بیرونی مداخلت نقصان پہنچاسکتی ہے

204

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں جس موضوع کو بیان کر رہی ہوتی ہوں وہ پہلے بھی آپ قارئین سے شیئر کر چکی ہوتی ہوں لیکن پھر جب دوبارہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ آس پاس دیکھتی ہوں تو میرے قلم کو دوبارہ جنبش ہوتی ہے کہ ضرور اس واقعہ کو آپ سب سے شیئر کروں۔ شاید کسی ایک کو فائدہ پہنچ جائے تو یہ میرے قلم کی کامیابی ہوگی اور یہ میرے قلم کا فرض بھی ہے کہ کسی کا بھلا ہو جائے۔ اسی لیے مذکورہ بالا واقعہ سن کر میں نے ارادہ کیا کہ آپ سب سے ضرور شیئر کروں کیوں کہ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ اکثر و بیشتر آپ اور میرے اردگرد ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ان کی کیا وجوہات ہیں‘ اس پر ہم سب غور کریں گے تو ضرور فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
نورین (فرضی نام) متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خوش شکل لڑکی تھی۔ یونیورسٹی میں ہی اس کی ملاقات احمر (فرضی نام) سے ہوئی۔ کچھ ہی عرصے میں وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور یہ دوستی نکاح کے بندھن میں بندھ گئی۔ اپنی پانچ بہنوں میں سب سے خوش قسمت اور خوش حال زندگی گزارنے کے قابل نورین ہوئی تو وہ بھی اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت لڑکی سمجھنے لگی۔ بہنیں بھی اس پر رشک کرنے لگیں۔ بہن بھائی‘ ماں باپ سب بچیوں سے پیار کرتے ہیں اور انہیں ہمیشہ آباد اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں لیکن بعض اوقات یہی مقدس رشتے انجانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں بظاہر تو وہ اس میں اپنی بیٹی کا بھلا ہی سمجھتے ہیں لیکن اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہی سب کچھ نورین کے ساتھ بھی ہوا۔
اماں اور بہنیں ہمیشہ اسے ایک ہی تلقین کرتیں کہ تیرا شوہر ہر لحاظ سے تجھ سے بہتر ہے اس لیے اسے مٹھی میں رکھ۔ لہٰذا نورین پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ماں‘ بہنوں کی باتوں پر عمل کرنے لگتی۔ ہر وقت شوہر سے سوال و جواب کہ کہاں گئے؟ کیوں دیر کی؟ مجھے وقت نہیں دیتے‘ میں سارا دن بچوں اور گھر میں سر کھپاتی ہوں‘ مجھے خرچا کم دیتے ہو وغیرہ وغیرہ۔
ہر وقت کی اس نوک جھونک سے احمر بہت تنگ آگیا۔ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ میری ملازمت ایسی ہے مجھے وہاں زیادہ وقت دینا پڑتا ہے اور سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے‘ چھٹی کا پورا دن میں آرام نہیں کرتا بلکہ تم لوگوں کو دیتاہوں‘ تمہاری ہر خواہش اور ضرورت کو پوری کر رہا ہوں۔ لیکن نورین پر ان باتوں کا چند دن ہی اثر رہتا اور وہ چند دن نارمل رہتی پھر وہی تکرار… اور اب تو وہ اکثر لڑ جھگڑ کر ماںکے گھر آجاتی۔ مجبوراً ایک آدھ دن کے بعد وہ اسے منا کر لے آتا۔ ایسے مواقع پر بہنیں اس کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ دیکھا اس طرح اب وہ تمہاری قدر کرنے لگا ہے۔ جب کہ دوسری طرف احمر اب نورین کے اس رویے سے دل برداشتہ ہو گیا تھا لہٰذا اس مرتبہ وہ ماں کے گھر گئی تو ایک ہفتہ ہو گیا وہ اسے لینے نہیں گیا۔ احمر کی والدہ کی طبیعت ناساز ہوئی تو اس نے نورین کو فون کرکے تمام صورت حال سے باخبر کیا کہ وہ گھر آجائے لیکن نورین کی بہنوں نے پٹی پڑھائی کہ وہ اب بہانے بنا کر تمہیں لے جانا چاہتا ہے یہی وقت ہے اپنی اہمیت جتائو اور کچھ عرصے اسے اور تڑپنے دو‘ دیکھو کس طرح تمہیں لینے آئے گا۔
