دیوبند کاتاریخی آل انڈیا مشاعرہ

291

(دوسری قسط)
“مسجد سے میخانے تک “از :ماہنامہ تجلی دیوبند
ان کے چہرے کی فلسفیانہ پیوست شگفتگی میں بدل گئی۔ میرے رخسار پر، داڑھی والے رخسار پر بڑی محبت سے ہلکا سا چپت جھاڑتے ہوئے بولے:
’’یار بڑے مکار ہو تم۔ خیر جھک جھک چھوڑو، اب کہ اگر مشاعرے پر نہ لکھا تو سر توڑ دوں گا‘‘۔
’’بہت مشکل ہے‘‘ میں نے طویل سانس لے کر کہا ’’مشاعرے کی روداد لکھی تو ظاہر ہے شبنم صاحبہ کے ذکر پر قلم دوچار قلابازیاں ضرور کھائے گا، آپ جانتے ہی ہیں میں ایک عدد بیوی کا شوہر بھی ہوں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’آپ صرف سر توڑ سکتے ہیں مگر شکی قسم کی بیویاں دل تک توڑ سکتی ہیں۔‘‘
’’مگرہم نے تو سنا ہے کہ تمھاری اہلیہ دقیانوسی نہیں ہیں۔ تم نے ہی تو لکھا تھا کہ ایک بار وہ ’’گنگا جمنا‘‘ تک دیکھنے پہنچ گئی تھیں‘‘۔
’’جی ہاں وہ خاصی ماڈرن ہیں مگر منطقی بھی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عورت صرف محرم ہو سکتی ہے یا نا محرم۔ بس۔‘‘
’’یہ تو بڑی تنگ خیالی ہے‘‘۔
’’کیا کیا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سارے فنون لطیفہ ، سارے جمالیاتی فلسفے صرف ایک ہی سادہ سی حقیقت کے گرد گھوم رہے ہیں۔۔۔ جنس!‘‘
’’ہٹاؤ بات کو طول نہ دو۔ اگر اب کے مشاعرے پر نہ لکھا تو یاری کٹ۔‘‘
ان کے چہرے پر یکا یک اداسی چھا گئی۔ آواز میں سوز آ گیا۔ میں سمجھا اب رو دیں گے۔ وہ اسی قسم کے آدمی ہیں۔ دم میں تو تولہ دم میں ماشہ۔
’’اچھا قبلہ لکھ ڈالوں گا لیکن کیا کچھ شرائط بھی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ بس دو باتوں کا لحاظ رکھنا، اول تو کچھ دل داری مشاعرہ کرانے والے صاحب کی بھی ہو جائے۔ کیا خبر اسی سے خوش ہو کر وہ آئندہ بھی مشاعرہ کرا دیں، دوسرے مس شبنم کو ذرا شرافت کے ساتھ سراہ دینا۔ دل بدست آور کہ حج اکبر است۔‘‘
مصرعہ پڑھتے ہوئے ان کی آواز میں بڑا گداز آ گیا تھا۔
’’شرافت سے کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’شرافت کا مطلب شرافت یعنی خباثت پر مت اتر آنا۔‘‘
’’اب میں خباثت کا بھی مطلب پوچھوں گا۔‘‘
’’تمھارا سر۔ جاؤ بس لکھو میں چل رہا ہوں۔‘‘
مشاعرے کی تیاری
کچھ دیر بعد میں نے تالاب کے پانی سے منہ دھویا تو حواس کچھ تروتازہ ہوئے، نظم پر لعنت بھیج کر میں نے غزل کی طرف توجہ دی۔ اب ذہن کی فضا میں کئی حسین آنچل لہرا رہے تھے۔ ایک خالص مشرقی محبوبہ کا تصور جو مہینوں کھائے پئے بغیر خالی پیمان وفا کے سہارے جیتی ہے۔ غرارے اور شلوار کے کئی زاویے بنے اور بگڑے۔ پھر تصور نے ساری اور بلاؤز پر جست کی۔ یکایک ایک نازک بدن حسینہ کے فرق سیمیں پر فرانسیسی طرز کا اسکرٹ نظرآیا گویا غزل کی ساری سرشاریت رنگ بدل بدل کر پھوار کی طرح میری چٹیل کھوپڑی پر برس رہی تھی اور میں سر بدل بدل کر مختلف بحروں میں ایک ایک شعر کہتا جارہا تھا تاکہ دیکھوں کون سے طرز میں زیادہ بہتر پڑھ سکوں گا۔
