کافی یا سوپ؟

180

ہمارے نکمے پن کی کوئی حد نہیں۔
آفس سے نکلے تو گاڑی حسیب بھائی کے دفترکی طرف موڑ دی کہ وہ کئی دنوں سے یادکر رہے تھے۔
فون بجا… کال گھر سے تھی۔ ابا حضور کی آواز آئی ’’کہاں ہو‘ اب تک گھر کیوں نہیں پہنچے؟‘‘
ہم نے حسیب بھائی کا بتایا۔
’’نازیہ کی طبیعت اتنی خراب ہے اور تمہیں کچھ خیال ہی نہیں۔ نالائق فوراً گھر پہنچو اور اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس جائو۔‘‘
ہمارے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ نہ جانے کیا ہو گیا۔ صبح تک تو ہلکا سا نزلہ تھا۔
انہی خیالوں میں غلطاں و پیچاں گھر پہنچے۔ اب ہمارے پاس آٹو میٹک لاک کی چابی ہوا کرتی تھی‘ لہٰذا سیدھے اندر تک دھمک پڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ موصوفہ باورچی خانے میں کھڑی پیاز کاٹنے میں مصروف ہیں۔
’’ارے باپ رے باپ…! یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’السلام علیکم! پیاز کاٹ رہی ہوں۔‘‘ وہ مسکرا کر بولیں۔
’’وعلیکم السلام… چھوڑو پیاز ویاز کو‘ اماں ابا نے دیکھ لیا تو غضب ہو جائے گا۔‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
’’ارے وہ کیوں… روز ہی تو کاٹتی ہوں۔‘‘ وہ بھنویں اچکا کر بولیں۔ ویسے بھی کم پیاری نہیں تھیں‘ ایسے میں اور زیادہ لگنے لگیں۔
’’تمہاری طبیعت خراب ہے ناں؟‘‘
’’ارے نہیں… ہلکا سا نزلہ ہے۔‘‘ وہ ناک سوں سوں کرکے بولیں۔
’’تمہیں تو ہلکا سا ہوگا پر مجھ پر بہت سارا گرے گا۔ اگر تمہارے ابا نے تمہیں اس طرح کام کرتے دیکھ لیاتو!۔ خدا کے لیے باورچی خانہ چھوڑو اورکمرے میں چلو۔‘‘ ہم نے منت سماجت کی۔
ابا ہماری شادی سے پہلے تک ہمارے تھے‘ اب اس کے زیادہ ہو گئے تھے‘ اماں کا بھی یہی حال تھا۔ نازیہ نے ان دونوں کی خدمت ہی کچھ اتنی زیادہ اور اس محبت سے کی تھی کہ سب کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔
گو ماں باپ کی محبت میں وہ ہماری ’’رقیب‘‘ بن چکی تھی‘ لیکن ایسا رقیب کسے بُرا لگتا ہے۔
ہم انہیں زبردستی کمرے میں کھینچ لائے۔
’’دیکھو! ڈاکٹر کے یہاں تو چلنا ہی پڑے گا چاہے بیماری ہو یا نہ ہو۔‘‘ ہم نے فیصلہ سنایا۔
’’میں خود ڈاکٹر ہوں‘ مجھے بھلا ڈاکٹر کی کیا ضرورت۔‘‘ وہ ناز سے بولیں۔
’’ابا نے فون کرکے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے ورنہ وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں۔‘‘
’’کیا دھمکی دی تھی؟‘‘
’’انداز تو ایسا ہی تھا۔‘‘ ہم نے کندھے اچکائے۔
’’کروں گی کیا ڈاکٹرکے پاس جا کر؟‘‘
’’کچھ بھی کر آئیں گے‘ یہاں سے تو نکلو‘ کہیں ابا نہ آجائیں۔‘‘ ہمارے سر پر جیسے تلوار لٹک رہی تھی۔
کسی نہ کسی طرح ہم ڈاکٹر صاحبہ کو لے کر گاڑی میں بیٹھے۔
’’کچھ کھاتے پیتے ہیں پھر گھر چلتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مشورہ دیا۔
’’گھر جاکر کیا جھوٹ بولیں گے؟‘‘ ہم کو صرف ابا حضور کے سامنے جواب دہی کا خوف تھا۔