جب کہ دوسری طرف احمر کی والدہ کی طبیعت حقیقتاً ناساز تھی ایسے وقت میں احمر کی بہنیں اور رشتے دار کام آئے۔ ایک ہفتہ اسپتال میں رہنے کے بعد اس کی والدہ کی طبیعت سنبھلی تو اسپتال سے وہ گھر آگئیں۔ ان تمام صورت حال پر احمر کو مجبوراً حتمی فیصلہ کرنا پڑا کہ جو عورت اس کی دکھ اور تکلیف میں ساتھ نہ دے سکے اس سے آگے کیا امید رکھی جا سکتی ہے لہٰذا طلاق کے کاغذات اسے بھجوا دیے۔ اس طرح یہ رشتہ دس سال کے بعد اپنے انجام کو پہنچا۔
احمر نے شادی کرکے اپنا گھر دوبارہ بسا لیا اور خوش خرم زندگی گزارنے لگا جب کہ نورین نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری تھی جس کا اثر اس کی ساری زندگی پر قائم رہنا تھا۔ بچوں کے اخراجات کے لیے احمر ایک معقول رقم بھیج دیتا لیکن اس کے سر سے چھت چھن گئی تھی سوائے پچھتاوے اور دکھ کے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ وہ بہنیں جو کل تک ہر وقت اسے شوہر اور سسرال کے خلاف بھڑکاتی تھیں‘ اب اپنی بچیوں کو بھی اس سے دور رکھتیں کہ کہیں اس کا اثر ان کی بچیوں پر نہ پڑے۔ آس پڑوس کو بھی اس کی حقیقت معلوم تھی اس لیے ہر کوئی اس سے دور ہی رہتا۔
…٭…
اس خاتون کی کہانی کو سن کر میں چار دہائی پیچھے چلی گئی جب ماں اور بڑی بہنیں بھی مثبت طریقے سے گھر کی بیٹیوں کو گھر بسانے کے گُر سکھاتی تھیں۔ سسرال خصوصاً شوہر کی محبت حاصل کرنے کے لیے مثبت طریقے سے سمجھاتی تھیں ہم بہنیں آج بھی اماں کی اس بات کو یاد کر کے مسکراتی ہیں کہ اگر ہم اماں کے گھر جائیںکوئی ایک بہن اماں کے پاس رہ جاتی تو اگلے دن بہانے سے اسے اس کے گھر واپس بھیج دیتیں کہ کہیں اس بات سے اس کا شوہر یا سسرال والے ناراض نہ ہوجائیں۔
ایک بات جو میں اکثر دہراتی ہوں‘ بیٹیوں کی تکلیف ضرور سنیں اگر کوئی معمولی مسئلہ ہو تو انہیں مثبت طریقے سے سمجھائیں تاکہ مسائل بڑھ نہ سکیں اور انہیں بھی احساس دلائیں کہ یہ معمولی اور چھوٹی باتیں ہیں‘ انہیں درگزر کیا جاسکتا ہے۔ میری بیٹی جو ماشاء اللہ پروفیسر ہے‘ اس کی شادی ہوئی تو ظاہر ہے ہر گھر میں چھوٹے موٹے مسائل سے لڑکی کو گزرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ بھی یہی ہوا لیکن میں نے جس طرح اسے سمجھایا آج وہ فخر سے اپنی کولیگز سے کہتی ہے کہ میری امی میرے مسائل کو سن کر اس طرح مثبت طریقے سے جواب دیتی کہ مجھے لگتا کہ وہ میرے ساتھ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں بلکہ میں خوش قسمت ہوں کہ رب العالمین نے مجھے بہت کچھ نوازا ہے۔
شوہر ہو یا بیوی‘ ساس ہو یا بہو‘ نند ہو یا بھاوج یہ رشتے ایسے ہیں جہاں افہام و تفہیم و سمجھوتے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ نرمی‘ درگزر‘ خوش اخلاقی سے ان رشتوں کو کامیابی کی طرف لے جاسکتا ہے اور خصوصاً بیرونی مداخلت ان رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہیں پھر ان دراڑوں کا پُر کرنا (بھرنا) بہت مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا ایسے مواقع پر بیرونی مداخلت کو اہمیت نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی کسی بندے کو چاہے وہ قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہو‘ منفی طریقے سے مداخلت کرے۔ بلکہ ایسے مواقع پر اگر کہیں غلطی نظر آئے تو مثبت طریقے سے اس کی غلطی کا اسے احساس دلائیں وہ برا بھی نہ مانے اور اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے۔ اللہ ہم سب کو ایسے مواقع پر سمجھ داری کی توفیق عطا فرمائے اور بچیوں کے گھر آباد رکھے‘ آمین۔

حصہ