سوشل میڈیا پر گندی سازش اور گھنائونا کھیل

304

سوشل میڈیا پر بھارت کے خلاف رد عمل اس ہفتہ بھی شدت پکڑا رہا۔ بھارتی انتہاپسند بی جے پی حکومت نے بلڈوزر سیاست کو پروان چڑھایا، گھر تو مسمار ہوئے مگراس کے اثرات مسلمانوں کےحق میں ہی رہے۔ مسلمانوں کےمزاحمتی ردعمل نے جان پکڑی ہے ۔من سب نبیا فاقتلوہ کا نعرہ اس وقت برصغیر مطلب پاکستان، بھارت ، بنگلہ دیش سے ہوتا ہوا، دیگر اسلامی ممالک میں جان پکڑ رہا ہے۔بلا شبہ پیٹرول و دیگر اشیا کی قیمتوںمیں بدترین اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے ، غلام حکمران اپنی بے چارگی و لاچاری کا رونا روتے نظر آئے ۔ اپنی کوئی چیز کم نہیں کرنی مگر عوام کی چائے ، چینی، روٹی کم کرنے کے مشورے مسلسل دیئے گئے۔
اس ہفتہ حمزہ علی عباسی اپنے استاد غامدی کے بیانیے کا علم تھام کر پھر ٹوئٹر کی دنیا میں داخل ہوئے اور محبان اسلام کاشکار ہوگئے۔#shameonyouhamzaaliabbasi کا ٹرینڈ کوئی 15ہزار ٹوئیٹس کے ساتھ اُترا ۔حمزہ کے کوئی ۳۴لاکھ ٹوئٹر فالوورز ہیں ، حمزہ نے کہاکہ وہ اپنی یو ٹیوب پر ریکارڈڈ شدہ سیریز میں ان موضوعات پر تفصیلی بات کر چکا ہے۔یہ سیریز بھی’ غامدی سینٹر فار اسلامک لرننگ ـ‘کے چینل پر 2020میں نشر ہوچکی ہے۔حمزہ عباسی کہنے کو تو پاکستان کا ایک معروف اداکار ہے جو پاکستانی فلم و ڈراموں میں خاصی مقبولیت پا چکا ہے، اچانک یا شاید کسی رمضان ٹرانسمشن کی میزبانی کی وجہ سے ، اُس کا رحجان دین کی جانب ہوتا ہے ،تو وہ اپنے مزاج کے مطابق جاوید غامدی کے نظریات کو درست سمجھتے ہوئے ، وہاں تعلیم لینے پہنچ جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ غامدی امریکا میں مقیم ہیں اور وہیں سے اپنے نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں۔نوپور شرما والے واقعہ کے بعد اٹھنے والی مسلم لہر میں جیسا میں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اور عملی مظاہروں میں جن کی وڈیوز آپ بھی دیکھ رہے ہوںگے ۔ من سب نبیا ً۔والا نعرہ یا گستاخ نبی کی ایک سزا۔ سر تن سے جدا ۔ سب سے نمایاں ہے۔ سوشل میڈیا پر مستقل ٹریند بھی اسی عنوان سے ہوتا ہے ۔نامعلوم اسی تناظر میں یا کسی اور معاملے پر ۔ حمزہ علی عباسی نے بھونڈی ٹوئیٹ ٹھونک دی۔ اس ٹوئیٹ میں پانچ چھ ایشوز کو اپنے تئیں ایڈریس کیا تھا ۔ جس میں اول : گستاخ نبی کی سزا والا معاملہ تھا، شکر ہے کہ اس نے لکھاکہ میں جس اسلام پر یقین رکھتا ہوں سے بات شروع کی۔مطلب اس نے واضح کر دیا کہ وہ ایک الگ اسلام پر یقین رکھتا ہے ، جس کا اسلاف سے اکابرین سے امت کے تواتر و توارث سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس نے صاف لکھاکہ’’ اُس کے اسلام میں گستاخی کی کوئی سزا نہیں۔ مرتد ہونے کی کوئی سزا نہیں۔غلامی کی اجازت نہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی عمر مبارک شادی کے وقت 17-19 سال تھی۔ تمام قسم کے آرٹ و موسیقی کی کچھ کیفیات کے ساتھ اجازت ہے۔
نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری نبی وامام و رسول ہیں ، تمام قسم کی نبوت کے سلسلے نبی کریم ﷺ پرختم ہوچکے ،اور میں یقین رکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی دنیا سے جا چکے ہیں اور اب دوبارہ کوئی عیسیٰ علیہ السلام اور کسی امام مہدی کی آمد نہیں ہونی۔‘‘حمزہ نے کہاکہ کئی لوگ میری بات سے اختلاف کریں گے مگر اس نے کہاکہ کسی چیز کے درست یا غلط ہونے یا اختلاف کے لیے اس کے پیچھے کی وجوہات کا مخلصانہ تجزیہ ہونا چاہیے ناکہ آپ اکثریت کی جانب رجوع کریں۔‘
