قیصروکسریٰ قسط(52)

219

لڑائی کے میدان میں سین کی نگاہیں ہمیشہ اُسے کسی ایسے مقام پر تلاش کرتی تھیں جہاں دشمن کا دبائو سب سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُس کے سپاہی سائے کی طرح، ہمیشہ اُس کے ساتھ لگے رہتے۔
لڑائی کے بعد جب اُس کے تھکے ہارے سپاہی کسی چٹان یا ریت کے ٹیلے پر سستاتے تو وہ بھی اُن کے پاس بیٹھ جاتا۔ وہ اُس کی موجودگی میں بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ہنستے بولتے تھے اور وہ اُن کے ہر غم اور ہر خوشی میں شریک ہونا اپنا فرض خیال کرتا تھا۔ سین اِس بات پر خوش تھا کہ اُس نے عاصم کے افسردہ چہرے کے لیے مسکراہٹوں کے سامان مہیا کردیے ہیں۔
عرب قبائل کے رضا کار اور اُن کے سردار عاصم کی جرأت و ہمت کے معترف تھے اور جب سے انہیں یہ معلوم ہوا تھا کہ عاصم یثرب کے ایک عرب خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ اُس سے اور بھی بے تکلف ہوگئے تھے۔ فرصت کے اوقات میں وہ عاصم کو تیراندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی کے مقابلوں میں دعوت دیا کرتے تھے۔ اور وہ نامی گرامی پہلوانوں سے اپنا لوہا منوا چکا تھا۔ چند ہی مہینوں میں عاصم کی مصروفیتوں میں اِس قدر اضافہ ہوچکا تھا کہ اُسے اپنے ماضی یا مستقبل کے متعلق سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا۔ فرصت کے اوقات میں، وہ اپنے سپاہیوں سے فراغت پاتا تو کسی عرب قبیلے کے رضا کاروں کی محفل میں جا بیٹھتا۔ تاہم ان تمام دلچسپیوں اور مصروفیتوں کے باوجود جب کبھی وہ اس جنگ میں یہودیوں کے کردار کے متعلق سوچتا تو اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ شام اور فلسطین کے حالات یثرب کے حالات سے مختلف نہیں۔ وہاں یہودی اوس و خزرج کی دائمی نزاع میں اپنی بھلائی دیکھتے ہیں اور یہاں انہیں روم اور ایران کے شہنشاہوں کی زور آزمائی میں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ یہودی جنگ کے میدان سے عام طور پر دور رہتے تھے لیکن فتح کے بعد جب بے بس انسانوں پر قوت آزمائی کا موقع ملتا تو وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی اُن کی وطن دشمنی،مشقاوت اور بربریت کے خلاف عاصم کا ضمیر چیخ اٹھتا لیکن یہ چیخیں جنگ کے ہنگاموں میں دب کر رہ جاتیں۔ وہ ایک ایسے تیز رفتار قافلے کے ساتھ شامل ہوچکا تھا جس کے مسافروں کو اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینے کی فرصت نہ تھی اور وہ ایک ایسا رشتہ اختیار کرچکا تھا جس کی منزلیں خون میں ڈوبی ہوئی تھیں، اور یہودی اُس کی تمام نفرت و حقارت کے باوجود اُس کے ہم سفر بن چکے تھے۔ وہ ایک آندھی کے ساتھ اُڑ رہا تھا ایک سیلاب کے ساتھ بہہ رہا تھا اور اب کسی نئے راستے یا منزل کے متعلق سوچنا اُس کے بس کی بات نہ تھی۔ لطیف اور نازک خیالات صرف اُس وقت پریشان کرتے جب اُسے رات کی تنہائیوں میں سوچنے کا موقع ملتا۔ لیکن اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ کا رُخ کرتے وقت وہ صرف ایک سپاہی رہ جاتا تھا۔ آئے دن اُس کے قدر دانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا لیکن اُس کی بڑھتی ہوئی شہرت و مقبولیت نے بعض لوگوں میں حسد و رقابت کے جذبات بھی بیدار کردیے۔ ایرج، سین کی فوج میں ایک ہزار سپاہیوں کا سالار ہونے کے باوجود عاصم کو اپنا حریف سمجھتا تھا۔ اُس کے دل میں پہلی ملاقات کی تلخی ابھی تک باقی تھی۔ اور اب وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ عرب جس سے برابر کی سطح پر بات کرنے کے تصور ہی سے اسے کراہت محسوس ہوتی تھی شہرت اور ناموری کے میدان میں سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ ایرج نے عاصم کو ایک ایرانی دستے کا افسر بنانے کی مخالفت کی تھی اور اُس کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ایرانی ایک عرب کی سرداری قبول نہیں کریں گے لیکن اب وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ ایرانی جنہیں اُس سے نفرت و حقارت سے پیش آنا چاہیے تھا، اُس کے پجاری بن چکے ہیں۔
O
ایک دن پرویز کی فوجیں یروشلم سے چار منزلوں کے فاصلے پر پڑائو ڈالے ہوئے تھیں کہ اچانک اُسے اطلاع ملی کہ غسانی قبائل کے ایک تازہ دم لشکر نے دفعتاً حملہ کرکے گلیلی کے دو شہروں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور اب یہ لوگ چند میل دور ایرانی افواج کے عقب میں جمع ہو کر کسی بڑے حملے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
غسانی عرب عیسائی تھے اور رومیوں کے طاقتور حلیف خیال کیے جاتے تھے۔ چنانچہ پرویز نے یروشلم پر حملہ کرنے سے پہلے ان کی طرف توجہ دینا ضروری سمجھتے ہوئے کسی توقف کے بغیر سین کو پیش قدمی کا حکم دیا۔ اس مہم میں یمن اور عراق عرب کے رضا کار بھی شریک ہوگئے۔ اس لشکر میں ایرانیوں کے علاوہ دو ہزار عرب سوار لخم، تمیم اور دوسرے حلیف قبائل کی نمائندگی کرتے تھے۔ بنوبکر کے پانچ سو سواروں کے ایک قوی ہیکل سردار کا نام حابس تھا۔ اور اس سے عاصم کی ابتدائی دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اُس کا دایاں ہاتھ کٹاہوا تھا۔ روانگی کے وقت سین نے اُسے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم بذاتِ خود اس مہم پر جانے کی بجائے، اپنے آدمیوں کی رہنمائی کے لیے کسی اور کو بھیج دو لیکن اس نے جواب دیا۔ ’’میرے قبیلے کے آدمی صرف میری موجودگی میں مردانگی کے جوہر دکھا سکتے ہیں اور میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ کسی سے پیچھے رہ جائیں‘‘۔ پھر جب ایک شہر کے باہر کھلے میدان میں لڑائی شروع ہوئی تو حابس کے سپاہی پہلے ہلے میں ہی دشمن کے قلب تک پہنچ چکے تھے۔ غسانی لشکر نے کچھ دور پیچھے ہٹنے کے بعد پوری قوت سے جوابی حملہ کیا اور اُس کے دائیں اور بائیں بازو کے سواروں نے آگے بڑھ کر حابس کے لیے پیچھے ہٹنے کا راستہ مسدود کردیا۔
تھوڑی دیر بعد پھر ایرانیوں کا پلہ بھاری نظر آنے لگا اور غسانی دوبارہ پیچھے ہٹنے لگے لیکن حابس کے جانباز ابھی تک اُن کے نرغے میں تھے۔ ایک شدید حملے کے بعد چند ایرانی اور عرب دستے دشمن کا گھیرا توڑ کر آگے بڑھے لیکن اتنی دیر میں حابس کے ڈیڑھ سو آدمی ہلاک اور زخمی ہوچکے تھے۔ وہ خود بھی زخمی اور بڑی مشکل سے گھوڑے پر اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اُس کے ساتھی اپنی تلواروں اور نیزوں کی مدد سے دشمن کو پیچھے ہٹارہے تھے۔ اچانک ایک غسانی کا نیزہ حابس کے گھوڑے کی گردن پر لگا گھوڑا اُچھلا اور حابس ایک طرف لڑھک گیا۔ اس عرصہ میں عاصم اور اُس کے ساتھیوں کے علاوہ ایرانی لشکر کے چند اور دستے اس کی مدد کے لیے پہنچ گئے اور انہوں نے دشمن کو پیچھے ہٹادیا۔ عاصم نے گھوڑے سے کود کر گرے ہوئے سردار کو اُٹھایا اور پلک جھپکتے میں اسے زین پر ڈال کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا، تھوری دیر بعد میدان صاف ہوچکا تھا۔ اور عاصم حابس کو ایک خیمے میں لٹا کر اس کی ران کے زخم پر پٹی باندھ رہا تھا۔
ایک ساعت بعد جب حابس کو ہوش آیا تو سین، ایرج اور چند عرب سردار اس کے گرد جمع تھے۔ اپنے تیمارداروں سے چند سوال کرنے کے بعد اس نے پوچھا۔ ’’اور وہ کون ہے جس نے میری جان بچائی ہے؟‘‘۔
تمیمی رضا کاروں کے سردار نے عاصم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا محسن یہ ہے؟‘‘۔
حابس کچھ دیر بغور عاصم کی طرف دیکھتا رہا پھر اُس نے احسان مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’نوجوان! میرے قریب آئو‘‘۔
عاصم آگے بڑھا اور حابس نے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘۔
ایرج نے کہا۔ ’’تمہیں خودکشی کے لیے میدان میں آنے کی ضرورت نہ تھی۔ تمہارے بے معنی جوش سے کئی کار آمد آدمی مارے جاچکے ہیں‘‘۔
حابس کا چہرہ غصے سے تمتما اُٹھا اور سین نے فوراً مداخلت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ کار آمد آدمی اِس لیے مارے گئے کہ جب حملہ کرنے کی ضرورت تھی تم تذبذب کی حالت میں کھڑے تھے اگر تم بھی عاصم کی طرح فرض شناسی کا ثبوت دیتے تو اُن میں سے اکثر کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں‘‘۔
ایرج جسے ہر معاملے میں سین سے دلجوئی اور ناز برداری کی توقع تھی، اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور چند ثانیے بعد جب یہ لوگ جنگ کے واقعات پر گفتگو کررہے تھے وہ اُن کی نگاہوں سے بچتا ہوا دبے پائوں خیمے سے باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد جب سین اور دوسرے لوگ حابس کے خیمے سے جانے لگے تو حابس نے سین سے کہا۔ آپ تھوڑی دیر ٹھہریئے میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
سین رُک گیا اور باقی لوگ خیمے سے باہر نکل گئے۔ حابس نے کہا۔ ’’مجھے اِس بات کا پورا احساس تھا کہ میں دائیں ہاتھ سے محروم ہونے کے بعد لڑنے کے قابل نہیں رہا لیکن لخمی اور تمیمی سرداروں نے میرے آدمیوں کو بزدلی کا طعنہ دیا تھا اور میں اُن پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ تلوار اُٹھائے بغیر بھی میں اپنے آدمیوں کو شیروں کی طرح لڑا سکتا ہوں۔ لیکن آئندہ کچھ عرصے کے لیے میں شاید گھوڑے پر سواری بھی نہ کرسکوں۔ اب میرے آدمیوں کو ایک اچھے رہنما کی ضرورت ہے اور یثرب کا یہ نوجوان، جس نے آج میری جان بچائی ہے، ہر لحاظ سے اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کا اہل ہے‘‘۔
سین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔ ’’آپ کے قبیلے کے آدمی اس کی قیادت میں لڑنا پسند کرلیں گے‘‘
’’کیوں نہیں! اُس نے میری جان بچائی ہے اور میرا ہر آدمی اُسے آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہوگا میں نے سنا ہے کہ اپنے قبیلے سے اُس کا رشتہ کٹ چکا ہے اگر وہ پسند کرے تو میں اُسے اپنے قبیلے میں داخل کرنے کو تیار ہوں۔ میں اُسے اپنا بیٹا سمجھوں گا‘‘۔