مگر جب غروب آفتاب کے بعد گھر کی طرف لوٹا تو یک لخت یہ عجیب و غریب بات محسوس کی کہ ہر شعر میں کسی نہ کسی انداز سے موضوع کی طرف لطیف سا اشارہ ہو گیا ہے۔ طبیعت پھڑک اٹھی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اشعار میں کسی قسم کی صنعت رکھنا استادی کا ثبوت مانا گیا ہے۔ ایک اتنے بڑے مشاعرے میں اگر ملا ابن العرب مکی استاد مان لیا جائے تو کیا تعجب ہے کہ جناب صدر کے توسل سے اسے بھی ’’پدم بھوشن‘‘ جیسا کوئی خطاب ہاتھ لگ جائے۔ ذرا آپ بھی بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خط نہ بھیجا نہ آپ خود آئے
اب کسی اور کو تلاش کریں
’’خط‘‘ بے شک ط سے ہے مگر مشاعروں میں قرأت نہیں چلتی ہے۔ تجوید کا استعمال نہ ہو تو ’’خط نہ‘‘ ’’اور ختنہ‘‘ کی صوتی یکسانیت میں کس کافر کو شک ہو سکتا ہے۔ مثلاً:
جو لیتے ہیں تو بسم اللہ کہہ کے جام لیتے ہیں
کسی عالم میں بھی اپنی مسلمانی نہیں جاتی
اگر مائک پر عرض کر دیا گیا کہ حضرات ذرا قافیہ ملحوظ رہے تو کیا پھر بھی کسی تشریح کی حاجت رہ جاتی ہے۔ یا مثلاً:
وہ زخم لگاتے ہیں، ہم جشن مناتے ہیں
ہنس ہنس کے لہو دینا عشاق کی سنت ہے
اس کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ شاید جناب صدر محظوظ نہ ہو سکتے مگر اس خطرے کا ازالہ بھی اسی طرح ایک ذو معنی سی تمہید کے ذریعے ہو سکتا تھا جس طرح نشور واحدی صاحب نے اپنے اکثر اشعار کو فن کارانہ تمہیدوں کے ذریعے ممکنہ خطرات سے بچا لیا تھا۔ یا مثلاً:
مہک رہی ہیں وہ زلفیں کچھ اس طرح ملا
کہ لوگ نافۂ مشکِ ختن کو بھول گئے
ختن… بروزن چغد بے شک ختنہ کے خاندان سے نہیں ہے مگرجیسے چھوٹے میاں کو چھٹن کہہ دیتے ہیں اسی طرح ختن کی لفظی اشاریت سے آپ انکار نہیں کر سکتے۔ اگر نشور واحدی صاحب کے اسوۂ حسنہ کی تقلید میں خاکسار بھی اس شعر سے قبل مائک پر عرض کر دیتا کہ حضرات یہ مشاعرہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بہ تقریب ختنہ ہو رہا ہے۔ ایک شعر عرض کرتا ہوں اس کے قافیہ کو اسی پس منظر میں ملاحظہ فرمائیے گا تو گدھے سے گدھا سامع بھی لطف اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
الحاصل اپنی کارگزاری پر آپ ہی آپ بڑا فخر محسوس ہوا۔ مشاعرہ اگلے روز تھا۔ صورت یہ ذہن میں آئی کہ مختلف زمینوں کے ہر شعر میں ایک ایک شعر بڑھا کر قطعے تیار کر لوں گا۔ مشاعروں میں قطعے خاصی داد لے بھاگتے ہیں۔