بہرحال یہ پوسٹ بہت سارے تناظر رکھتی ہے، اسکا علمی پوسٹ مارٹم یقیناً سوشل میڈیا پراس طرح نہیں ہوا جیسا ہونا چاہیے تھا۔اس ٹرینڈ میں یا تو بڑی تعداد میں امام مہدی کے جاںنثار اترے نظر آئے یاموسیقی کے حرمت پر احادیث یاقرآنی آیات، باقی کسی اور پر توجہ ہی نہیں محسوس ہوئی ۔ گویا کہ باقی باتیں درست ہیں بس تم یہ کہہ دو کہ امام مہدی آئیں گے ۔کوئی یہ نہیں دلچسپی رکھتاتھا کہ اماں عائشہ صدیقہ ؓ کی عمر میں 10سال کا اضافہ کیسے ہوگیا؟ کوئی یہ نہیں فکرکررہا تھاکہ مرتد ہونا دین کو چھوڑ دیناکوئی مذاق ہے کیا؟کسی کو نبی کی خدا کی گستاخی پر کوئی دلچسپی ہی نہیں محسوس ہورہی تھی بحیثیت مجموعی۔ ہاں جذباتی افراد ضرور کچھ نہ کچھ وعیدیں سنا رہے تھے مگر دلائل و علمیت سے سب خالی تھے ۔ جیسا کہ حمزہ نے کہاتھا کہ علمی بات کی جائے ۔۔امام مہدی والی بات کیوں دل پر لگی اور باقی پر کیوں لوگ چپ رہے ۔ یہاں تک کہ الگ سے امام مہدی کا اگلے دن ٹرینڈ بنایا گیا۔اب اس بات کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو حمزہ کے استاد غامدی اور غامدی کے استاد سرسید کے پاس لے جاتا ہوں۔
اب اس مثال سے آپ کو یاد دلاؤں گا کہ برصغیر میں استعماری دور یعنی 19ویں صدی میں کفر کے نامور فتوے 2 افراد پر لگائے ۔ ایک تو سرسید احمد خان، دوسرا مرزا قادیانی۔مگر کیا وجہ ہے کہ مرزا قادیانی کا فتویٰ زیادہ مقبول ہواجس پربعد میں بھی اتفاق رائے رہا ۔ سرسید والا فتویٰ مقبولیت اور اپنی مطابقت نہ رکھ سکا۔اس لیے کہ سر سید نے دین کی تعبیر کو روایت سے کاٹ کر استعماری صف بندی میں ڈال کر پیش کیا۔سر سید نے دین کی ایسی ہی تعبیرکی جس میں استعمار کو نفوذ کا پورا رستہ ملے ، اس کے لیے وہ براہ راست مسلمانوں کے اساسی عقائد پر حملہ نہیں کرتے ۔ مگر دوسری جانب مرزا غلام قادیانی نے جو دعویٰ کیا اس نے براہ راست مسلمانوں کے اساسی عقائد پر زد ماری چنانچہ اس کے رد میں فتویٰ مقبول عام ہوا۔سر سید کے کیس میں کمی یہ رہی کہ نئے علمی حصار میں یا جس طریقے سے اس نے دین کو پیش کیا تو اس کا جواب فتوے کے بجائے تعبیر کی صورت میں ہی آنا چاہیے تھا، مطلب علمیت کا مقابلہ علمیت سے ، ورلڈ ویو کا مقابلہ ورلڈ ویو سے ہوتا، مگر علما نے اس معاملے میں فتوے کو ہی اہمیت دی جو غلط نہیں تھی مگر موثر نہ رہ سکی۔سر سید اپنی ذاتی زندگی میں صوم و صلوۃ کا پابند اور خواتین کے پردے کے معاملے میں انتہائی سخت جانے جاتے۔سر سید احمد خان اسلامی متن کو استعماری تہذیبی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھےعلمااس وقت اسلامی متن کوفقہی مقاصد کے لیے استعمال کررہےتھے عقائد کے دائرے میں ، اس لیے انہوں نے فقہ کے دائرے میں رہ کر فتوے سے کام چلایا۔سر سید پورے اخلاص سے مسلمانوں کو استعماری غلامی بطور اسلام کی آزادی قرار دے کرکام کر رہے تھے ۔جیسا امام غزالی ؒنے رویہ استعمال کیا یونانی فلسفیوں کے مقابلے میں اور اپنی کتاب تحافہ میں پورا اسلامی عقائد کا جوابی بیانیہ دیا۔تو جو کام سر سید نے اس وقت انجام دیا ، بعینہ وہی کام اس صدی میں جاوید غامدی اور ان جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ دین کو اس کے 1400سالہ سفر کے کاٹ کر ، ساری اسلامی متن کو (قرآن و حدیث) کو من پسند تشریح میں ڈھال دینا۔صرف ڈھالنا ہی نہیں بلکہ اس کو ہی اسلام بنا کر پیش کر دینا۔ جیسا کہ آپ کو اوپر حمزہ علی عباسی کے الفاظ میں نمایاں ہے ۔