دیوبند کا تاریخی آل انڈیا مشاعرہ

460

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے وسط میں یکم جون 1926ء کو دیوبند کی تاریخ میں ایک تاریخی مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ تاریخی اس لحاظ سے کہ محمد حنیف قریشی کے گھر میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے ان کے بلند اقبال صاحبزادے کی ختنہ کی تقریب کی خوشی میں یہ مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ختنہ کی تقریب میں کسی بادشاہ کو تو مشاعرہ کرانے کی توفیق کبھی نصیب نہیں ہوئی، البتہ صاحبِ ثروت مہاش محمد حنیف قریشی کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی۔ اس لحاظ سے اس مشاعرے کو تاریخی کہا جاسکتا ہے۔
اس تاریخی مشاعرے کی روداد ماہنامہ تجلی کے مُلّا ابن عرب مکی نے شائع کی تھی۔ اس ضمن میں وہ رقم طراز تھے کہ چونکہ شیخ اسرار حسین میرے ہمسائے تھے، اور ہمسائے کے حقوق پر تجلی میں وعظ و پندو نصاح جلوہ افروز ہوتے رہتے تھے۔ اس لیے ایسے ہمسائے کی دلداری نہایت ضروری تھی جو سر توڑنے کی دھمکی دیتے دیتے رو بھی سکتا ہو۔
مشاعرے میں کچھ نہ کچھ پڑھنا میرا بھی وطنی فرض تھا۔ نہ جانے یہ خیال کھوپڑی میں کیسے اور کہاں سے آکودا کہ مشاعرہ جب ختنہ کی تقریب کے سلسلے میں ہورہا ہے تو اشعار میں بھی اس رعایت سے کچھ نہ کچھ ذکر ہونا چاہیے جیسے یوم آزادی کے مشاعرے میں آزادی کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو نہ صرف مشاعرہ کرانے والے بزرگ کی باچھیں کھل جائیں گی بلکہ تمام شعراء اور سامعین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ مگر نتیجہ دردناک نکلا، نصف درجن پیالیاں چائے کی چڑھاکر اور اتنے ہی پیکٹ سگریٹ کے پھونک کر چار گھنٹے کی دماغ سوزی کا حاصل بس ایسے ہی چند اشعار نکلے جنہیں اگر غلطی سے مشاعرے میں پڑھ دیا جاتا تو بعید نہیں کہ نستعلیق قسم کے سامعین ملا کی گردن توڑ کر ہاتھ میں تھمادیتے۔ ویسے بھی یہ مشاعرہ ایک بڑے سرکاری شریمان کی صدارت میں ہورہا تھا۔ گردن ہی تک بات نہ رہتی، ہوسکتا تھا مال و جائداد بھی بحق شائستگی ضبط ہوجائے۔ مال، جائداد مجھ جیسے حقیر فقیر کا بیوی بچوں کے سوا کیا ہوسکتا ہے!
مشاعرے سے قبل
یہ سوچ کر میں کانپ گیا اور کھوپڑی کو جلدی جلدی زور زور سے جھٹکے دیے تاکہ نازل شدہ اشعار ایک دوسرے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں۔
دوسرے روز یہ سوچ کر جنگل کی طرف جانکلا کہ موضوع کے چکر میں رہا تو ایک شعر بھی ڈھنگ کا نہ بن سکے گا۔ فضا خوشگوار تھی، موسم کسی اسمارٹ حسینہ کی طرح چھل بل دکھا رہا تھا۔
افق پر شفق کی رنگینیاں اس طرح بکھری ہوئی تھیں کہ بے اختیار ایک نظم الہام کی طرح نازل ہونی شروع ہوگئی:
میری محبوب، میری جانِ تمنا عذرا
آ چلیں۔ دور بہت دور۔ افق کے اس پار
رقص کرتے ہوئے گاتے ہوئے، اِٹھلاتے ہوئے
نغمۂ شوق بہ لب، سازِ تمنا بہ کنار
عشق اور حسن کو دنیا نہیں ملنے دیتی
آؤ ہم بھاگ چلیں۔ بند نہیں راہِ فرار
دفعتاً دماغ کے کسی دور افتادہ گوشے سے مہین سی آواز آئی، یہ شاید عذرا بولی تھی۔ اس کا لہجہ بڑا سپاٹ تھا۔ بالکل غیر شاعرانہ لہجے میں کہنے لگی:
کیا کہا بھاگ چلیں…؟ ٹھیک کہا، بھاگ چلو
ہاں مگر کون سا ٹاؤن ہے اُفق کے اس پار ؟
بمبئی؟ دارجلنگ؟ ٹوکیو؟ پیرس؟ لندن؟
نام بتلاؤ کہ آئے دلِ مضطر کو قرار
چند زیور تو مرے پاس ہیں، لے آؤں گی
تم مگر نقد مہیا کرو دو چار ہزار
