تین ٹکڑے اور سوشل میڈیا

370

وزیر اعظم کے دورہ ترکی ، پیٹرلیم مصنوعات اوربجلی قیمتیں بڑھانے ، عوام کو ریلیف دینے کے اعلانات کے باوجود اس ہفتہ بھی سوشل میڈیا پر عمران خان ہی چھایا رہا۔اس ہفتہ بھی آڈیو لیکیج ہوئیں، مگرکوئی فرق نہیں پڑا۔ عمران خان ایک جانب لائحہ عمل پہ لائحہ عمل دیے جا رہےہیں، جلسے پہ جلسے کے بعد ہو رہے ہیں، پریس کانفرنس و انٹرویوز۔ ایسے میں عمران خان نے ایک اور بڑا بیان دے ڈالا۔پاکستان کے تین ٹکڑوں میں سارا میڈیا اور عوام کھو گئے ۔مریم نواز ہی نہیں سب پوچھتے رہی کہ یہ تین ٹکڑے کون سے ہیں؟یہ تین سے کیا مراد ہے ؟واضح رہے کہ اس میں ٹوٹنا اہم نہیں ہے ، اصل بات تین ٹکڑوں کی ہے ۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ یہ بیان جن کو سنوانے کے لیے کیا گیا ، اُن تک پیغام پہنچ گیا ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں ، یا سمجھنے کی اداکاری کر رہے ہیں کہ عمران خان نے یہ عمومی بیان دیا ہے وہ بہر حال حالات واقعات اور حقائق کو محسوس کیے بغیر تجزیہ کر تے نظر آئے ۔
ہم چیزوں کو یوں دیکھتے آئے ہیں کہ سیاست دان وہ ہوتے ہیں جنہیں فوج استعمال کرتی ہے، مگر فوج کے اندرکوئی سیاست نہیں ہوتی۔اسی تناظر میں دیکھنے کے باوجود یہ بات عیاں ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے سے قبل ہی تحریک انصاف یا عمران خان کی بطور سیلیبرٹی سیاست دان ، ریٹائرڈ سروس مین کی تنظیم میں بہت بڑی حمایت و سرایت جگہ پا چکی تھی ۔ یہ حمایت و سرایت عمران خان نے سروس مین کے گھروں کے اندر تک پہنچائی تھی ۔ یہ صرف گھروں تک ہی نہیں تھی بلکہ وہاں سے پوری آن ڈیوٹی فوج میں سرایت کر چکی تھی۔ہم جانتے ہیں کہ فوج کا ادارہ ’یونٹری آف کمانڈ‘ پر کام کرتا ہے ، یعنی ایک آرمی چیف ہوتا ہے تو ساری فوج اس کے پیچھے چلتی ہے۔ہم نے دیکھا کہ بعد ازاں آرمی چیف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی بھی اہم فہرست میں داخل ہوگئے اور ہمارے لینس سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر آرمی چیف عمران خان یا کسی سیاست دان کے خلاف ہوگیا تو سمجھ لیں کہ ساری فوج خلاف ہو چکی ہے ۔ہم اسی لینس سے اس پوری صورتحال کو دیکھتے رہے ہیں، اس لیے ایسا لگتاتھا۔مگر اس میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ’جی ایچ کیو ‘ توعام عوام کے لیے ایک ’’ڈارک میٹر ‘‘ہے،کہ ہم نہیں جانتے کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے۔
اس بات کو یوں سمجھیں کہ عمران خان نے جب میر جعفر کی اصطلاح استعمال کی ، چاہے جس کے لیے کی ہو، اگلے ہی کچھ دن میں سابق صدر آصف علی زرداری سے پشاورکور کمانڈر کا نام لیکر ’کھڈے لائن‘ کہلوا دیا گیا۔آج تک پشاوریا کسی اور کور کے آن ڈیوٹی کمانڈر کے خلاف کوئی بول سکا ہے کہ ’کھڈ ے لائن‘ ، کس سیاست دان میں ایسی جرأت ہو سکتی ہے۔ اسکے بعد ہوا کیا؟صر ف آئی ایس پی آر نے ایک مذمتی بیان دیا کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ صاف لگ رہا تھا کہ ایک گروپ نے جنرل باجوہ کو ذلیل کرایا تو جواب میں دوسرے گروپ نے اس کے بندے کو ذلیل کرایا۔ فوج میں اگر ایک بندہ ایکسٹینشن لیتا ہے تو وہ کتنے لوگوں کی ایکسٹینشن کو کھا جاتاہے ۔ یہ کوئی نہیں جانتا ۔ اندر کیا سیاست چل رہی ہے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا، جب تک لیک نہ کیا جائے ۔فوج کو جتنا اس کے عہدے داروں کے نام لیکر سوشل میڈیا ، عام جلسوں میں ذلیل کیا جاتا ہے ، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
