نانی کے گھر سے نانی کے مندر تک

190

(اقراءتفہیم القرآن حسین آباد)

ایک دن ہم کھانے سے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماموں جان گاڑی لے کر آگئے کہ بیلہ چلو۔
امی نے تیاری تو پہلے سے کرلی تھی اور ابوجان سے اجازت بھی لی جاچکی تھی جلدی جلدی سب تیار ہوئے بیلہ کے لیے روانہ ہوئے آخر کار رات بارہ بجے کے قریب نانی کے گھر پہنچے تھکاوٹ کی وجہ سے جلد ہی نیندکے آغوش میں چلے گئے ۔
عیدکے دوسرے دن ہمارے نانا(امی کے چچا) نے اعلان کیاکہ سب خاندان والے میرے ساتھ کنڈ ملیرکی سیرکے لیے چلیں ہماری خوشی کاٹھکانانہ رہاکنڈ ملیر کی بہت تعریف سن رکھی تھی۔ فوراًامی سے کہاکہ ابوکو فون کریں اور ان سے اجازت لیں امی نے اجازت لے کر ہمیں تیار کیااور صبح سویرے ہم کنڈ ملیر کے لیے روانہ ہوئے سفر تقریبا چار گھنٹے کاتھا،ریسٹ ہاوس میں سب نے سیر ہوکر کھاناکھایاپھر سب سمندر کی لہروں کی طرف متوجہ ہوئے لہریں اتنی تیز تھیں کہ ایسالگتاتھا کہ ہم گئے پانی کے ساتھ،سمندر کاپانی کراچی کے سمندر کے مقابلے میں بے حد صاف ستھراتھااور پانی بہت تیز تھا یہاں پر کشتیاں اورجہاز بھی تیرتے نظر آرہے تھے میں بھی پہلی بار بڑے پانی میں گئی ہم اللہ کی بڑی نعمت پانی سے لطف اندوز ہورہے تھے اور اللہ کاشکر ادا کررہے تھے کہ اللہ نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کوبے پناہ وسائل سے نوازا ہے ۔
تین گھنٹے نہانے کے بعد ہم ہنگلاج کے مندر(جسے ہندونانی کامندرکہتے ہیں )روانہ ہوئےراستے میں عجیب وغریب انداز کے پہاڑ دعوت نظارہ دے رہے تھے اللہ کی قدرت بتا رہے تھے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہےجب ہم نانی کے مندر پہنچے وہاں ہمیں مختلف قسم کے بت نظر آئے جن کے ہندوں نے اپنے عقیدے کے مطابق مختلف نام رکھے ہوئے تھےمثلا:مومائی ماتا، چترالی ماتا، سانی ماتا، کالی ماتاہم نےہندوں کی پوجا پاٹ بھی دیکھی یہ بھی دیکھاکہ وہ لوگ بتوں کے سامنے مختلف چیزیں دودھ ،بادام ،چنے ،پیسے وغیرہ رکھ رہے تھے۔
یہاں کاسب سے بڑا بت کالی ماتاکاہے ایک اور بت جس کانام مومیائی ماتاہے وہ پہاڑ پر ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں جن پر چڑھنابہت مشکل تھا۔
اس جگہ بڑے اچھے انتظامات تھے کھانے پینے کی دکانیں ،پانی کی ٹنکیاں ، اور باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے رہائش کااچھاانتظام بھی تھاہمارے اس یادگار سفر کااختتام رات دس بجے ہوااور ہم یہ سوچتے ہوئے واپس نانی کے گھر پہنچ گئےکہ کاش یہ لوگ ایک خدا کو ماننے والے بن جائیں تو کتنا اچھا ہو۔

حصہ