مگر شامت اعمال کو کون روک سکتا ہے۔ مشاعرے والے دن عین دوپہر میں میر نفیس احمد تشریف لائے۔ وہ آئے تھے اس چکر میں کہ میرے ذریعے اسٹیج کا پاس حاصل کر لیں۔ ایسی حالت میں مکھن بازی بھی ضروری تھی۔ چناں چہ بڑے صاحب ذوق بن کر کہنے لگے:
’’ارے بھئی سنائیے تو ملا صاحب آپ نے کیا لکھا ہے۔‘‘
میں بے تاب تھا ہی۔ سوچا ریہرسل بھی ہو جائے گی۔ پس پھر تو یہی تصور جما لیا کہ مشاعرہ جم رہا ہے۔ مائک سامنے ہے۔ آنکھیں بند کر کے شروع ہو گیا اور اشعار کے ساتھ تمہیدی فقرے بھی دہراتا چلا گیا۔
اب یہ کس مسخرے کو خبر تھی کہ گھر میں ملک الموت بھی نازل ہو چکا ہے۔ یعنی وہی ہمارے سالے دام ظلہ، جب میر صاحب سے منوں داد بٹور کر گھر میں آیا تو تن بدن میں سناٹا سا نکل گیا۔ مدیر تجلّی سامنے ہی جلوہ افروز تھے اور خوں خوار نظروں سے میری ہی سمت گھور رہے تھے۔ ان کی بہن کا چہرہ بھی اقلیدس کے ایک نئے زاویے کی خبر دے رہا تھا۔
’’ادھر آؤ‘‘ مجھے ٹھٹکتا دیکھ کر انھوں نے سڑے ہوئے لہجے میں کہا: میں من من بھر کے قدموں سے چلتا ہوا قریب پہنچا تو نہایت خشک انداز میں بولے:
’’تو یہ شُہدہ پن پھیلاؤ گے تم مشاعرے میں‘‘۔
’’جی…وہ تو… یعنی… جی۔‘‘ میری قوت گویائی چرنے چلی گئی۔
’’شرم و حیا تو تمھارے نام کی رہی ہی نہیں۔ خبر بھی ہے ایک لڑکی بھی شاعرہ کی حیثیت سے مشاعرے میں آ رہی ہے۔‘‘
اب میں نے قدرے ہمت سے کام لے کر عرض کیا:
’’جی… لڑکیوں سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔‘‘
’’دل چسپی کے بچے تم نے اگر ایک خاتون کی موجودگی میں یہ شیطانی قطعے پڑھ دیے تو میں دیوبند میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاؤں گا۔‘‘
’’بھلا آپ کے منہ پر میرے پڑھنے سے کیا اثر پڑے گا؟‘‘ میں نے سادگی سے پوچھا۔
ان کا چہرہ سرخ در سرخ ہو گیا، یعنی سرخ تو وہ پہلے ہی سے تھا اب لالہ صحرائی کی طرح تمتمانے لگا۔’’تم سے زیادہ چکنا گھڑا میں نے نہیں دیکھا۔ خیر جھک مارے جاؤ۔ دیکھوں گا مشاعرے میں کیسے پڑھ پاتے ہو‘‘۔
یہ کہہ کر وہ بھنائے ہوئے چلے گئے۔ حق یہ ہے کہ ان کے رخصتی قدم زمین پر نہیں، ہم ملا ملائن کی کھوپڑیوں پر پڑ رہے تھے۔
مشاعرے کا آغاز