عمران خان کی عوا می رسائی میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعہ مستقل بڑھتی جا رہی ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ میڈیا و سوشل میڈیاپر کوئی لگام ڈالی گئی۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کا ترجمان ایک نجی چینل جو فوج کا حمایتی چینل کہلاتا تھا، مگر آج وہ عمران خان کی زبانی اسی فوج کے خلاف سب کچھ نشر کر دیتا ہے، کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ لگام ڈالناکوئی ناممکن بات نہیں ہے ، ہم ماضی میں ایسی لگامیں دیکھتے رہے ہیں۔ اس کی بڑی مثال اگر آپ ٹی ایل پی کی کوریج پابندی سے نہ سمجھ سکیں تو ایم کیو ایم سے سمجھ لیں۔کراچی میں ہم رہتے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ یہاں الطاف حسین کیا تھا، ملک میں رہتے ہوئے بھی اور نہ رہتے ہوئے بھی ۔الطاف حسین کا ایک فون کتنا اثر رکھتا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم، الطاف حسین کا تعلق کراچی کے درو دیوار سے معلوم ہوجاتا تھا۔ کیسے لائیوخطابات چلتے تھے ،آج بھی بیانات و خطابات چلتے ہیں، لیکن کوریج کا عالم دیکھ لیں۔یاد ہوگا کہ کس جرم پر الطاف حسین کو یہ سزا دی گئی ، مطلب اس نے بھی ایسی بلکہ شدت کے معاملے میں تو عمران خان سے تو بہت ہی ہلکی بات تھی ۔آج کراچی سے ایم کیو ایم کا کیسا پتا صاف ہوا ہے ؟ سب ہم دیکھ رہے ہیں ، کس نے کیا ہے یہ بھی ہم جانتے ہیں۔ مگر یہ سب بلکہ اس کا معمولی حصہ بھی اس سے بڑے جرم پر عمران خان کے خلاف نہیں ہورہا۔اب یہ سیدھی بات ہے کہ یہ سارا کام ، ساری بدنامی صرف اسی صورت برداشت کیا جاتا ہے جب معلوم ہوکہ میرے اپنے اندر پھوٹ نہ پڑجائے ۔اصل عمران خان کا کمال یہ ہے کہ اس نے فوج میں سیاسی طور پر دھڑے بندی پیدا کی جو اب نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ فوج اب اگرکوئی ایکشن لیناچاہے گی تو وہ درحقیقت اس کے اپنے اندر ہی کا ایکشن ہوگا ۔ اس لیے وہ اب تک ایسا نہیں کر پا رہی۔یہاں تک کہ عمران خان کے دور حکومت میں اداروں میں لگائے گئے ریٹائرڈ فوجیوں کی بھرمار ابھی تک بدستور موجود ہے۔
عمران خان کی مقبولیت میںبہرحال باقاعدہ فوج ہی کا ایک دھڑا شامل ہے، جس دن اِن دونوں دھڑوں میں کسی صورت کوئی کمپرومائز ہو گیا کہ ہمیں اب آگے یوں چلنا ہے تو یقین مانیں دس دن بھی نہیں لگیں گے سب معاملہ درست ہو جائے گا۔ عمران خان کی فوج کے اندر اس حد تک موثررسائی و اثرات کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ اب جس طرح فوج چوک چوراہوں پر ڈسکس ہو رہی ہے وہ پاکستان کے لیے درست نہیں ہے۔