میرا موڈ ایک دم بگڑ گیا۔ ہونہہ دو چار ہزار! مجھے بھی پگلی نے محمد حنیف قریشی سمجھا ہے۔ اتنے میں کہیں دور سے ریڈیو کی آواز آئی:
پاپی پپیہا رے پی پی نہ بول بیری پی پی نہ بول
ستیاناس۔ پپیہا پی پی نہیں بولے گا تو کیا ڈھینچوں ڈھینچوں کرے گا؟
اب میں سرپٹ دوڑا چلا گیا۔ جب آواز کی رینج سے نکل گیا تو ذہن پھر نظم کی طرف مائل ہوا۔ عذرا کی لغو گوئی کا جواب دینا ہی تھا۔
جانِ من تُو نے یہ کیا کہہ دیا لاحول ولا
عشق کے بندوں کو دولت سے بھلا کیا سروکار
میں تمھیں چاند ستاروں کے خزانے دوں گا
تم کو پہناؤں گا رنگین تمناؤں کے ہار
ساتھ زیور کے زرِ نقد بھی تم ہی لے آؤ
میں بھی لے لوں گا کسی دوست سے دس بیس ادھار
معاً ایک چھنا کے دار قہقہہ بلند ہوا۔ میں نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کہیں کوئی نہیں تھا۔ ظاہر ہے یہ تو عذرا کی ہنسی تھی جو دیر تک صدائے بازگشت کی طرح میری کھوپڑی کی دیواروں سے ٹکراتی رہی، پھر وہ بڑے جلے بھنے لہجے میں بولی:
تم لفنگے ہو ، چلو یوں نہ ہمیں بور کرو
کان مت کھاؤ۔ ہٹو آئے بڑے عاشق زار
آج میں سمجھی کہ تم سے تو کہیں بہتر ہے
مس فریدہ کا بڑا بھائی وہ عبدالستار
بینک بیلنس بھی رکھتا ہے، مہذب بھی ہے
کم سہی عقل میسر ہے اسے موٹر کار
میں نے آگ بگولہ ہو کر اپنی کھوپڑی پر دو چار گھونسے رسید کیے۔ ایسی بورژوائی ذہنیت کی محبوبہ کو مجھ جیسا کلرکی سطح کا عاشق تھیلیاں کہاں سے پیش کر سکتا ہے، ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ ریڈیوکی آواز پھر آئی:
پی پی نہ بول بیری پی پی نہ بول
مجھے یہی محسوس ہورہا تھا کہ یہ پی پی مجھے چڑانے کے لیے ہورہی ہے۔ ادھر عذرا کے سنگین الفاظ بھیجے میں ٹھونگیں سی مار رہے تھے۔ طبیعت چورنگ ہوکررہ گئی۔ قمیص کے دامن سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے میرے منہ سے نکلا:
اُف یہ توہین، یہ تضحیک، یہ کوری انسلٹ
ہائے یہ کم نظری وائے یہ گھٹیا افکار
مس فریدہ کا بڑا بھائی وہ موٹا کنجوس
پیٹ پر جس کے بنا ہے کسی ہاتھی کا مزار
کر دیا خود کو اگر اس کے حوالے تم نے
پھر تو سمجھو تمھارا بھی ہوا بیڑا پار
بوٹیاں نوچو گی، جھلاّؤ گی، پچھتاؤ گی
تم اکیلی ہی افق پار چلی جاؤ گی
موضوع سخن ۔ شہہ پارے یا خرافات
جب میرے ہمسائے شیخ اسرار حسین نے سوال کیا:
’’کیوں ملاّ اب کے تمھاری خرافات کس موضوع پر آرہی ہے؟‘‘
’’خدا آپ پر رحم کرے، جب ناچیز کے شہ پارے آپ کو خرافات ہی نظر آتے ہیں تو ہر ماہ پڑھنے کی زحمت پھر کیوں گوارا فرمائی جاتی ہے؟‘‘
’’آدمی زندگی میں بہتیرے فضول کام کرتا ہے، ایک یہ بھی سہی۔ غیر متعلق باتیں مت کیا کرو، بتاؤ کیا اب کے مشاعرے پر کچھ لکھ رہے ہو؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے انھیں گھور کر سوال کیا۔ ان کے لب و لہجے سے یہ اندازہ نہیں ہوسکا تھا کہ فرمائش کررہے ہیں یا منع کرناچاہتے ہیں۔
’’تم بھی برخوردار کنویں کے مینڈک ہی رہے۔ اماں اپنے دیوبند میں اتنا شاندار مشاعرہ ہوگیا اور تم آنکھیں نکال کر پوچھ رہے ہو کیوں؟‘‘
’’اوہ… غالباً اس لیے بھی لکھنا ضروری ہے کہ اس میں آپ کی غزل بہت کامیاب رہی تھی۔‘‘
’’خیر یہ بات تو نہیں مگر مشاعرے پر لکھنا دیگر وجوہ سے ضروری معلوم ہوتا ہے‘‘۔
’’دیگر وجوہ‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک پیدا ہوگئی تھی جس میں کچھ خواب سے لہراتے نظر آرہے تھے۔ وہ شرمیلے سے انداز میں مسکرائے بھی تھے، گویا کسی خاص نکتے کی طرف اشارہ کررہے ہوں۔
’’دیگر وجوہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، اُن کی مسکراہٹ اب ذرا نکھر گئی۔ شگفتہ لہجے میں بولے:
’’اب تم اتنے احمق بھی نہیں ہو کہ دیگر وجوہ کا مطلب نہ سمجھ سکو۔ ایمان سے کہو کیا نئی شاعرہ شبنم اٹاوی نے سماں نہیں باندھ دیا تھا؟‘‘
میری ریڑھ کی ہڈی میں لہر سی دوڑ گئی۔
’’آہا‘ تو یہ بات ہے۔ مگر شیخ صاحب آپ کی عمر ساٹھ سے تو کم نہ ہوگی‘‘۔
’’لاحول ولا قوۃ الّا باللہ۔ تم لغو گوئی سے باز نہیں آ سکتے۔‘‘
’’کچھ بھی کہیے قبلہ۔ مجھے محترمہ شبنم صاحبہ کی عمر بیس بائیس سے زیادہ نظر نہیں آتی‘‘۔
’’اماں تو میں کون سا پیغامِ نکاح بھجوا رہا ہوں‘‘ وہ جھنجھلا کر بولے۔ ویسے آواز نکھری ہوئی تھی۔ ’’تم اتنے دنوں سے صوفیوں کی صحبت اٹھا رہے ہو پھر بھی تمھاری جمالیاتی حس مُردہ کی مُردہ ہی رہی۔ اچھا بتاؤ کبھی غالب کو پڑھا ہے؟‘‘
’’غالب پر تو میں سند ہوں، آپ مدعا بیان فرمائیں‘‘۔
میں چکرا سا گیا تھا، کیوں کہ موضوعِ کلام سے ان کے سوال کا جوڑ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
’’نہیں، پہلے بتاؤ غالب کو تم کیسا شاعر سمجھتے ہو؟‘‘
’’بہت بڑا، مگر آپ سے کچھ کم۔‘‘
’’چانٹا کھاؤ گے، اماں وہ یاد نہیں غالب کیا کہہ گئے ہیں:
گو ہاتھوں میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دَم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے‘‘
’’اوہو… میں آپ کو اتنا زندہ دل نہیں سمجھتا تھا۔ پھر تو اٹاوہ کچھ دور نہیں ہے۔ مجھے بھی سرونٹ کی حیثیت سے ساتھ لے چلیے گا، بڑا رعب پڑے گا‘‘۔
’’تمسخر نہ کرو‘‘، وہ خشک لہجے میں بولے۔ پھر یکایک ان کا چہرہ بڑا سنجیدہ اور لہجہ فلسفیانہ ہوگیا ’’عورت، کچلی ہوئی مظلوم عورت، صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی و مساوات کی کھلی ہوئی فضا میں قدم رکھ رہی ہے۔ ہم اگر بالکل ہی جانور نہیں ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیں، اس کی ہمت بڑھائیں، اس کی دل داری کریں۔‘‘
’’باپ رے۔ اب آپ اخلاقیات پر بور کریں گے، میں تو شیخ صاحب خود بھی مغرب کی مکمل پیروی کے حق میں ہوں، یہ کیا آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ شبنم بیچاری نے میک اپ تو بڑا شاندار کیا تھا مگر آپ جانتے ہی ہیں ایسی گرمی میں زیادہ شائستہ لڑکیاں ہلکا پھلکا اسکرٹ پسند کرتی ہیں‘‘۔
’’تمھارا بھیجہ سڑ گیا ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کے ساتھ ساتھ مشرقی قدروں کا بھی لحاظ رکھنا ہے‘‘۔
’’پھر تو میں شبنم صاحبہ کو آپ کی طرف سے لکھ بھیجوں گا کہ مشاعرے میں برقع پہن کر غزل پڑھا کریں‘‘۔
’’یہ مطلب نہیں ہے۔ برقع تو ایک جاہلانہ رسم ہے، یہ رسم مرد کی خودداری اور دیانت کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ تم جس چیز کو پردوں میں چھپاؤ گے دوسروں میں اسے پا لینے کی تحریک ضرور پیدا ہوگی‘‘۔
’’زندہ باد‘‘ میں نے نعرہ لگایا… ’’غالباً یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں پردہ نہیں ہے وہاں آدمی اور فرشتے میں فرق کرنامشکل ہوگیا ہے۔ کیا مجال کوئی مرد اپنی بیوی کے سوا کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لے… اچھا شیخ صاحب ہم اگر اٹاوہ چلیں تو کیا آپ شبنم کو بیٹی کہہ کر مخاطب کرسکیں گے؟‘‘
’’بیٹی ہوگی وہ تمھاری‘‘، وہ تڑ سے بولے، مگر فوراً ہی جیسے اپنی غلطی محسوس کرلی ہو۔ حلق کے بل غرّائے: ’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب تو آپ سمجھ چکے ہیں… نہ سمجھے ہوں تو کوئی رومانی ناول پڑھیے، فلم دیکھیے۔ ‘‘ (جاری ہے)

حصہ