رزق اور خدا کا قانون

292

وَلَوْ بَسَطَ اللَّـهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
(الشوریٰ: 27، 28)۔
ترجمہ: ”اگر اللہ اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کردیتے۔ مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے سب بندوں سے باخبر ہے۔ اور ان پر نگاہ رکھتا ہے… وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے۔“
قرآن کریم کی ان آیات اور دیگر آیات کے مطالعے سے اللہ تعالیٰ کی رزاقی، اس کی رزق رسانی اور رزق کی فراہمی اور حاجت روائی کا جو کسی قدر علم و فہم حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیوانی ضروریات کی فراہمی اور بہم رسانی کا ایک مکمل نظام اور حکیمانہ اصول قائم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا اصول یا قانون تو یہ سامنے آتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا انسان کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور رحیمانہ سلوک ہے۔ وہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ وہ ان کی تمام تر ضروریات کا خیال رکھتا ہے، اور بے مانگے اپنی عنایاتِ خاص سے انہیں پوری کرتا ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ رزق رسانی اور حاجت روائی کو کسی گروہ یا طبقے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا ہے۔ اس بارے میں مومن و کافر، وفادار اور بے وفا، نمک حرام اور نمک حلال، کافرو مشرک کا بھی کوئی فرق قائم نہیں کیا ہے۔ اپنے لطفِ عام کے تحت اس کو بھی روزی دیتا ہے جو اس کو نہیں مانتا ہے، بلکہ گالیاں دیتا ہے اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتا ہے۔اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ ۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں نہیں دیا جاتا ہے، یعنی اگرچہ وہ اپنے خزانوں سے سب کو دے رہا ہے، مگر اس کی عطا اور دَین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی ایک کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز۔ کسی کو ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرمادی ہے۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ عطا اور بخشش کا جو نظام اس نے قائم کیا ہے وہ اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی میں یہ طاقت اور بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے یا زبردستی اس سے لے سکے۔ یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے۔
اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ
(الشوریٰ 19)۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ: یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر ہے کہ وہ کس کو زیادہ دیتا ہے اور کس کو کم۔ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت و مصلحت کو کوئی نہیں جان سکتا ہے کہ کس کو کیوں زیادہ دیا اور کس کو کم کیوں؟ ارشاد ہے:
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ
(الرعد:26)۔
”اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔“
اس اصولِ باری تعالیٰ کے تحت بہت ممکن ہے کہ یہاں ایک ایسے شخص کو جو گمراہ، بدکار اور خداناشناس ہو، خوب سامانِ عیش و راحت مل رہا ہو۔ اور ایک ایسے شخص کو جو صالح اور نیکوکار ہو، نپی تلی روزی مل رہی ہو اور وہ بدحال ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص جو جاہل ہو، سو روپے سے پان کی دکان کھولے یا چھابڑی لگائے اور لکھ پتی ہوجائے، اور ایک شخص پڑھا لکھا، ڈگریوں سے سجا سجایا ہو، لیکن بازار میں جوتیاں چٹخاتا پھر رہا ہو اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے، جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے، جس کے لحاظ سے انسان کے اخلاقی و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔
چھٹا قانون: یہ بڑا ہی اہم قانون ہے۔ اس کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو رزق کی تقسیم کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو اصول مقرر کیے، اور جو قانون مقرر فرمایا ہے، سمجھ میں آجاتا ہے۔
وہ قانون یہ ہے کہ روزی اور سامانِ زیست حاصل کرنے کے سلسلے میں آدمی چاہے جو بھی اور جتنا بھی ناجائز ذرائع اختیار کرے، اور آخرت سے منہ موڑ کر وہ دنیا کمانے کی جتنی بھی فکر کرلے اور اس کے لیے وہ خواہ کتنا ہی سر مارے، جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی۔ بلکہ اُتنا ہی ملے گا جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے۔ اور جو لوگ ناجائز وسائل اختیار نہیں کرتے، اور دنیا کی زندگی میں خدا ترس اور نیکوکار اور جنت کے خواستگار ہوتے ہیں ان کی دنیا بگڑ نہیں جاتی۔ دنیا ان کو بھی کم یا زیادہ ملے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لطفِ عام میں ان کا بھی حصہ ہے، اور نیک و بد سبھی کو رزق ملنے کا جو اصول و قانون اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے، اُس کے تحت ان کو بھی رزق ملے گا۔ البتہ پاک ذریعے سے حاصل کیے ہوئے رزق میں جو برکت عطا کردی جائے گی وہ اس کے سوا ہے، اور مرنے کے بعد آخرت میں تو حصہ ہے ہی۔ اس کے برعکس ناجائز ذرائع اختیار کرنے والے اور دنیا کے خواستگار کے لیے وہاں کچھ حصہ نہیں ہے۔
مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
(الشوریٰ: 20)۔
”جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں دے دیتے ہیں۔ مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“
اس سلسلے میں مزید ایک اور اہم بات یہ کہی گئی ہے من وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا۔ ”اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا یعنی میرے احکام اور ان کی اتباع اور پیروی سے منہ موڑے گا اور حصول رزق میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمیز نہیں کرے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی۔“(طٰہ:124)۔
اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا سے منہ موڑ کر آخرت کو فراموش کرکے اور جائز و ناجائز و حلال و حرام کے فرق کو مٹا کر زندگی بسر کرنے والوں کی زندگی چاہے بظاہر کتنے ہی اچھی معلوم ہوتی ہو، رزق اور سامانِ زیست میں چاہے کوئی تنگی نہ ہو مگر اس کی زندگی ضرور تنگ ہوگی۔ مشکلات میں پھنسی ہوئی اور بے چین ہوگی۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ سرمایہ دار، جاگیردار اور بادشاہِ وقت بھی ہوگا تو بے کلی سے نجات نہ پائے گا، اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی، جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردو پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند ہونے نہ دے گی۔
ساتواں قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو چلانے کا جو اصول اور قانون مقرر کیا ہے اُس میں معاشی تفاوت ضروری ہے، ورنہ دنیا کا سارا کام ٹھپ ہوجائے۔ اگر سب کو یکساں طور پر کھلی روزی دے دی جائے تو کاروبارِ حیات میں فساد برپا ہوجائے، لوگ دولت کی سرکشی میں مبتلا ہوکر بالکل خدا فراموش بن جائیں۔ صنعت کار کو کارخانے چلانے والے مزدور اور زمیندار کو مزارع نہ ملیں۔ تمدن کا ارتقا رک جائے اور تہذیب کی شائستگی ختم ہوجائے، اور ہر طرف نراج پھیل جائے۔ اس لیے معاشی تفاوت ضروری ہے۔ البتہ ایسا معاشی تفاوت ناجائز اور قانونِ شریعت کے خلاف ہے کہ کچھ لوگ تو دولت کے قارون ہوں اور شداد کی جنت بسائے ہوئے ہوں، اور بے شمار لوگ نانِ جویں کے محتاج ہوں۔ کچھ لوگ تو کتے اور بلیوں کی پرورش پر لاکھوں خرچ کررہے ہوں اور انہی کے ملازم صاحب کے کتے پر رشک کرتے ہوں اور ترس رہے ہوں کہ ان کو کسی قدر انسانی خوراک مل جائے۔ یہ نظامِ معیشت ناجائز اور اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے خلاف ہے۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے، خدائے رحمٰن و رحیم کا نہیں۔
٭ضمنی بیان کے بعد جب ہم زیر مطالعہ آیات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔ ارشاد ہے إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ …”یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے“۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس کے پاس کتنا ظرف ہے، کون ہے جو مٹھی بھر دولت پاکر بوکھلا جاتا ہے۔ کون ہے جو نعمتیں پاکر شکر گزار رہتا ہے اور کون ہے جو ناشکر گزار ہوجاتا ہے۔ کون ہے جو دوسروں کی دستگیری کرتا ہے، کون ہے جو فخر و غرور میں مبتلا ہوکر ریاکارانہ خرچ کرتا ہے، کون مسرف ہے، کون بخیل اور کون میانہ رو ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ کس کو اس کی ضرورت سے کم مل رہا ہے اور کس کو زیادہ۔ اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے واقف ہے، اگر کسی کو اُس کی ضرورتوں سے کم مل رہا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کے سامنے منہ کھولنا اور طلب کے لیے ہاتھ اٹھانا چاہیے۔ وہ دیکھ رہا ہے اور جان رہا ہے اور اپنے بندے کی معاشی تنگی سے واقف ہے۔ بندہ اپنی حاجتیں پیش کرے، اپنی تنگ حالی کا اس سے گلہ کرے، اپنے غم اور حزن کا اس سے شکوہ کرے۔ وہ سنے گا اور دے گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر یہ دعا کرتے ہوئے سنا گیا ہے: ’’اے اللہ مجھے معاف فرمادے۔ میرے گھر میں وسعت اور فراخی دے اور میرے رزق میں برکت دے‘‘۔
آگے کی آیت میں جو یہ فرمایا جارہا ہے ’’وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی قابلِ تعریف ولی ہے“۔ اس سے ایک اشارہ اس طرف بھی ملتا ہے کہ اگر معاشی تنگی ہے، تنگ دستی اور غربت نے پریشان کر رکھا ہے تو پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں اپنی درخواست پہنچادو۔ اپنی حاجتیں رکھ دو اور اپنی پریشانیاں پیش کردو، وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا۔

حصہ