سین نے مضطرب سا ہوکر اُس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’وہ ایک سپاہی ہے اور ایران کی فوج کے سوااب اُس کا کوئی قبیلہ نہیں، میں اُسے رضا مند کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ وہ اپنے ایرانی دستے کو چھوڑ کر شاید کوئی بڑے سے بڑا عہدہ قبول کرنا بھی پسند نہ کرے‘‘۔
حابس نے پُرامید ہو کر کہا۔ ’’کیا یہ ایرانی دستہ میرے آدمیوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا؟‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’یہ ہوسکتا ہے۔ اگر تم اِس قدر مصر ہو تو وہ تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔ لیکن میرا خیال تھا کہ عرب صرف اچھے گھوڑے ہی کو پہچان سکتے ہیں‘‘۔
حابس مسکرایا۔ ’’جناب! میں پہلے دن اُس کا گھوڑا دیکھ کر ہی اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا‘‘۔
O
شام کے وقت ایرج، سین کے خیمے میں داخل ہوا اور اُس نے کہا۔ ’’جناب اگر آپ خفا نہ ہوں تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’کیا بات ہے، تم بہت پریشان معلوم ہوتے؟‘‘۔
’’جناب! مجھے معلوم ہے کہ آپ عاصم کو بہت چاہتے ہیں۔ اور میری بھی یہی خواہش ہے کہ آپ دل کھول کر اُس کی نیکی کا بدلہ دیں لیکن وہ فوج کے نظم و ضبط کی اہمیت قطعاً محسوس نہیں کرتا۔
سین نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’اس نے کیا کیا ہے؟‘‘۔
’’جناب! فوج کے کسی چھوٹے یا بڑے عہدہ دار کو اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس قدر مانوس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اُس کے ساتھ برابری کا دعویٰ کرنے لگیں۔ عاصم دوسروں کے لیے غلط مثال قائم کررہا ہے۔ آپ ذرا باہر نکل کر دیکھیں اُس کے سپاہی گارہے ہیں اور وہ اُن کے درمیان زمین پر بیٹھا ہوا ہے‘‘۔
’’تمہیں سپاہیوں کا گانا پسند نہیں‘‘۔
’’جناب! مجھے یہ شکایت ہے کہ وہ بھی اُن کے ساتھ گا رہا ہے اور اُسے اِس بات کا احساس تک نہیں کہ اس قسم کی بے تکلفی سے سپاہیوں کے دل سے اپنے سالار کا رعب اُٹھ جاتا ہے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’ایک سالار کی کامیابی کا اندازہ اُس کے سپاہیوں کی جرأت اور فرض شناسی سے لگایا جاتا ہے اور ہماری فوج کا کوئی دستہ عاصم کے سپاہیوں سے زیادہ بہادر اور فرض شناس نہیں۔ وہ انہیں کوڑے سے ہانکنا پسند نہیں کرتا لیکن جہاں تک اپنے احکام کی تعمیل کرانے کا تعلق ہے فوج کا کوئی سالار اُس سے زیادہ کامیاب نہیں‘‘۔ ایرج نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’جناب! ابھی میں اُن کے قریب سے گزر رہا تھا۔ لیکن میرا ادب یا احترام تو درکنار کسی نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ فوج کے دوسرے افسروں کو بھی یہ شکایت ہے کہ اُس کے سپاہی بہت گستاخ ہوگئے ہیں اور وہ کسی کی پروا نہیں کرتے۔ مجھے عربوں کے ساتھ اُس کے میل جول پر کوئی اعتراض نہیں، وہ یوں بھی کسی ضبط و نظم کی پابندی نہیں کرتے لیکن سپاہیوں اور عہدہ داروں کے درمیان یہ بے تکلفی ایرانی فوج کی روایات کے منافی ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