’’میں آئینے میں دیکھ لیتی ہوں اپنے آپ کو‘ ابا کو کہہ دیجیے گا کہ ڈاکٹر نے مجھے دیکھ لیا ہے۔‘‘
’’بہت خوب…!‘‘ ہمارے سر سے بوجھ ٹلا۔
’’اب کوئی گرما گرم چیز پیتے ہیں‘ بھاپ اُڑاتی۔‘‘ نازیہ خوش ہو کر بولی۔
’’ہاں کافی صحیح رہے گی۔‘‘ ہم نے کہا تو انہوں نے سر ہلا دیا۔
’’یہ تم اپنے اماں ابا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہو؟‘‘ ہم چہرے پرمصنوعی غصہ طاری کرتے ہوئے بولے۔
’’اولاد بھلا کیا سمجھائے گی والدین کو؟‘‘
’’یہ تو بتا ہی سکتی تھیں ناں کہ ہلکا سا نزلہ ہے‘ دواکی ایک آدھ خوراک سے ٹھیک ہو جائے گا‘ خواہ مخواہ میں اتنی ٹینشن پھیلی۔‘‘
’’ابا نے کوئی مجھ سے پوچھ کر تھوڑا ہی کیا تھا فون‘ مجھے تو خبر بھی نہیں۔‘‘
’’کیا جادو کیا ہے تم نے میرے اماں‘ ابا پر… کمال ہے۔‘‘ ہم نے داد دی۔
’’آپ پر بھی تو کیا ہے‘ بھول گئے کیا؟‘‘ وہ ادا سے بولیں۔
’’ایک بات بتائوں نازیہ؟‘‘
’’چھوڑیں نہ بتائیں۔‘‘ وہ ہنسیں اور ہمارا منہ بن گیا۔
’’اچھا بتائیں۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا۔
’’نہیں بتاتا۔‘‘ ہم روٹھ کر بولے۔
’’معافی…‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔
’’میں تم سے جو محبت کرتا ہوں ناں اس کی آدھی وجہ یہ ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘ ہم نے سکتہ دیا۔
’’اور باقی آدھی وجہ یہ ہے کہ تم میرے والدین سے محبت کرتی ہو اور ان کی وہ خدمت کرتی ہو جو میں نہ کر سکا۔‘‘ ہم جذباتی ہوگئے۔
’’کیا بات کرتے ہیں‘ وہ صرف آپ کے والدین نہیں ہیں۔‘‘
’’ہاں… صرف تمہارے والدین ہیں۔‘‘ ہم مسکرائے۔
…٭…
گھر پہنچے تو سوچا کہ اماں‘ ابا کو سلام کر لیں کہ نازیہ کو اب ’’ڈاکٹر‘‘ نے دیکھ لیا تھا اور کم ڈانٹ پڑنے کی توقع تھی۔ابھی ہم ان کے کمرے کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ اندر سے اماں کی آواز آئی۔
’’خواہ مخواہ ہی آپ نے انہیں ڈاکٹر کے یہاں بھیجا۔‘‘
’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ڈاکٹر کے یہاں جائیں‘ دیکھ لینا ضرور کچھ کھا پی کے ہی لوٹیں گے۔‘‘
ابا بولے تو ہم ٹھٹھک گئے۔ اولاد سمجھتی ہے کہ ماں باپ کچھ جانتے ہی نہیں۔
’’احمد پر تو یہ قیاس ٹھیک ہوتا لیکن ہماری نازیہ بیٹی ہم سے پوچھے بغیر باہر کھانا نہیں کھاتی۔‘‘ اماں ناز سے بولیں۔
’’کچھ پی آئیںگے‘ کافی‘ سوپ وغیرہ۔‘‘
’’پھر توکافی ہی پی کر آئیں گے کیوں کہ سوپ نازیہ کو پسند ہے احمد کو نہیں اور کافی احمد کو پسند ہے نازیہ کو نہیں… اور نازیہ کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘
ہمارے دل کو ایک چیرہ لگا۔ یاد آیا جب نازیہ نے کہا تھا ’’کوئی گرما گرم چیز پیتے ہیں ہیں‘ بھاپ اڑاتی…‘‘
ہم صرف سلام کرکے واپس پلٹ گئے۔ ایسے والدین کو کیا غلط خبر دیتے جو سب کچھ ٹھیک ٹھیک جانتے تھے۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ ہم ہی کو نازیہ کی پسند معلوم نہ تھی اور اسی لیے ہم کہتے ہیں:
’’ہمارے نکمے پن کی کوئی حد نہیں۔‘‘

حصہ