاتا ہے‘ یہ وہی باپ ہے جو جگر گوشوں کی بہتر شخصیت پہ سمجھوتے نہیں کرتا، جو اپنی زندگی بچوں کی جوانی میں ڈھال کر آسودہ دکھائی دیتا ہے۔گویا باپ سارے ایک سے ہی ہوتے ہیں، جن کی قربانی کے عوض زمانے کو نیا لہو ملتا ہے ، نئی کرنیں پھر سے طلوع ہوتی ہیں۔ ایسے ہی بہت سے باپ جن کی زندگانی پردیس کے حوالے ہو جاتی ہیں اور اپنوں کے بہتر مستقبل، تعیشات کا ڈھیر لگاتے بے گانے ماحول میں ہی رہنے پر مجبور رہتے ہیں۔
’’پردیس میں جب باپ بننے کی خبر ملی‘ کیا احساسات تھے؟ ملک خاور جو کہ گزشتہ پندرہ برسوں سے دبئی میں مقیم اور بطور انجینئر نجی کمپنی سے وابستہ ہیں‘ اُن کا کہنا ہے کہ ان کے دبئی آنے کے تقریباً کچھ ماہ بعد ہی یہ خوش خبری ملی تھی‘ وہ چوں کہ پہلی بار باپ کے رتبے پہ فائز ہوئے اور دور بھی تھے تو شاید یہی وجہ بنی کہ اس وقت اس خوب صورت رشتے کا احساس نہیں کر پائے مگر جب سال بعد چھٹیوں پہ گھر لوٹے اور پہلی بار بیٹے کو گود میں اٹھایا ، وہ لمحات ناقابل بیان ہیں۔ ایسے لگا کہ اصل میں باپ تو آج ہی بنا ہوں‘ زندگی یکدم حسین اور بدلی ہوئی محسوس ہوئی‘ وہاں گزارہ ہوا ہر لمحہ اپنے جگر گوشے کے ساتھ بِتانے کی کوشش کرتے رہے۔
گفتگو کا حصہ بنتے ہوئے اشتیاق احمد اپنی یادوں کے دریچے کھولتے ہیں کہ چالیس سال قبل معاش انہیں روشنیوں کے شہر کھینچ لایا۔ آبائی شہر راولپنڈی تھا، سو کراچی ہی پردیس ٹھہرا۔ اس دور میں ٹیلی فون کی سہولت میسر نہ تھی، عموماً اہلِ خانہ کی جانب سے پیغام رسانی کا سلسلہ مالک مکان کے فون سے ہوجایا کرتی۔ اولاد کی خبر سننے کے لیے طویل عرصہ کان ترستے رہے دیارِ غیر میں جب یہ اطلاع ملی تو گویا سرخوشی کا عالم تھا۔ کوئی اپنا تو تھا نہیں جس کے گلے مل کر خوشی بانٹتا۔ دوستوں نے ہی شانوں پر اٹھا لیا اور اونچی آواز میں ریکارڈر بجنے لگا۔ خوشی کو سمیٹنے کی کوشش تو کی، دل چاہا کہ اُڑ کر وہاں پہنچ جاؤں مگر پیٹ بھی تو ساتھ لگا تھا، صبر کرنا ہی پڑا۔
باپ بیٹی کا انوکھا بندھن پیار و محبت، مان، بے تحاشا لاڈ سے گندھا ہوتا ہے۔ جہاں گڑیا کو چوٹ پہنچی، باپ کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔ عموماً بیٹیاں ماں کی نسبت باپ سے زیادہ قربت رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بیٹی اپنے احساسات بیان کیے کہ وہ والد سے زیادہ قریب تھیں تو ہر کام میں ان کا مشورہ درکار ہوتا‘ ان کی غیر موجودگی خلش پیدا کر دیتی۔ قدم قدم پر والد کی شفقت، وقت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، ان سب کی عدم موجودگی نے شخصیت پر بھی اثر ڈالا۔
