شعرو شاعری

386

جگر مراد آبادی
کسی صورت نمودِ سوزِ پنہائی نہیں جاتی
بُجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینے سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

یگانہ چنگیزی
خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہء درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا
ہنسی میں وعدۂ فردا کو ٹالنے والو
لو دیکھ لو وہی کل آج بن کے آ نہ گیا

حفیظ جالندھری
ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا، ہم نہ تمہیں بھلا سکے
تم ہی نہ سن سکو اگر، قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے
ہوش میں آچکے تھے ہم، جوش میں آچکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے
رونقِ بزم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں، لب نہ مگر ہلا سکے
شوقِ وصال ہے یہاں، لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں، ہم سے نظر ملا سکے
ایسا بھی کوئی نامہ بر! بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کرسکے، جاکے انہیں سنا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمیء مزاجِ دوست
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آسکے
اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تری طرح حفیظؔ، درد کے گیت گا سکے

سیماب اکبر آبادی
چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے
قفس کی پتلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش دردِ محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی، وہاں معلوم ہوتی ہے
نہ کیوں سیماب مجھ کو قدر ہو ویرانیئ دل کی
یہ بنیادِ نشاطِ دو جہاں معلوم ہوتی ہے

اصغر گونڈوی
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے، ذرے میں بیاباں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگِ گلستاں ہے
اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدئہ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا ، اپنا ہی گریباں ہے

عزیز لکھنوی
یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رُو کرتے
زبان رک گئی آخر سحر کے ہوتے ہی!
تمام رات کٹی دل سے گفتگو کرتے
سوادِ شہرِ خموشاں کا دیکھیے منظر!
سنا نہ ہو جو خموشی کو گفتگو کرتے
تمام روح کی لذت اسی پہ تھی موقوف
کہ زندگی میں کبھی تم سے گفتگو کرتے
جواب حضرتِ ناصح کو ہم بھی کچھ دیتے
جو گفتگو کے طریقے سے گفتگو کرتے
پہنچ کے حشر کے میداں میں ہول کیوں ہے عزیزؔ
ابھی تو پہلی ہی منزل ہے جستجو کرتے

بیخود دہلوی
وعدے کا ذکر، وصل کا ایما، وفا کا قول
یہ سب فریب ہیں دلِ شیدا کے واسطے
اے ضبطِ گریہ خاک میں مل جائے کاش تو
آنکھیں ترس گئیں مری دریا کے واسطے
وحشت یہ کہہ رہی ہے دلِ داغ دار کی
اس باغ کی بہار ہے صحرا کے واسطے
مایوسِ آرزو بھی ہوں مانوسِ یاس بھی
دل میں جگہ نہیں ہے تمنا کے واسطے

مصطفی تبسمؔ
ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں
وہ قافلے جو تری رہگزر سے گزرے ہیں
ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقشِ پاکا گماں
قدم قدم پہ تری رہگزر سے گزرے ہیں
نہ جانے کون سی منزل پہ جاکے رک جائیں
نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں
کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں
غمِ فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں
جہاں سرور میسر تھا جام ومے کے بغیر
وہ میکدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں

عبدالمجیدخان سالک
ہم نفسو! اُجڑ گئیں سب مہر و وفا کی بستیاں
پوچھ رہے ہیں اہل دل مہر و وفا کو کیا ہوا
عشق ہے بے گداز کیوں، حسن ہے بے نیاز کیوں
میری وفا کہاں گئی، ان کی جفا کو کیا ہوا
اب نہیں جنتِ مشام کوچۂ یار کی شمیم
نگہت زلف کیا ہوئی، بادِ صبا کو کیا ہوا
نالۂ شب ہے نارسا، آہ سحر ہے بے اثر
میرا خدا کہاں گیا، میرے خدا کو کیا ہوا

آرزو لکھنوی
پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی جھلک گئی
کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے
پلکیں جھکیں، پپوٹے تنے، آنکھ تھک گئی
ندّی بھی آنسوئوں نے بہادی تو کیا ہوا
کھولن جو تھی لہو میں نہ وہ آج تک گئی
جس نے اڑادی راتوں کی نیند اور دن کا چین
جی سے نہ پھر بھی آرزو اس کی للک گئی

حصہ