خیر صاحب۔ رات آئی، مشاعرہ دس کے بعد شروع ہونا تھا۔ احاطہ بہت کشادہ تھا اور اسٹیج بھی کافی عریض و طویل بنایاگیا تھا۔ مگر نو ہی بجے یہ اندازہ ہو گیا کہ جگہ کم پڑ جائے گی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح کئی دن پہلے سے پھیلی ہوئی تھی کہ چشم بد دور ایک نو عمر شاعرہ شبنم صاحبہ بھی تشریف ارزانی فرمانے والی ہیں۔ مگر جب مغرب سے قبل ہی لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ موصوفہ تشریف لے آئی ہیں تو صوفی اکہام الدین کی روایت کے مطابق شائقین کے کلیجے گز گز بھر کے ہو گئے۔ صوفی صاحب قسم کھا کر بتا رہے تھے کہ بہت سے پابند صلوٰۃ حضرات نے آج عشاء بھی مغرب ہی کے ساتھ پڑھ لی تھی اور نو بجے سے مشاعرہ گاہ میں آ ڈٹے تھے تاکہ آگے جگہ لے سکیں۔
میرے پاس اسٹیج کا پاس تھا لیکن ساڑھے نو پر جماعت پڑھ لینے کے بعد جب وہاں پہنچا ہوں تو دست تاسف ملنا پڑا کہ کیوں نہ میں نے بھی مغرب ہی میں جمع بین الصلوٰتین کے ایمرجنسی فارمولے پر عمل کیا یا پھر عشاء کو اگلے دن کے لیے اٹھا رکھتا۔ مسند صدارت کے آس پاس جگہ پُر ہو چکی تھی اور محترمہ شبنم اٹاوی ایسے گھری ہوئی بیٹھی تھیں کہ ان کا پڑوس بھی مجھے نصیب نہیں ہو سکتا تھا۔
دور سے نظر پڑی تو طبیعت اور بھی بے چین ہو گئی۔ اگر آپ نے کبھی تھرڈ کلاس میں بیٹھ کر تھیٹر دیکھا ہو گا تو آپ ضرور میرے اس تاثر کی تائید کریں گے کہ میک اپ کی ہوئی اداکارائیں اور اداکار تیز لائٹ میں دور سے ایسے لگتے ہیں جیسے وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہوں مجھے یہی محسوس ہوا تھا کہ کوئی اپسرا اپنے باڈی گارڈ سمیت کوہ قاف سے خاک دان دیوبند میں اتر آئی ہے۔ سفید برّاق لباس، روشن چہرہ، بال بڑے رکھ رکھاؤ سے بنے ہوئے، آنکھوں پرچشمہ۔ مگر چشمے کا فریم سنہری نہیں تھا۔ کچھ ایسا تھا جیسے پروفیسرنیاں لگاتی ہیں۔ مجھے بے اختیار جگر علیہ الرحمہ یادآئے۔ ان کے دور آخر کی غزلوں میں حسن و رعنائی کے ساتھ جو وقار و متانت جلوہ گر ہے یہ چشمہ اس کی نمائندگی کر رہا تھا۔ کچھ دیر کے لیے تو سچ مچ میری اوندھی کھوپڑی میں یہی خیال سمایا رہا کہ جگر صاحب نے عالم بالا سے اپنی غزل بھیجی ہے۔ مگر پھر جو شائقین کا ریلا آیا تو ایک داڑھی والے نیک بخت کا صاف شفاف سر میری کنپٹی سے ٹکرایا اور تصورات کے باغ میں پت جھڑ سی ہوتی چلی گئی۔ کسی صاحب کا گھٹنا بھی کوکھ میں رسید ہوا تھا۔ مگر فائدہ ان آفات کا یہ نکلا کہ میں نے کسی ڈوبنے والے کی طرح ہاتھ پیر جو مارے تو اگلے ہی لمحے تقریباً دو گزآگے پہنچ چکا تھا۔
اب شبنم صاحبہ کے خدوخال اتنے واضح نظر آ رہے تھے کہ کسی پْر اسرار آفاقی تصور کی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی ویسے بھی کوکھ کی چوٹ نے خوابوں کے غباروں کی ہوا نکال دی تھی۔ موصوفہ کے پاس ہی نشور واحدی نظر آئے، ان کے اگلے دو دانت اتنے فاصلے سے بھی ان کی معروف شخصیت کا اعلان کر رہے تھے۔ میں نے تقابلی مطالعہ کیا ، ارادتاً نہیں بلکہ اضطراری فعل تھا۔ جدید اسلوب میں آپ اسے تحت الشعوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ لاشعوری بھی کہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