’’جب باپ بنو گے ، تب پوچھوں گا۔‘‘ والد صاحب اکثر میری الجھنوں پہ یہی کہا کرتے۔ محسن نواز اپنے والد کی یادوں کے تذکرے پر آبدیدہ ہوگئے اور گویا ہوئے کہ ان کا تعلق معاشرے کے ان گھرانوں میں سے تھا جہاں زندگی کی جہد محض تین وقت کی روٹی کے گرد گھومتی ہے۔ والد، دیہاڑی دار اور واحد کفیل تھے۔ والد صاحب نے اپنی زندگی کی تھوڑی بہت جمع پونجی اور جیسے تیسے قرض اٹھا کر روشن مستقبل کی دلیل سمجھتے ہوئے مجھے پردیس روانہ کردیا۔ آج سب بدل چل چکا ہے۔ عجیب بات ہے کہ چاہے جتنے برس بھی بیت جائیں‘ عزیز از جان رشتوں سے دوری ہمیشہ تکلیف دہ عمل رہتا ہے۔ عید تہوار کا موقع ہو یا خوشی اور غم کے لمحات، بیماری جھیلنی پڑے یا ہجر و تنہائی کے لمحات‘ جذباتی کشمکش سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا خود کو مارنے کے مترادف ہے، بہت سے خواب چکنا چور ہوتے ہیں۔ مگر اب بطور باپ وہ تمام گتھیاں سلجھ گئیں جن کے جواب کبھی میں والد صاحب سے مانگا کرتا تھا۔ گفتگو جوڑتے ہوئے ہوئے مزید کہا کہ ان کی پشت پہ اہل خانہ کے ساتھ تعاون کرنے والے موجود رہے، اس اعتبار سے باہر ہوتے ہوئے بھی کبھی فکرمند نہیں ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچے بھی ذمے دار ہوتے گئے۔
انتظار اور جدائی کے لمحات کسی اذیت سے کم نہیں ہوتے۔ والد کے آنے سے قبل اور واپسی کے ماحول کے بارے میں حمیرا نے بھی گفتگو کی‘ اُن کے والد ائرلائن میں کام کرتے تھے اور اکثر دوسرے ممالک میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا‘ ان کے آنے پر گھر میں عید کا سا سماں ہوتا، اتنی باتیں کرنے کے لیے ہوتیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتیں۔ ان کے دیارِ غیر کے قصے بھی ہم بہت شوق سے سنتے اور ان کے لائے گئے تحائف ہمارے سرپرائز ہوتے۔ مگر یہ لمحات پلک جھپکتے ہی گزر جاتے۔ ان کی واپسی سے کئی دن پہلے ہی اداسی چھا جاتی۔ ہم سب ان سے چُھپ کر رویا کرتے کہ کہیں وہ ہمیں دیکھ کر مزید اداس نہ ہو جائیں۔ اسی سلسلے میں مہوش یاسر بتاتی ہیں کہ ان کے والد گزشتہ تیس برس سے کویت میں مقیم ہیں مگر آج بھی واپسی کے لمحات میں وہ اپنی نگاہیں ملانے سے گریزاں ہی رہتے ہیں، وداع کہنے کے بعد دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھتے۔ ائرپورٹ پر جب تک وہ اوجھل نہ ہو جائیں ، ہماری نگاہیں ان پر ہی جمی رہتی ہیں۔
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں…؟ باپ کی بپتا یا ماں کی ممتا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کسی دن کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ ہی اس اَٹوٹ بندھن کو کسی دن میں قید کیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاہی خشک ہو جائے ،صحیفے نہ رہیں مگر حق مہربانی ادا نہ ہو پائے گا۔ والد کی شفقت و الفت، سائبان ہونے کے احساس، ایثار و قربانی کی داستانیں ازل تک یونہی رہیں گی۔

حصہ