یہ جو تین ٹکڑے والی بات ہے ، اسی دھڑے بندی کے تناظر میں کہی جا سکتی ہے۔ ٹکڑےہوجائیں گے ، دو ٹکڑے ہونگے یہاں تک تو بات سمجھی جا سکتی تھی۔مگر یہ3 والی بات عوام کو مخاطب ہو کر نہیں کہی گئی ۔ فوج درحقیقت پاکستان ہی کا دوسرا نام ہے ، ریاست مدینہ کی اصل محافظ تو فوج ہی ہے، اس کااپنا ایک مقدس مقام ہے۔ جنرل ضیا الحق کے بعد یہ دور شروع ہوا کہ آرمی چیف کا نام بھی زبان زد عام ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد مشرف دور میں ڈی جی آئی ایس آئی کا نام بھی مشہور ہونا شروع ہوا۔ اب حال یہ ہےکہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کے بعداب کو ر کمانڈروں کے نام بھی پبلک ہونگے ۔یہاں تک کہ آگے یہ بھی امکان ہے کہ ٹاک شوز میں ملکی سیاسی جماعتوں کی چاہت و اختلافات جس طرح زیر بحث آتے ہیں اسی طرح آئندہ یہ بھی ڈسکس ہوگا کہ فلاں کور کمانڈر یہ چاہتا ہے فلاں یہ چاہتا ہے ۔یہ کور کمانڈر کیا سوچ رہا ہے وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے؟آپ اس سے اندازہ کریںکہ ہماری گفتگو میں اب ’ویگو‘ کا لفظ کس طرح ، کن معنوں میں استعمال ہو رہا ہوتا ہے؟اگر میری بات یا یقین نہیں آرہا تو اس ہفتے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر دیکھ لیں۔بچے بچے کو معلوم ہو چکا ہے کہ پشاور کور کا کمانڈر کون ہے؟ آرمی چیف کون ہے؟آئی ایس آئی کیا ہوتی ہے؟یہ قطعاً کوئی فخر کی بات ہی نہیں۔ دنیا کی تمام سیکورٹی ادارے ، انٹیلی جنس ایجنسی عوام سے ایک فاصلہ رکھ کر کام کرتی ہے۔یہ کوئی تھانہ کا ایس ایچ او نہیں ہوتاجو موبائل لیکر گشت کرے۔ اس کا خفیہ رہنا ہی اسکا اصل کام ہوتا ہے ۔انٹیلی جنس ایجنسی ہونے کا کیا فائدہ رہا۔ اب ہر گلی محلہ میں ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ ڈسکس ہو رہی ہو تو یہ قطعاً کوئی فخر کی بات ہی نہیں۔
پہلےیہ کہا جاتا تھا کہ فوج کو سیاست میںحصہ نہیںلینا چاہیے ، اب سیاست اتنا اندر گھس چکی ہے کہ وہ فوج کو نہیں چھوڑ رہی۔ ایمان مزاری کے کیس میں یہ بہت بری مثال ہے ، جب فوج کو تھانہ جا کر اپنے سربراہ یعنی آرمی چیف کی بے عزتی والی تنقید کے خلاف تھانہ میں رپورٹ کرانی پڑی۔ ملک کے آرمی چیف کو کوئی شہری سرعام میڈیا پر مغلظات بک دے اور فوج تھانے میں جا کر رپورٹ کرائے ۔ دوسری جانب کیاہوا۔یہ دیکھیں۔ ایمان مزاری کے خلاف ایف آئی آراسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج کروائی گئی ہے۔لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ایمان مزاری کی ضمانت قبل از گرفتاری 9 جون تک منظور کر لی ہے۔پاکستان آرمی تھانے جا کر کھڑی ہوگئی۔آپ سوچ سکتے ہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟کبھی سپریم کورٹ کو طاقت کا مرکز بنانا، کبھی ایوان صدر، کبھی وزیر اعظم ہاؤس کو طاقت کا مرکز بنانا ، پھر کبھی جی ایچ کیو کو طاقت کا مرکز بنا لینا ۔ مطلب اب یہ سارے آپشنز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا منظر نامہ یوں بن گیا ہے کہ ’آپ ‘کی موجودگی میں کوئی کام ہوگا، کوئی فیصلہ ہوگا ’میں ‘نہیں مانوں گا۔ آپ کوئی نیا چیف لگائیں گے ، میں ‘نہیں مانوں گا، ’آپ ‘ اگر کوئی جج لگائیں گے ’میں ‘نہیں مانوں گا، ’آپ ‘کوئی الیکشن کمشنر لگائیں ، ’میں ‘نہیں مانوں گا ۔ وجہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ ’آپ ‘ لگا رہے ہیں ۔ یہی حال دوسری جانب بھی ہے۔ وہ اس لیے ’آپ ‘کو نہیں مانیں گے ، نتیجہ یہ کہ سارے ادارے چلنے کے قابل نہ رہیں ۔یہ صورتحال تب تک رہے گی جب تک فوج ایک صفحہ پر نہ آجائے ۔ اس بات پر پہنچنے کے لیے یا تو ’عمران مائنس‘ فارمولا چلے گا یا تو کوئی ایمرجنسی صورتحال بنے گی ، کیونکہ کوئی بھی ایسی صورتحال میں پیچھے ہٹنےکو تیار نہیں۔

حصہ