مدیر تجلی کی قربت اور خون کے گھونٹ پینا
واقعی ہر شے اپنی ضد سے خوب ابھرتی ہے۔ میں تو اکثر و بیشتر ایسا کرتا ہوں کہ جب معدے کی خرابی یا پیسوں کی کمی کے باعث کسی خیالی محبوبہ کا پیکر سیمیں لوح تصوّر پر صاف نہیں ابھر پاتا اور مشاعرے کے لیے غزل کہنی ضروری ہوتی ہے تو آئینہ اٹھا کر اپنا روئے زیبا دیکھ لیتا ہوں۔ بس گوبھی کے باسی پھول پر نظر پڑی اور دنیائے تصوّر میں گلاب سے کھلنے شروع ہو گئے۔ لوگ کہتے ہیں دنیا امید پر قائم ہے میں کہتا ہوں دنیا تضاد پر قائم ہے۔
القصہ پیش منظر میں تشریف رکھنے والے خوش نصیبوں کو حسرت و رقابت کی نظروں سے تکتے ہوئے میرے بھیجے کی تہوں میں کسی اپنے ہی جیسے یتیم شاعر کا ایک شعر کیچوے کی طرح کلبلا رہا تھا:
ان کا حصہ من و سلویٰ
اپنی قسمت دُور کا جلوہ
’’کیوں ملا صاحب آپ کے پاس تو اسٹیج کا پاس ہو گا وہیں جائیے نا‘‘۔
دفعتاً پیچھے والے صاحب نے کہا جو اچک اچک کر میری گردن کے عقب سے اسٹیج کو دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک پڑھے لکھے برخوردار تھے۔
’’ہاں بھئی جاؤں گا۔ ذرا پیش منظر دیکھ لوں۔ اسٹیج پر تو اب پیچھے ہی جگہ ملے گی‘‘۔
’’آپ تو گردنیں پھلانگ کر بھی آگے پہنچ سکتے ہیں آپ کو کون روکے گا‘‘۔
’’کیوں میں کیا لاٹ صاحب ہوں‘‘۔ میں غرّایا۔
’’ارے نہیں آپ تو برا مان گئے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو تو سب جانتے ہیں‘‘۔
کچھ دیر بعد اسٹیج سے تقاضا شروع ہوا کہ بیٹھو بیٹھو۔۔۔ اب یہ تو ایٹی کیٹ کے خلاف ہوتا ہے کہ میں بھی وہیں پالتھی مار بیٹھتا۔ مجبوراً لوٹا اور دھکے کھا کھلا کر کنارے والے راستے سے اسٹیج پر پہنچا۔ ارادہ سچی بات ہے یہی تھا کہ ٹہلتا سرکتا اتنا آگے ضرور پہنچ جاؤں گا کہ کم سے کم یہ تو دیکھ سکوں کہ اتنے بڑے مجمع میں جب ایک نوجوان لڑکی اپنے محبوب کا ذکر جمیل کرتی ہے تو اس کے چہرے پر کس قسم کی کیفیات ظاہر ہوتی ہیں۔ گویا شبنم صاحبہ کو علیٰ وجہ البصیرت سننا میرا مدّعا تھا۔ مگر مدعا گیا جہنم میں۔ اگلے ہی لمحے میں سارا جوش و خروش ہانڈی کے ابال کی طرح بیٹھتا ہوا چلا گیا۔ مدیر تجلی قریب ہی تشریف فرما تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی موجودگی میں گردنیں پھلانگنا کم از کم اس ملا کے لیے تو ممکن نہیں تھا جس کی روح قسط وار قبض کرنے کے لیے فرشتے کی جگہ سالا نازل فرمایا گیاہے۔ خون کے گھونٹ پی کر وہیں بیٹھ گیا۔
(جاری ہے)

حصہ