یہ سب سے آسان فہم بات ہے کہ اگر لوگ از خود جیسی چاہیں اسلام کی تشریح کر لیں اور اسکو عین اسلام سمجھ کر جیتے رہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ استعمار کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ نے بقا کی جنگ کو ضروی سمجھا اور بعد میں غلامی کی بدترین شکل کے بعد اسلام کے احیا کے تصور کو جب سید مودودی ؒ نے پیش کیا تو لوگوں نے اس کو الگ بات سمجھا ۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بقا اور احیا کی جنگ دو الگ چیزیں ہیں اور ان دونوں میں کوئی کم اہم نہیں۔تہذیبی بقا کو احیا سمجھ لینا بہرحال غلطی ہے۔اگر فقہی تناظر تہذیبی و تصور حیات کے تناظر سےکٹ جائے تو فقہ صرف ایک ’سولوشن پروائیڈر‘ مسائل کا حل بتانے والی چیز بن جاتی ہے ۔ اسلام کی 1400 سالہ روشن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ استعمار سے پہلے ایسا عملاً کبھی نہیں ہوا۔ بغداد کے کسی محل میں بیٹھا ہوا حکمران اسلامی معاشرت کو نہیں چلاتا تھا بلکہ وہ ساری معاشرت ، شرع اسلامی اپنے مکمل تصور حیات و تہذیبی تناظرمیں چلتی تھیں۔میری اس بات کو سمجھنے کے لیے ترکی میں بننے والے حالیہ ڈرامہ سیریل ارتغرل، عثمان و دیگر میں دکھائی گئی معاشرت سے بھی بڑی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔اس معاشرت میں شیخ ابن العربی، ادیبالی، و دیگر کے کردار و اثرات کیا تھے اور کیسے وہ بادشاہوں تک کو شرع اسلامی کا پابند کرتے یہ بہرحال ان سیریز کانمایاں پہلو ہے۔
بات ہورہی تھی علمیت کی ، حمزہ عباسی، غامدی و انکے چیلوں کا یہی کمال ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اسلامی علمیت کی پائپ لائن کاٹی ہے۔ جو علم 150 سال تک زبانی، اسناد سے منتقل ہوتا رہا ، اُس پر آج کے دور میں ڈھیروں پبلشنگ ہاؤسز کے تناظر میں کیوں کر سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟استعمار کے پاس اپنے تہذیبی اثر و نفوذ کے لیے واحد یہی طریقہ تھا کہ مسلم معاشرے کی تہذیبی لائن کاٹی جائے جس کی جڑ پیچھے سے جڑی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو حملے ہوئے وہ نبی کریم ﷺ ، احادیث، صحابہ ، تبع تابعین کی پوری لائن کو کاٹ کر ہی کرائے گئے۔اس کے مقابلے پر خود ساختہ تشریحات اور اسلام کے آسان ہونے اور (معاذاللہ )ہر قالب میں ڈھل جانے والا فلیکسیبل flexibleدین قرار دیا گیا ۔ اسکی خصوصیت بتا کر۔ یہ سب سے آسان عمل تھا اور آسانی سے زود ہضم بھی ۔آپ دیکھیں کہ لوگوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح موسیقی ، گانے بجانے، پردہ، حجاب، عورت کے معاملات میں ڈھونڈ کر ایسا فتویٰ یا متن یا تشریح لائیں جن سے ان کو، ان کے نفس کوتسکین مل سکے۔ یہ کام کرتے وقت وہ پورے اسلامی علمیت کے 1400 سالہ تواتر و توارث و تہذیبی نمونے کو ایسے نکال پھینکتے ہیں جیسے کہ وہ بالکل بے کار ہو۔اس کی مثال سائنس کو اسلامی قرار دینے کے عمل سے لیکر دیکھیں ۔ بجائے یہ کہنے کہ سائنس بھی ایک علم ہے ، اسکو پڑھنا چاہیے ۔ ہم ضروری سمجھتے ہیںکہ اسکو اسلامی قرار دیا جائے اور ڈھونڈ ڈھوند کو اس کو اسلامی کرنے ، اسلامی سائنسدانوں کی فہرستیں مرتب کرتے ہیں۔پھر جیسے ابن الہیثم کو اسلامی سائنسدان قرار دے کر موجودہ طب کے لیے جواز نکالتے ہیں، جبکہ اگر ابن الہیثم کو اسلامی سائنسدان مانیں گے تو وہ تو حکمت و یونانی طرز علاج کے ماہر تھے ، مگر ایلوپیتھک ماڈل میں ان طریقہ علاج کو دقیانوسی قرار دیا جاتا ہے۔اس لیے اس گندی سازش کو علمی بنیادوں پرسمجھنا نہایت ضروری ہے جس کا اہم ٹول سوشل میڈیا ہے۔

حصہ